اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا فیصلہ :دہشت گرد فلسطین یا اسرائیل؟

نیتن یاہو پر برا وقت آیا تو چہیتے دوست نریندر مودی نے بھی ساتھ چھوڑکراقوام متحدہ میں فلسطینی رکنیت کی پھر سے کھلی حمایت کردی ۔اس طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کی قرارداد دو تہائی اکثریت سے منظور کر لی گئی۔ اس قرارداد کے حق میں143 اور مخالفت میں 9 ووٹ پڑے۔ اس قراداد سے فلسطین کو اقوام متحدہ میں ووٹ دینے کے علاوہدیگرتمام اضافی حقوق اور مراعات حاصل ہوگئیں۔فلسطین کے حق میں یہ کامیابی امریکہ اور اسرائیلی اثر و رسوخ زبردست ناکامی کا شاخسانہ ہے۔ اس معاملے میں رائے دہندگی سے قبل ، اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے نہایت دلسوز انداز میں کہا تھا کہ ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، آپ اور آپ کا ملک آنے والے سالوں میں آزادی ِفلسطین کیلئے کھڑا ہونے پر فخر محسوس کرے گا کہ اس نے اس تاریک گھڑی میں انصاف اور امن کا ساتھ دیا‘‘۔ مودی کی مسلم مخالف قومی سیاست کے باوجود ان کی حکومت نے اس معاملے میں فلسطین کی حمایت کرکے ملک کا نام روشن کیا ہے۔

اس طویل جدوجہد کا آغاز 2011 میں ہوا تھا۔ اس وقت اقوام متحدہ میں رکنیت کیلئے فلسطینی درخواست سلامتی کونسل کے 15 میں سے نو ارکان کی حمایت نہیں جٹا پانے کے سبب ناکام ہوگئی تھی مگر جنرل اسمبلی میں دو تہائی سے زیادہ اکثریت کی مدد سے اقوام متحدہ کے مبصر سے بڑھ کر غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ حاصل کرلیا گیا تھا ۔ امسال اٹھارہ اپریل کو سلامتی کونسل کی ووٹنگ میں، فلسطینیوں کے حق میں 12 ووٹ پڑے، برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیامگر امریکی ویٹو نے اس قرارداد کو ناکام کر دیا۔اس کے باوجود اسرائیل پر شکنجہ تنگ ہورہا ہے کیونکہ بین الاقوامی عدالت انصاف اسے فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم قرار دے چکی ہے۔ اسرائیل اپنی سات دہائیوں کی بربریت میں پہلی بارعالمی سطح پراس طرح گھر گیا ہے جبکہ اس کا جنگی جنون تباہی کےعروج پر پہنچاہوا ہے۔ اس موقع پر اسے مودی سرکار کی بہت ضرورت تھی مگر ہندوستان نے قرار داد کے حق میں ووٹ دے کر ساری دنیا کو چونکا دیا۔اسرائیل یا اس کے مٹھی بھر ہمنواوںکو امید تھی کہ وہ اگر حمایت نہیں کر سکا تو کم از کم غیر حاضر رہ کر بلاواسطہدستِ تعاون دراز کردے گا لیکن ایسا بھی نہیں ہوا اور اسے زبردست رسوائی سے دوچار ہونا پڑا۔

فی الحال اسرائیل کے ستارے گردش میں ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایکطرف وزیر اعظم پر گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہے ساتھ ہی وزیر دفاع اور فوجی سربراہ وارنٹ کے خوف سے کانپ رہےہیں کیونکہ ان لوگوں نے ڈھٹائی سے نسل کشی کاارتکاب کیا ہے۔ حکومتَ اسرائیل کو لاحق سنگین تشویش کااعتراف خود قومی نشریاتی ادارے نے کیا ہے۔ اس کے مطابق ہیگ میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی جانب سے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور آرمی چیف آف اسٹاف ہرزی ہیلیوی کے خلاف غزہ جنگ کی وجہ سے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے امکان نےمتبادل امکانات کی تلاش پرمجبورکردیا ہے جو کسی بھی وقت نکل سکتا ہے۔ عالمی سطح پر یہ نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے حامیوں کو بھی ذلیل و رسواکردے گا ۔براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق نیتن یاہو کے دفترمیں ان خدشات پر سنجیدہ بحث ہوئی ہے۔ فی الحال انسانی حقوق کے کئی ادارے اور ممالک اسرائیل پر غزہ جنگ میں چوتھے جنیوا کونشن کے علاوہ دیگر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرکے تنقید کررہے ہیں۔

