بی جے پی کے ’بڑے میاں چھوٹے میاں ‘

بھارتیہ جنتا پارٹی میں بڑے میاں کو لے کر کوئی تنازع نہیں ہے کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑی چالاکی کے ساتھ پچھلے دس سالوں میں اپنے سارے حریفوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ ان کا پہلا ہدف اپنے سےسینئر رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور یشونت سنہا جیسے معمر رہنما تھے ۔ ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کی خاطر ’مارگ درشک منڈل‘( رہنما مجلس) کو ایجاد کیا گیا اور 75؍ سال کی حد طے کرکے سب کا یک قلم سر قلم کردیا گیا۔ اس طرح مودی جی کا پارٹی کے اندر بلا حریف بڑے میاں بن گئے ۔مودی جی کی چانکیہ نیتی کا اگلا ہدف اپنےوفادارامیت شاہ کو ولیعہد یعنی چھوٹے میاں بنانا تھا مگر مشیت نے اسی یوگی راستے کا روڈا بنادیا جس کے ذریعہ راجناتھ سنگھ کو ہٹایا گیا تھا ۔ 2021؍ کے صوبائی انتخاب کی ابتداء میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ کا چہرا ہٹا کر مودی کے نام پر انتخاب لڑنے کی کوشش کی گئی ۔ امیت شاہ نے یوگی ادیتیہ ناتھ کو دہلی بلا کر نیچا دکھانے کی بھی کوشش کی مگر اکھلیش یادو کی مقبولیت میں اضافہ نے وزیر اعلیٰ کا بھلاکردیا۔ ایس پی کے جلسوں میں آنے والی بھیڑ سے خوفزدہ ہوکر مودی اور شاہ نے اپنا منصوبہ عارضی طور پر ٹال دیا۔ یوگی ادیتیہ ناتھ کے لیےیہ کہہ کر ووٹ مانگا گیا کہ اگلی بار پھر سے مودی جی کو وزیر اعظم بنایا جاسکے ۔ اس طرح 2024 کی انتخابی کامیابی یوگی کے دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے سے جڑگئی ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر یوگی نے میڈیا کی مدد سے مودی جی کی جانشینی کے لیے اپنا دعویٰ ٹھونک دیا اور امیت شاہ کے طاقتور حریف بن گئے حالانکہ ان قیادت میں بی جے پی نے 55 نشستیں گنوا دی تھیں ۔

2019 ؍ کے انتخابی منشور پر بی جے پی نے وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ کسی کی تصویرنہیں شائع کی تھی۔ اس بار ایک تصویر کا اضافہ ہواتو توقع تھی کہ امیت شاہ ہوں گے مگر یوگی کی ناراضی کے خوف سے پارٹی کے صدر جے پی نڈا کی تصویر چپکا دی گئی اور دونوں دعویدار ہڈی کی جانب حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہ گئے ۔ ایسی صورتحال کے لیے مراٹھی میں محاورہ ہے ’تُلا نائے ملا نائے کتریا لا‘( نہ تجھے نہ مجھے ،کتے کے لیے)۔ اس طرح ان دونوں کا دعویٰ ناجائز ٹھہرا اور پارٹی کےمنشور پر چھوٹے میاں کے خانے میںجے پی نڈا کو فٹ کردیا حالانکہ وہ ایکسٹینشن پر پارٹی کے صدر نشین ہیں ۔انتخاب کے فوراً بعد جون ہی میں ان کی مدتِ کار ختم ہورہی ہے۔انتخابی عمل میں ہار اور جیت کا یکساں امکان رہتا ہے اور غیر متوقع نتائج کا آجاناکوئی نئی بات نہیں ہے۔بی جے پی اگر واضح اکثریت سے کامیاب ہوجائے تو دہلی میں کچھ بھی نہیں بدلےلیکن بری طرح ہار جائے اور حکومت سازی کا امکان نہ ہو تو مودی اور شاہ دونوں بیکار ہوجائیں گے ۔ اس نئی صورتحال میں ان نئے بیروزگاروں میں سے ایک پارٹی کی صدارت پر فائز ہوجائے۔تاکہ سرکار نہ سہی پارٹی پرتو کم ازکم گرفت مضبوط رکھنا اپنے خلاف متوقع بغاوت کو کچلنے کے لیے لازمی ہے ۔

فی الحال نیتن گڈکری جیسے نہ جانے کتنے لوگ بھرے بیٹھے ہیں ۔ وہ پارٹی کی شکست کا الزام بجا طور پرمودی اور شاہ کے سر منڈھ کر ان کو ٹھکانے لگانے کی سعی کریں گے ