نئی سوچ، لیکن کب؟

زندگی کے اس نہ ختم ہونے والے میلے میں ایک شریف النفس انسان خاص طور پر ایک نوجوان کو کئی قسم کے جھمیلوں کا سامنا ہے. ہر گزرتا دن اس کے لیے ایک نئی اذیت کا پیغام لیکر آتا ہے. اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ اگلا دن اس کے لیے کچھ بہتر ہوگا یا پھر ایک نئی پریشانی اور کرب کا وہ سامان لیکر آئے گا جس کے لیے وہ کبھی بھی تیار نہ تھا. اس سب کے باوجود یہ نوجوان اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان مشکلات کا سامنا کرتا ہے. یہ دنیا ہے ہی ایسی، اسے تبدیل کر بہت مشکل ہے.

یہ وہ دنیا ہے جس میں حوصلہ افزائی کرنے والوں کی تعداد اتنی سی ہے جسے انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے. جب کہ وہ لوگ جو ہمیشہ حوصلہ شکنی اور دوسروں کو گرانے کے در پہ ہوتے ہیں، کثرت میں پائے جاتے ہیں. یہ ہر زمانے کا قصہ رہا ہے لیکن اس منفی روایت کو تبدیل کرنے کی جو بھی کوششیں ہوتی رہی ہیں یا ہو رہی ہیں سب کی سب بیکار ہیں کیونکہ ایسے لوگ یا تو کمزور ہوتے ہیں یا کسی مصلحت کا شکار ہو کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں.

اس سب کے باوجود ایسے نوجوان جو اس احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں کبھی ہار نہیں مانتے. یہ نوجوان آلِ فرعون میں موسیٰ کی طرح ہوتے ہیں جو تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن ہوتے ہیں.

جس طرح فرعون اور اس کے حواری حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے پڑ گئے تھے اور انہیں قتل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اسی طرح آج کے فرعون، معاف کیجئے گا، آج کل کے رشتے دار بھی اسی راہ عمل کی پیروی کرتے ہیں. اگر کسی نوجوان نے ان کی مخالفت کردی تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جیسے اس نے کوئی سنگین جرم کیا ہو. ان کا کام بس یہی ہوتا ہے کہ کہیں یہ ہم سے ہٹ کر نہ سوچ رہا ہوں اور کچھ ایسا نہ کر لے جو آج تک نہیں ہوا.

یہ ہے ہمارے معاشرے کا حال. ایسے معاشرے میں کس طرح نوجوان اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر سکتے ہیں، وہ کس طرح اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں اور کیسے ایک نمایاں مقام حاصل کر سکتے ہیں؟ اگر یہی روایت برقرار رہی تو ہمیں مسلمان تو کیا، خود کو انسان کہنے کا بھی حق نہیں.

Mir Muhammad Adil
About the Author: Mir Muhammad Adil Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.