نیتن یاہو کے سر پر اقوام متحدہ کی تلوار ہے تو پیٹھ میں اپنے ملک کی عوام کا خنجر پیوست ہوگیا ہے۔ اسرائیلی کابینہ کے اپوزیشن لیڈر یائیر لاپیڈ نے تل ابیب میں حکومت کے خلاف اسرائیلی آبادکاروں کے مظاہرے میں شرکت کردی - روایتی طور پر یہ آبادکار یاہو کے حامی رہے ہیں۔ اس مظاہرے کا انعقاد قیدیوں کے تبادلے کی حمایت میں کیا گیا تھااور اس میں ہزاروں افراد شریک تھے ۔ تل ابیب میں واقع کابلان شاہراہ پر اجتماع میں اسیرانِ جنگ کی رہائی کے ساتھ قبل از وقت انتخابات کرائے جانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔اس موقع پر مظاہرین حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے پر دستخط کرنے اور انہیں واپس لائے جانے کا مطالبہ بھی کررہے تھے ۔ یہ کوئی ایک احتجاج نہیں تھا بلکہ ہزاروں اسرائیلیوں نے تل ابیب میں اسرائیلی حکومت کی وزارت جنگ کے سامنے بھی مظاہرہ کرکے صہیونی قیدیوں کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ یہ مظاہرے مسلسل جاری ہیں مگر اسرائیلی بے حس حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی ۔

اسرائیلی رائے عامہ کی اس تبدیلی میں حماس کے ذریعہ اسرائیلی مظالم کی نہایت پر حکمت تشہیر کا بڑا عمل دخل ہے۔ اپنی مزاحمت کے دو سو دن بعد القسام بریگیڈ نے ایک 34 سالہ اسرائیلی اسیر کی "دوا اور خوراک کی کمی" کے باعث فوت ہونے کی اطلاع دی اور اس کے بعد دو زندہ قیدیوں کی ویڈیو جاری کردی ۔ ان میں سے ایک میں کفار عزہ کا 64 سالہ کیتھ سیگل اپنے اہل خانہ کو کہتا ہے، "میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں ، یہ ضروری ہے کہ آپ جان لیں۔ میں ٹھیک ہوں، مجھے امید ہے کہ آپ بھی ٹھیک ہوں گے ہوں گے "۔ وہ پچھلے سال ایسٹر کی خوبصورت یادوں کا ذکر کرتے ہوئے اشکبار ہوجاتا ہے اور اپنی رہائی کی امید ظاہر کرتا ہے ۔کیتھ یہ بھی کہتا ہے کہ ’’ میں بمباری کے میں خطرے میں ہوں اور یہ معاملہ بڑا خوفناک ہے اور میں ایک طویل عرصے سے اس کے ساتھ رہ رہا ہوں۔ میں محسوس کررہا ہوں کہ مجھے (بے یارو مددگار) چھوڑ دیا گیا ہے‘‘۔ سیگل نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے اور تمام حکومتی وزرا سے مطالبہ کیا ہے کہ مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ کریں تاکہ جلد کسی معاہدے تک پہنچا جا سکے۔ اس کے مطابق اسرائیل تاخیر کر رہا ہے اور وہ حیران ہے کہ کب تک اسے معاہدے کا انتظار کرنا پڑے گا؟

