انتخابی مہم کانظام الاوقات اس طرح بنایا گیا کہ ہر مرحلے
سے قبل وزیر اعظم کا ایک انٹرویو اور ایک خطاب ذرائع ابلاغ پر چھا جائے
لیکن پانچویں مر حلے سے قبل اترپردیش کے پھول پور اور الہ باد میں انڈیا
محاذ کے جلسۂ عام میں جس جوش وجنوں کا مظاہرہ ہوا اس نے وزیر اعظم نریندر
مودی،اوروزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کی نیند اڑا دی ہوگی بشرطیکہ کے وہ
اپنے خول سے نکل کر باہر کی دنیا بھی دیکھیں ۔ یہ شرط اس لیے لگانی پڑرہی
ہے کیونکہ مودی جی کی نرگسیت انہیں اپنے سوا کسی کو دیکھنے نہیں دیتی اور
یوگی کی رعونت کے خوف سے کوئیدوسرا ان کی توجہ مخالفین کی جانب مبذول کرانے
کی جرأت نہیں کرسکتا۔اس کے باوجود بفرضِ محال اگر مودی اس ویڈیو پر اپنے
پانچ منٹ صرف کردیتے انہیں احساس ہوتا کہ اگروہ وارانسی کے ساتھ بڑودا سے
بھی قسمت آزمائی کرتے تو اچھا تھا کیونکہ جوآگ پھول پور سے الہٰ باد پہنچ
گئی اسے وارانسی پہنچنے سے روکنا مشکل ہے۔ اترپردیش ان ویڈیوز نے ظاہر
کردیا کہ ’انقلاب کی آندھی ہے، یہ لہر نہیں سونامی ہے‘۔
جنون کی آگ کے آگے کورونا کی وبا بھی فیل ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ سورج
آسمان سے قہر برسا رہا ہو۔ درجۂ حرارت 47 سینٹی گریڈ سے اوپر جارہا ہو۔
دھول اور مٹی سے اٹے میدان دولاکھ کی گنجائش والے میدان میں تین لاکھ لوگ
بغیر لائے آجائیں یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ایسے میں جنون کی کیفیت ہی
بے قابو نوجوانوں سے یہ نعرہ لگوا سکتی ہے کہ ’اکھلیش بھیا تیرے نام
۰۰۰میری جوانی ہے قربان‘۔ اپنے چہیتے رہنماکو دیکھنے اور ملنے کا جوش و
خروش جب اپنی حدود و قیود سے آگے بڑھ گیا تو سارے بیریکیڈ ٹوٹ گئے اور
2006 کی فلم ’آدھا رام اور آدھاراون‘ کا نغمہ ہر دھڑکن میں گونجنے
لگا’مجھے آئی نہ جگ سے لاج ، میں ایسے جھوم کے ناچی آج کہ گھنگھرو ٹوٹ
گئے ‘ ۔ یعنی سارے بندھن ٹوٹ گئے بلکہ مائک کی بجلی کا تار بھی ٹوٹ گیا اور
اکھلیش سمیت راہل گاندھی کوبغیر خطاب کیے لوٹ جانا پڑا۔ ویسے تو یہ اچھا
نہیں ہوا کہ دونوں قائد ہیلی کاپٹر سے وہاں پہنچے اور تین لاکھ کا مجمع
جوان کو سننے کے لیے اکٹھا ہوا تھا کچھ کہے سنے بغیر لوٹ گیا لیکن کوئی
بہترین سے بہترین خطاب بھی وہ اثرات مرتب نہیں کرپاتا تھا جو عوام کے اس
جوش وخروش نے کردیا ۔ الہٰ باد کے اندر دونوں رہنماوں نے مختصر خطاب کیا
لیکن پھول پور کی ویڈیو کا جواب نہیں ۔ اپنا تو دور مخالف میڈیا ہاوس بھی
اسے نظر انداز نہیں کرسکا ۔ اس پرجہانگیر نایاب کا یہ شعر ترمیم کے ساتھ
صادق آتا ہے؎
جنون شوق یقیں ضابطے سے باہر ہے
اڑان مجھ میں مرے حوصلے سے ظاہر ہے
سنگھ پریوار پر اس جذباتی اظہار کے دو اثرات ہوسکتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ وہ
بیدار ہوجائے ۔ اس سے ان لوگوں کی غفلت دور ہوجائے جو یہ سمجھے بیٹھے ہیں
کہ چار سو پار ہونا یقینی ہے اور اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا تب بھی سرکار
