گاندھی گارڈن سے ڈائنوسار پارک تک

سفاری پارک میں ڈائنوسار کا قیام

1843میں تالپور حکم رانوں کو میانی کے میدان میں شکست دے کر انگریز سندھ پر قابض ہوگئے اوراس کا نظم و نسق سرچارلس نیپئرکے حوالے کیا گیا ۔ چالس نیپئر بزور طاقت مقبوضہ علاقوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے جنگ و جدل میں الجھا رہا اس لئے اسےخطے کے باسیوں کے مسائل پر توجہ دینے کا موقع نہیں ملا۔چارلس نیپئر کے بعد 1851 میں سر ہنری برٹیل ایڈورڈ فرئیر، برطانوی حکومت کی جانب سے سندھ کے کمشنر تعینات کیے گئے۔ انہوں نے صوبے میں امن امان قائم کرکے اپنی رعایا کی معاشی و سماجی زندگی سدھارنے پرتوجہ مرکوز کردی۔ انہوں نے کراچی میں متعدد تعمیرات کرائیں جو آج بھی ان کے عہد حکومت کی یاد تازہ کرتی ہیں۔کراچی کا چڑیا گھربھی انہی یادگاروں میں شامل ہے۔ کراچی زولوجیکل گارڈن، 1870 میں تعمیر کرایا گیا جو ایڈورڈ فیرئیرنے مہاتما گاندھی کے نام سے موسوم کردیا۔ قیام پاکستان اور پاکستان بننےکے کئی عشرے بعد تک جنگلی حیات کا یہ مسکن ’’گاندھی گارڈن ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔اس میں دنیا بھر سے نایاب قسم کے جانور، درندے، چرند، پرند لا کر رکھے گئے تھے۔ زولوجیکل کے ساتھ اسے بوٹنیکل گارڈن کا درجہ بھی حاصل تھا ۔ اس میں آج بھی مختلف اقسام کے دو سوسالہ قدیم درخت موجود ہیں۔چڑیا گھر میں لوگ ہاتھی کی سواری سے بھی لطف اندوزہوتے ہیں،جس پر سوار ہونے کے لیے پلیٹ فارم بنا ہوا ہے۔

ہمارے لیے یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ مہاتما گاندھی کے نام سےموسوم، گاندھی گارڈن میں جانوروں کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے میڈیکل سینٹر بھی بنایا گیا ہے جس میں بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والے طبی ماہرین تعینات کیے گئے ہیں۔ چند ماہ پیشتر یہاں دو ہتھنیوں مدھوبالا اور نورجہاں کی ڈینٹل سرجری بھی کی گئی تھی۔دونوں ہتھنیوں کے دانتوں میں انفیکشن اور شدید درد کی اطلاع ملنے کے بعد آسٹریا کی بین الاقوامی تنظیم ’’ فور پاز‘‘ کے طبی ماہرین کی ٹیم ان کے علاج کی غرض سے پاکستان آئی تھی۔طبی ماہرین کے مطابق مدھوبالا کا ایک دانت بالکل گل گیا تھا۔( اب یہ نہیں معلوم وہ کھانے کا تھا یا دکھانے کا) مارچ 2023 میں نورجہاں نامی ہتھنی بیمار ہوئی تو چڑیا گھر کے افسران سمیت تمام صوبائی حکام فکرمند ہوگئے۔ ’’فورپاز تنظیم ‘‘ کے ڈاکٹروں کی ٹیم کو فوراً کراچی طلب کیا گیا ۔ کراچی کا پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا بھی نورجہاں کی بیماری کے بارے میں عوام کو تازہ خبروںسے آگاہ کرتارہتا تھا۔ لیکن افسوس ، ڈاکٹروں کی جان توڑ کوششوں کے باوجود نورجہاں قید حیات سے رہا ہوگئی۔ سارے ملک ، خاص طور سے کراچی میں اس کا سوگ منایا گیا۔

چند سال سے پا کستان کے دوسرے قدیم ترین چڑیا گھر کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ زیادہ تر جانور، سفاری پارک یا کورنگی کے چڑیا گھر میں منتقل کردیئے گئے ہیں۔کروڑوں روپے سے زائد کا فنڈ دئیے جانے کے باوجود روزانہ اس کی بندش کی افواہیں گردش کرتی ہیں۔