اس طرح کی ویڈیو نے اسرائیل سمیت پوری دنیا کے یہودیوں کو نیتن یاہو کا دشمن بنا دیا ہے۔ دوسری ویڈیو ناحل عوز بستی سے تعلق رکھنے والے 47 سالہ عومری میران کی ہے۔ اس میں وہ کہتا ہے "میرے پیارے خاندان، میں آپ سب کو یاد کرتا ہوں، اس سال ہم ایک گھناؤنی جنگ کی وجہ سے ساتھ میں کوئی چھٹی نہیں منا سکے، مجھے امید ہے کہ ہم کم از کم اگلی ’’ عید استقلال‘‘ ایک ساتھ منا سکیں گے۔"عومری میران نے یہ بھی کہا کہ وہ 202 دنوں سے حماس کے ساتھ قید میں ہے اور پرتشدد بمباری کے سبب مشکل حالات میں زندگی گزار رہاہے ۔ یہ ایک معاہدے تک پہنچنے کا وقت ہے جو اسے زندہ اور اچھی صحت کے ساتھ نکالے گا۔ عومری نےاپنے اہل خانہ سے حکومت پر ہر ممکن طریقے سے دباؤ ڈال کر حسب ِ استطاعت کوشش کرنے کی استدعا کی۔ہنوز تقریباً 129 ؍اسرائیلی اسیرانِ جنگ غزہ کی پٹی میں قید ہیں۔ اسرائیلی حکام کا اندازہ ہے کہ ان میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل نومبر کے آخری سات روز عارضی جنگ بندی کے دوران 100 یرغمالیوں کو رہا کردیا گیاتھا اور اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدی بھی رہا کئے گئے تھے لیکن اسرائیل نے پھر سے جنگ شروع کردی۔

یہ ایساوقت ہے کہ جب غزہ کے اندر اسرائیل کے ظلم و جبر کی انتہا نے ساری دنیا کو اس سے بدظن کردیا ہے۔ ایسے میں یہ قرار داد اس کے لیے کس قدر پریشانی کا سبب ہے اس کا اندازہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر کے بیان سے کیا جاسکتا ہے۔ سفیر نےقرارداد کی منظوری کےبعد اپنے تبصرے میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اقوام متحدہ اب اپنی صفوں میں ایک ’’دہشت گرد ریاست‘‘ کا خیرمقدم کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی بنیاد تو اس مشن کے ساتھ رکھی گئی تھی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ نازیوں کی طرح کا ظلم دوبارہ کبھی سر نہ اٹھائے مگر اس کے بالکل برعکس ہوا ہے۔ اقوام متحدہ فلسطینی دہشت گرد ریاست کے قیام کو آگے بڑھا رہی ہے جس کی قیادت ہمارے دور کا ہٹلر کرے گا۔‘‘ یہ دعویٰ اگر درست ہوتا تو پھر ہندوستان جیسا مسلم دشمن ملک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیتا؟ امریکہ ویٹو کا استعمال کرکے اسے پیش ہونے سے ہی رو ک دیتا؟ اس قرارداد کے حق میں143 اور مخالفت میں صرف 9 ووٹ نہیں پڑتے؟اس سے قبل 27؍ اکتوبر کو جنرل اسمبلی میں غزہ کے اندرانسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔اس تجویز کو 120 کے مقابلے 14 ووٹوں سے منظور کیا گیا ۔ اس وقت 45 ممالک غیرحاضر تھے۔وہ تعداد گھٹ کر اب 25 پرآگئی ہے اور مخالفین کی قلیل تعداد میں مزید تین کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے فی زمانہ دنیا کے عظیم اکثریت اسرائیل کو ہٹلر نواز دہشت گرد ملک مانتی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دی جائے بلکہ اسرائیل کو وہاں سے نکال باہر کیا جائے اور اس کی ممبرشپ منسوخ کردی جائے۔ اسرائیلی مبصر کے بیان پر مومن خاں مومن کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448945 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.