پاک امریکہ تعلقات ایک واضح موقف کے متقاضی

اس وقت ملک تاریخ کے ایک نازک دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف پہاڑ ہے تو دوسری طرف کھائی ہے ہر دونوں صورتیں ملک کی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ محب وطن عوام اس صورتحال کا بخوبی ادراک رکھتی ہے اور وہ کسی صورت میں ملکی سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ہمیں اس جنگ میں کیا ملا سوائے اپنے لوگوں کی لاشیں اٹھانے اور دھشت گردی معاشی بدحالی ، بم دھماکوں اور ڈرون حملوں تک جبکہ قوم جانتی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگ میں پاکستان نے ان کے مفادات کو مقدم رکھ کر ان سے تعاون کرنے کی کوشش میں اپنی سلامتی کو بھی مشکل میں ڈالا ، اس کی ابتدا ایوب خان کو ۶۵ء میں جنگ کے دوران اسلحہ کی طرف پابندیوں کی صورت میں ظاہر ہوا اسی طرح ضیاء الحق امریکی جوتیاں سیدھی کرتا رہا یہ قوم سوویت یونین سے امریکیوں کی جنگ لڑنے میں مشغول تھی جس کا فائدہ اس نے اٹھایا اور ہمیں تحفہ میں اسی ضیا ء الحق اور اپنے کمنڈروں کی لاشوں کا انعام دیا گیا یہ بھی قوم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے اس پورے دور میں جو ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۷ء تک محیط تھا ، ہمارے ملک کے معصوم لوگ بم دھماکوں اور تخریب کاری کا شکار رہے حکومت وقت کا دعوا تھا کہ ان دھماکوں کے پیچھے کے جی بی اور را کا ہاتھ ہے جنہیں کبھی بھی بے نقاب نہیں کیا جا سکا اس جنگ کے دوران ہمیں کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر تحفے میں ملا جس کوآج بھی ہم بھگت رہے ہیں ۔

اس وقت پاکستان میں انتشار اس شدت سے پھیلایا گیا ہے کہ ملک کا کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں ہے اس انتشار کے پیچھے یہی سی آئی اے، اور غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے حمایت یافتہ ملکی اور غیر ملکی پاکستان مخالف قوتیں ہیں جو اس ملک کو مفلوج کر کے اپنے دیرینہ مقاصد پورے کرنے میں ملکی سالمئیت کو داؤ پر لگانے پر تیار ہیں اور اس خطے کے وسائل پر غیر ملکیوں کا تسلط قائم کرنے میں معاون و مدد گار ثابت ہو رہے ہیں ۔ لیکن ایسا کیوں ہے اور ہمیں اس دوستی کی قیمت ایسے کیوں ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ لالچ اور دولت کا حصول جو کسی بھی قیمت پر دستیاب ہو سکے بدقسمتی سے اس میں اس ملک کی ایلیٹ کلاس جو اسٹیبلشمنٹ کے اداروں بیوروکریسی اور عسکری ذرائع بھی شامل ہیں اس قبیح سوچ کے حامی ہیں بلکہ اسکے فروغ میں بھی معاون و مدد گار ثابت ہوتے رہے ہیں چونکہ انہیں امریکی حکومت کی آشیرباد حاصل ہوتی رہی ہے اس لئے بلا کسی خوف کے اسکے مقاصد کی تکمیل کرنے میں بلا جھجک مصروف عمل ہیں انہیں اس ملک کی انتظامیہ میں ایک مربوط دسترس دلوا کر مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں جس کے باعث کسی بھی ملزم کو سزا نہیں ہو سکی ۔ یہ اسی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ ہمارے ملک میں پیسے کے لئے ملکی کے سالئیت اوربقا کا سودا بھی کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں بلکہ تاریخی حقائق اس سے پردا اٹھا کر ایسے افراد کی نشاندہی کرتے ہیں۔

پاکستان کو امریکی نوآبادی بنانے والا غلام محمد ہے جس نے لیاقت علی خان کے متنازعہ قتل کے بعد پاکستان کو امریکہ کے آگے جھکا دیا اور آج تک جھکا ہوا ہی ہے اس نرغے سے اسے نکلنے کا موقع ہی نہیں دیا جا رہا ، جنگ امریکہ کی لڑتے پاکستانی ہیں لیکن آقا امریکہ بننے کی کوشش کرتا ہے حکومت ہماری لیکن احکامات امریکہ کے۔ یہ پتلی تماشہ اب مزید نہیں چلے گا۔