تو بن ہی جائے گی ۔ اب وہ سوچنے لگیں کہ اب پانی سر سے اونچا ہوا چاہتا ہے
اس لیے ہاتھ پیر مارو ورنہ لٹیا ڈوب جائے گی اور کالے کرتوت جیل میں پہنچا
دیں گے۔ اس لیے سنگھ کے خیمے میں ہلچل ہوسکتی ہے اور وہ ہاتھ پیر مارنا
شروع کرسکتا ہے۔ ایسا اگر ہوجائے تو اس سے بی جے پی کا فائدہ ہوگا مگر شاید
اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ آگے کی دوڑ دھوپ کے نتیجے میں بی جے پی کے شکست کی
کھائی تو کچھ کم تو ہوسکتی ہے مگر اس کافتح میں بدلنا بہت مشکل لگتا ہے۔ اس
کا دوسرا اثر یہ ہوسکتا ہے کہ اس کے ہاتھ پیر پھول جائیں اوروہ ابھی سے
اپنی ہار تسلیم کرلے ۔ اس کا قوی امکان ہے کیونکہ جو لوگ خوش فہمی کا شکار
ہوکر بیجا توقعات باندھ لیتے ہیں ان کے اندر صدمہ برداشت کرنے کی صلاحیت کم
ہوجاتی ہے اور وہ جلدی مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بی جے پی آج کل جس طرح نزع کے عالم میں جارہی ہے اسے آر ایس ایس کی
ناراضی کو دور کرنے کی شعوری کوشش کرنی چاہیے تھی مگر اس کے صدرجے پی نڈا
کے ایک متنازع انٹرویو نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کردیا ۔ انہوں نے کسی
نجی مجلس میں نہیں بلکہ ایک اخباری انٹرویو میں اپنی شیخی بگھارتے ہوئےکہا
کہ بی جے پی کا پارٹی ڈھانچہ بہت مضبوط ہو گیا ہے اور وہ اپنا ایجنڈا چلا
رہی ہے۔ نڈا نے بڑی بے اعتنائی سے کہا کہ ہو سکتا ہے شروع میں پارٹی کم
کمزور رہی ہوں اور اسے اپنا کام چلانے کے لیے آر ایس ایس سے مدد لینے کی
ضرورت پیش آتی رہی ہو لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا ہے۔انہوں تسلیم کیا
کہ ابتداء میںپارٹی نااہل تھی لیکن اب بڑی اور خود کفیل ہوگئی ہے۔ اس بیان
میں نہ صرف احسان فراموشی بلکہ تحقیربھی ہے ۔ اس کے علاوہ ممکن ہے یہ انگور
نہیں ملے تو کھٹے والی کیفیت ہو۔
ایک طرف سنگھ پریوار کے اندر یہ ناچاقی ہے دوسری جانب انڈیا محاذ اختلافات
کی پردہ پوشی اور اتحاد قابلِ تعریف ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے
یکطرفہ طور پر ساری نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرکے عملاً تو خود انڈیا
محاذ سے الگ کردیا مگر زبانی طور پر جدا نہیں ہوئیں۔ انہوں نے ایوان
پارلیمان میں کانگریس کے قائد ادھیر رنجن چودھری کا خیال کرکے ان کی سیٹ
بھی نہیں چھوڑی ۔ اس پر چودھری اور ان کے حامیوں نےناراضی کا اظہار کیا تو
پارٹی کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے انہیں ڈانٹپلائی تو انہوں نے رجوع کرلیا۔
اس سے دونوں سیاسی محاذوں کا فرق صاف نظر آتا ہے۔ بی جے پی چار سو پار کے
نعرے نے اس کا دوہرا نقصان کیا ۔ایک تو پارٹی کارکنان کو بیجا خود اعتمادی
کی افیون چٹا کرمدہوش کر دیا نیزمخالفین دبے کچلے طبقات کے اندر عدم تحفظ
کا احساس پیدا کردیا ۔
حزب اختلاف نے اس دعویٰ کو آئین کی تبدیلی سے آگے بڑھا کر منسوخی تک