پاکستان بننے کے چندعشرے بعد تک عوام کے تفریحی مقاصد کے لیے کراچی میں متعدد پارکس تھے لیکن جنگلی حیات کا محفوظ مسکن ، صرف گاندھی گارڈن میں ہی واقع تھا۔پاکستان بننے کے بعد کراچی میں آبادی کا حجم بڑھنے کے باعث کراچی زولوجیکل گارڈن پربہت زیادہ دباؤ پڑ گیا تھا جس کے بعد جنگلی حیات کو رکھنے کے لیے مزید ٹھکانوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس کے لئے اصل مسئلہ زمین کے حصول کا تھا۔
جنرل یحییٰ خان کی مارشل لا حکومت کا دور تھا، ملکی وغیرملکی ماہرین حیوانات نے اس سلسلے میں مغربی پاکستان کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل عتیق الرحمن سے اس بارے میں گفتگو کی۔ گورنر سندھ نےان کی گفتگو پر غور کرتے ہوئےجنگلی حیات کے تحفظ اور انہیں قدرتی ماحول میں آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے بڑے جنگلی حیات کے بڑے مرکز کی تعمیر کے لیے مختلف علاقوں کا سروے کرایا۔ جب انہیں سروے رپورٹ پیش کی گئی تو انہیں یونیورسٹی روڈ، این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کے قریب ایک بڑا قطعہ اراضی پسند آیا جو تقریباً407 ایکڑ رقبے پر مشتمل تھا اور جنگلی حیات کے تحفظ اور انہیں قدرتی ماحول فراہم کرنے کے لیے بہترین جگہ تھی۔

22جون 1970ء کواس جگہ شہر کا جدید سفاری پارک بنانے کے لئے لیفٹیننٹ جنرل ایم عتیق الرحمن نے اپنے دست مبارک سے اس کا سنگ بنیاد رکھا۔سینکڑوں ایکڑ وسیع و عریض رقبے پر محیط قیمتی اراضی جو سفاری پارک کے لئے مختص کی گئی اسے لینڈ مافیا اور بااثر شخصیات کی دست برد سے بچانے کے لیے اس کے چاروں اطراف چار دیواری تعمیر کی گئی ۔ایک عارضی سائٹ آفس بنوایا گیا تاکہ سفاری پارک کی تعمیر کا آغاز کیا جاسکے لیکن بدقسمتی سے اس کے ایک سال بعد ہی مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہوا۔ پاکستان دو لخت ہوگیا، یحییٰ خان کی حکومت ختم ہوگئی اوربچے کچھے پاکستان پر نئے حکمرانوں نے اقتدار سنبھالا۔

14 سال تک مارشل لا حکومت کے زمانے میں منظور ہونے والے تمام پروجیکٹس پر کام رک گیا۔ ملکی حالات میں بہتری آنے کے بعد جب ترقیاتی منصوبوں پر دوبارہ کام شروع ہوا توسفاری پارک پروجیکٹ کی فائلیں بھی نکالی گئیں۔ تعمیراتی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم بنائی گئی جس میں آرکیٹیکٹس ، انجینئرز اور پلانرز کو شامل کیا گیا تاکہ سفاری پارک کی تعمیر کا کام شروع کرایا جاسکے۔ لیکن کچھ عرصے بعد مذکورہ ٹیم کی رپورٹ اور سفارشات کو نظرانداز کرکے یہ منصوبہ سرخ فیتے کی نذر ہوگیا۔کچھ عرصے بعدایک سرکاری اجلاس میں حکومتی سطح پر یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ جنگلی حیات کے مجوزہ مسکن کی زمین کو سندھ حکومت واپس لے کر اس پر کوئی دوسرا پروجیکٹ شروع کرائے۔اجلاس میں شریک بعض افسران نے حکومتی فیصلے کی سخت مخالفت کی۔ انہوں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ پر سفاری پارک کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دباؤ ڈالا۔ یوںاس پروجیکٹ پر کام شروع ہوا۔

سفاری پارک کا پروجیکٹ انتہائی جامع، جانوروں، پرندوں اور پودوں کے تحفظ اور قدرتی ماحول میں پرورش اور نشو نما پر مشتمل تھا۔ اس میںویٹرنری کالج کےقیام کا بھی منصوبہ بھی شامل تھا۔اس پارک میں بچوں کے کھیل کود اور تفریحی سرگرمیوں کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا کہ بچے اورچین و سکون کے ساتھ تفریح کے لمحات گزار سکیں ۔ 1982 میں سفاری پارک کا ماسٹر پلان منظور کیا گیا اور تعمیر شروع ہوئی۔ چند سال بعد کراچی میں جنگلی حیات کا عظیم الشان مرکز بن کر تیار ہوگیا جسے کچھ روز بعدہی عوام کے لیے کھول دیا گیا۔