مسلمان ریاست جب اللہ کی حاکمیت سے روگردانی کر کے غیر اللہ کی حاکمیت کا اقرار کرنے لگیں تو پھر اللہ کا عذاب ایسی ہی شکل اختیا ر کر جاتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک غیراللہ کی حاکمیت کا انکار نہیں کریں گے یہ حالات نہیں بدل سکتے ،تمام زی شعور اس بات سے آگاہ ہیں۔ ہم پر ایک بڑا الزام یہ بھی ہے کہ ہم نے طالبان کی اسلامی حکومت کے خاتمے میں مدد دی جبکہ ہمیں اس سے کوئی خطرہ بھی نہیں تھا دیکھیں طالبان کی حکومت کا دورانیہ کہ کس طرح وہاں دین محمدی کا اجرا پر امن طریقے سے ہوا اور پورے ملک میں امن قائم ہوا تھا۔ ہم نے امریکی مقاصد کی تکمیل میں افغانستان میں مداخلت کا جرم کیا جس کی ہمیں چنداں ضرورت نہیں تھی اسے کہتے ہیں مرا ہوا سانپ اپنے گلے میں ڈالنا جو کسی صورت گلے سے نہیں اتارا جا سکتا ۔ افغانستان میں ایسی ہی صورت حال میں امریکہ بھی پھنسا ہوا ہے پاکستان یہ مرا ہوا سانپ امریکہ کے ہی گلے میں ڈال کر خود کو اس مشکل سے نجات دلائے کیونکہ یہ ہماری جنگ نہیں یہ امریکہ اور یورپی ممالک کے مفادات کی جنگ ہے و ہ اپنی جنگ خود لڑ کر افغانوں سے جیت لیں ہمیں کیوں زبردستی اس میں الجھا کر اتحاد میں شامل رکھا جارہا ہے قوم سراپا احتجاج ہے کہ اس جنگ سے قوم کی جان چھڑائی جائے اور ہم بلاکسی مقصد کے ان کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں امریکے اور اس کے اتحادیوں کو ہم نے جتنی مدد دی جاسکتی تھی دے دی اب مزید مدد فراہم نہیں کی جا سکتی چونکہ قوم اس کے یکسر خلاف ہے ۔

پاکستانی سرحدوں پر کوئی کاروائی کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اگر امریکیوں کو کسی پر شک ہے تو پاکستا ن اصل حقائق کی تحقیق کر کے اقدامات اٹھانے کا حق رکھتا ہے جو اس کے مفاد میں ہو کسی اور کے مفادات کا سلسلہ اب مذید برداشت نہیں کیا جا سکتا اگر کوئی ملک ہماری سرحد میں مداخلت کرتا ہے تو پاکستان کو استحقاق حاصل ہے کہ جوابی کاروائی کرے اس کی نوعیت ہمارے ملکی مفادات کے مطابق ہو گی۔

وزیراعظم صاحب نے امریکہ کی پاکستان کے خلاف کاروائی کرنے کی دھمکی کے پیش نظر اے پی سی بلائی تا کہ ایک واضح موقف پیش کیا جا سکے لیکن افسوس کہ تیرا گھنٹے کی بحث اور مشاورت کے بعدکسی بھی واضح واضح موقف اختیار کرنے سے گریز کیا گیا۔ ہم کیوں اس اتحاد سے پاکستان کی علیحدگی کا اعلان نہیں کرتے ہم کیوں اس ملک کی غیر جانبداری کا موقف اختیار نہیں کرتے ہم کیوں اپنے ملکی مفادات کو مقدم کیوں نہیں رکھتے۔ امریکہ سے کچھ بعید نہیں کہ کوئی بھی جھوٹا الزام عائد کر کے ہماری تنصیبات پر راست کاروائی کر جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں ! اس وقت بالکل وہی صورت حال ہے کہ ۱۱/۹ کا جھوٹا الذام لگا کر بلا کوئی ثبوت دئے بغیر افغانستان اور پاکستان کے خلاف جزوی کاروائی کرتا رہا ہے اور ہمارے سیاسی پنڈت اور حکمران امریکہ سے جواب طلبی کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے، پہلے مشرف کے خلاف ا ن سیاسی پنڈتوں نے ایک طوفان کھڑا رکھا کہ ہم ہوتے تو یہ کچھ نہ ہوتا لیکن پچھلے تین سال میں امریکہ نہ اتنی زیادہ کاروائیاں کر دی ہیں جتنی مشرف کے پورے دور میں نہیں ہوئی تھیں۔

اب یہ پروپیگینڈا کہ امریکہ نے یہ یقین دھانی کرا دی کہ وہ پاکستان کے خلاف جا رحیت نہیں کرے گا جب کہ فضائی کاروائی بند کرنے کی کوئی بات نہیں کی ۔ تاریخ جاننے والے جنگ عزیم دوم میں جاپان پر ایٹم بم گرایا تو اس وقت امریکہ اور جاپان میں براہ راست جنگ بندی کے سلسلے میں مذاکرات بھی ہو رہے تھے اور جاپانی مطمعن تھے کہ اب جنگ بندی قریب ہے لیکن اس پر ایٹم بم گرا کر اسے برباد کر دیا گیاتھا۔

کیا امریکہ پر اعتماد کیا جاسکتا ہے عراق ، افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کے کردار کو دیکھ کر ان سیاست دانوں کے موقف بھی دیکھیں اس اے پی سی میں ایسے لوگ باتیں کر رہے ہیں جن پر قومی دولت کی لوٹ مار کے اتنے سنگین الزامات ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی کی کسی نے بات نہیں کی جس کے باعث ملک تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا۔ یہ اس ملک کے بیدار مغز سیاسی لوگوں کا کردار ہے جں سے ملک کی ایک بڑی اکثریت متفق نہیں ہے۔ کون ہے جو ملک کو اس منجھدار سے نکالے گا ! عسکری یا سیاسی زرائع یا پھر عوام جو انقلاب اس ملک کے لٹیروں، چوروں اور ملکی مفادات کا سودا کرنے والوں کا احتساب چاہتے ہیں ۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 82077 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More