پہنچا دیا بلکہ اس سے منو سرتی کا لاحقہ بھی جوڑ دیا۔ اس حماقت کے سبب پہلے
تو ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر سے عقیدت رکھنے والوں کے دل کو ٹھیس پہنچی ۔
اوپر سے مودی جی نے جوش میں آکر کہہ دیا اس دستور کوخود بابا صاحب امبیڈکر
بھی آجائیں تو تبدیل نہیں کرسکتے ۔ اول تو یہ بات غلط ہے مگر درست ہو تب
بھی اس بھونڈے پن سے اس کا اظہار کرنے کی وجہ سے دل آزاری ہوتی ہے۔ حزب
اختلاف کے الزام کی بی جے پی کےاننت ہیگڑے اور گری راج سنگھ جیسے کئی
رہنماوں نے تائید کردی اور اعتراف کہ وہ آئین کو بدلنے کے لیے چار سو پار
کرنا چاہتے ہیں۔ مرکزی قیادت ان بیانات کی تردید توکرتی رہی مگر ان رہنماوں
پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اس لیے یہ مخالفت زبانی جمع خرچ یا لیپا پوتی
کے درجہ میں چلی گئی۔
حزب اختلاف نے اسے ریزرویشن کے خاتمے سے بھی جوڑ دیا جس سےکئی شکوک و شبہات
نے جنم لے لیا ۔ موجودہ حکومت نے سرکاری ملازمتیں خالی رکھ کراور قومی
کمپنیوں کو نجی ہاتھوں میں دے کر ریزرویشن کا بلا واسطہ خاتمہ تو کرہی دیا
مگر جو بھی ہے لوگ اس کو کھونا نہیں چاہتے ۔ اس کے ردعمل سے گھبرا کر پہلے
وزیر داخلہ امیت شاہ اور پھرآر ایس ایس کے سر سنگھ چالک سے ریزرویشن کو
جاری رکھنے کی یقین دہانی کرنی پڑی ۔ اس معاملے میں چونکہ پہلے والی بات
غلط ہے اس لیے آگے والے عہد پر یقین کرنا عوام کے لیے مشکل ہوگیا ۔ اس بار
اگر بی جے پی ناکام ہوجاتی ہے تو اس کی شکست کا ایک بڑا سبب یہ چار سو پار
کا نعرہ اور اس کے حوالے سے پھیلنے والی غلط فہمیاں ہوگا ۔ آج کل راہل
گاندھی اور ملک ارجن کھڑگے کے ہاتھ میں جو آئین کا نسخہ نظر آتا ہے اور
اس کو لہرا کر بچانے کے عہد و پیمان اسی چار سو پار کی بدولت ہے۔ اس
طرحمایا وتی کی مدد سے جس دلت ووٹ کو اپنے ساتھ کرنے کا جوخواب بی جے پی
دیکھ رہی تھی وہ چکنا چور ہوگیا ۔
بی جے پی کے لیے اس بار سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ وہ اپنا کوئی بیانیہ طے
نہیں کرسکی ۔ وہ کسی ایک بات پر ٹک نہیں سکی ۔ آئے دن اس کا مدعا بدلتا
رہتاہے ۔ اس کے برعکس انڈیا اتحاد نے مہنگائی ، بیروزگاری اور خوشحالی جیسے
بنیادی مسائل پر انتخابی مہم کومرکوز کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ راہل
گاندھی کی خود اعتمادی کا یہ عالم ہے کہ اب مودی ان کی نقل کرتے ہوئے کٹا
کٹ کٹا کٹ کہنے لگے ہیں اورعوام سے کہہ رہے ہیں کہ حزب اختلاف کی عوامی
فلاح و بہبود کا منصوبہ ملک کو کنگال کردے گا حالانکہ خود مودی سرکار نے
سرمایہ داروں کا لاکھوں کروڈ قرض معاف کرکے اور عالمی بنک سے ے تحاشا قرض
لے کر ملک کو بے حال کردیا ہے ۔ مودی جی تھکے ماندے مارے مارے پھر رہے ہیں
لیکن اب ان کے چونچلوں کا کوئی اثر نہیں ہورہاہے ہیں، وزیر اعظم کے باولے
پن پر خواجہ میر درد کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
کبھو رونا کبھو ہنسنا کبھو حیران ہو جانا
سیاست کیا بھلے چنگے کو دیوانہ بناتی ہے
|