پارک میںجنگلی جانوروں کے لئے 23 انکلوژرز بنائے گئے جہاں وہ آزادی کے ساتھ گھومتے ہیں۔ اس وقت یہاں 9 مختلف اقسام کے 206 پرندے15 اقسام کے 163 ممالیہ جانواقسام موجود ہیںر، زمین پر رینگنے والے جانوروں کی 8 اقسام موجود ہیں۔مجموعی طور پر سفاری پارک میں 377 چرند، پرندے موجود ہیں۔ جون2009ء میں افریقہ سے ہاتھی کے دو بچے سفاری پارک لائے گئےتھے، انہیں سونو اور ملکہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ آج بھی پارک میں تفریح کی غرض سے آنے والے افراد کی توجہ کا مرکز ہیں۔شہری حکومتوں نے اس پارک کو سر سبز رکھنے کے لیےشجر کاری پر توجہ دی، مختلف اقسام کے پودے لگائے گئے۔ 1995ء میں بلدیہ کراچی نے محکمہ زو، سفاری اینڈ ایکوریم کے نام سے ایک الگ محکمہ قائم کیا۔

پارک کی تعمیر کے وقت 500 فٹ بلند پہاڑیاں اورجنگلاتی علاقہ موجود تھاجب کہ قدرتی تالا ب بھی موجود تھے۔ جھاڑیوںکے ساتھ کچے راستے اور پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے لوگ خود کو فطری ماحول میں محسوس کرتے تھے۔ ایک پہاڑی کی چوٹی پر برجیاں اور ایک احاطہ او ر اونچا سا چبوترا بنوایاگیاجسے چارو ںطرف زنجیر لگا کرمحفوظ کردیا گیا۔ اس پر کھڑے ہو کر لوگ دور دراز کے علاقوں کا نظارہ کرتے تھے۔پہاڑی بلندیوں پر سیر کرنے کے لیے چیئر لفٹیں لگائی گئیں۔ خوف ناک درندوں ، ہرن، بارہ سنگوں ، زرافے اور دیگر جنگلی حیات کی رہائش کے لیے مکمل قدرتی ماحول مہیا کیا گیا۔ ان کا مسکن پارک کے مرکزی داخلی دروازے سے دائیں ہاتھ پر ایک یا ڈیڑھ کلومیٹر آگے تھا۔

سیاحوں کو وہاں تک لے جانے کے لیے کوسٹر بسوں کی سہولت دی گئی۔ ان بسوں کی کھڑکیوں اور دروازوں کو بند کرکے مسافروں کو پہاڑی بلندیوں، گھاٹیوں، کچے پکے راستوں، تالابوں سے گزار کرجنگلاتی علاقے میں لے جایا جاتا تھا۔ لوگوںکو وہاں کے مناظر نیشنل پارک کی طرح لگتے تھے، جہاں درندوں سمیت ہمہ اقسام کےجنگلی جانورقدرتی ماحول میں آزادانہ طور پر دوڑتے ، بھاگتے دکھائی دیتے تھے۔ اپنی محفوظ سواری سے صرف چند گز کے فاصلے پر وہ مختلف اقسام کی جنگلی حیات اس قدر قریب دیکھ کر خود کوایک نئی دنیا میں محسوس کرتے تھے۔

آج بھی لوگ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اس پارک میں تفریح کی غرض سے آتے ہیں ۔ یہاں ہرن، لال ہرن، نیل گائے، چنکارہ غزال،اونٹ، گھوڑے، پہاڑی بکرے، داڑھی والے سرخی مائل بھیڑیں اور دیگر جانور کی موجودگی بھی شہریوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہے۔ سفاری پارک میں’’جھرنا لیک‘‘ کے نام سے قدرتی جھیل بھی ہے۔یہ جھیل 200 سے زائد مقامی وسرد ممالک سے ہجرت کرکے آنے والے غیر مقامی ِ پرندوں کا مسکن ہے۔ جھیل کےاندرمگرمچھ اور کچھوے بھی موجودہیں۔ چند عشرے قبل تک یہاں آنے والوں کواپنا اور اپنے ہمراہ آنے والوں کا صرف داخلہ ٹکٹ اورسفاری ایریا کی سیر کے لیے سواری کا ٹکٹ لینا پڑتا تھا۔چئیر لفٹ اور جنگل کی سیر کےلیے کوسٹر گاڑی کے ٹکٹ کے علاوہ کوئی دوسرے اخراجات انہیں نہیں کرنا پڑتے تھے۔2015 کے بعد یہ پارک بھی حکومتی عدم توجہی کے باعث اجڑتا گیا۔

2020کے بعداس میں تجارتی نقطہ نظر سے تبدیلیاں کی گئیں۔ پارک کا بڑا حصہ خطیر رقوم کے عوض ٹھیکیداروں کے حوالے کردیا گیا ۔پارکنگ ایریا کے بائیں ہاتھ پر تقریباً ایک ایکڑ رقبے پر ایک عالیشان عمارت نظر آتی ہے جس پر میرٹھ کباب پراٹھہ کا بورڈ لگا ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ بچوں کے لیےپلے ایریا ، مسجد اور واش رومز بنے ہوئے ہیں۔ پلے ایریا کی کیاریاں کوڑا کرکٹ سے بھری نظر آتی ہیں۔ دو ایکڑ رقبے کے اس احاطے میں تقریباً نصف درجن ڈسٹ بن موجود ہیں لیکن شہری شعور یا سوک سینس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ پانی اور جوس کی بوتلیں، کھانے پینے کی اشیا کے شاپنگ بیگ، جوس کے ڈبے ڈسٹ بن میں ڈالنے کی بجائے کیاریوں میں ڈالتے ہیں۔

چئیر لفٹ کی جگہ زیپ لائن نے لے لی، جس کا افتتاح 26 نومبر 2023کو ہواتھا۔ مہم جو افرادحفاظتی پیراہن پہن کربرقی رسے پر پھسلتے ہوئےجھیل کے اوپر سے گزر کر پہاڑی کی طرف جاتے ہیں پھر وہاں سےواپس آتے ہیں۔دونوں پہاڑیوں پر فن لینڈ بنائے گئے ہیں۔ جھیل پہلے بھی موجود تھی لیکن اب اس میں کشتی رانی ہونے لگی ہے۔

1993 میں ہالی ووڈ میں ’’جراسک پارک ‘‘ کے نام سے انگریزی فلم بنی تھی۔ یہ سائنس فکشن اور ایڈونچر سے بھرپورفلم تھی جس میں کروڑوں سال قبل روئےزمین پررہنےوالے ڈائنو سار نامی دیوہیکل درندے کو دکھایا گیا تھا۔ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے اس فلم کو، سینما اسکرین پردیکھا جس میںاس قوی ہیکل جانور کو چلتے پھرتے، تباہی پھیلاتے دکھا گیا تھا ۔14 ماچ 2017 کو کراچی میں کلفٹن میں رؤسا کے علاقے میں پاکستان کےپہلےڈائنو سار تھیم پارک کاافتتاح ہوا۔عوام نےاس وقت پہلی مرتبہ دیوہیکل جانور ’ڈائنوسار ز‘ کو گھومتے پھرتے دیکھا جو کراچی کے عوام کے لیے حیرت انگیز منظر تھا۔

میئر کراچی جنا ب مرتضی وہاب نےاگست 2023 میں سفاری پارک میں ملک کے سب سے بڑے ڈائنا سور پارک کا افتتاح کیا۔ اس پارک کے داخلی اور اخراج کے دروازوں کے ساتھ ڈائناسور کے مجسمے لگے ہوئے ہیں۔ پارک کےدروازے سے اندر داخل ہوں تو ڈائنا سور کے عظیم الجثہ مجسموں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان میں اس جانور کی انڈے سے نکل کرعالم وجود میں آنے سے لے کر عدم وجود کے بعدڈھانچےمیں تبدیل ہونے کے بعد تک کے دور کی عکاسی کی گئی ہے۔بیس میٹربلند قامت کے ایک درجن ڈائنا سورباقاعدہ حرکت کرتے ہوئےتفریح کی غرض سے آنے والے افراد کاہولناک آوازیں نکال کر استقبال کرتے ہیں۔یہ مجسمے پارک میں مختلف جگہوں پر ایستادہ ہیں جب کہ ایک ڈائنا سور تو پرواز کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

کروڑوں سال پہلے اس جانور کا شمار ہیبت ناک درندوں میںکیا جاتا تھا۔ پارک میں داخل ہوتے ہیں لوگ جب بڑے بڑے نوکیلے دانت نکالے انہیں خوف ناک آوازوں کے ساتھ حرکت کرتے دیکھتے ہیں تو خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ یہاں کا پورا ماحول ایڈونچر سے بھر پور ہے ۔تمام ڈائناسورکو پارک میں بنے ایک کمرے سے برقی نظام کے ذریعے کنٹرول کیا جاتاہے۔چند ڈائنا سورز کےپیٹ میں بنچوں کی جگہ بنائی گئی ہے جن پر مردو خواتین اور بچے کچھ دیربیٹھ کرتھکن اتارتے ہیں۔ چار ڈائناسورز پر بچے بیٹھ کر سواری کرتے ہیں۔ڈائناسور پارک کا ماحول بہت دل فریب ہے۔حد نگاہ تک ہرے بھرے درخت اور گھاس کے قطعات دل موہ لینے والا منظر پیش کرتے ہیں ۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 7 Articles with 2942 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.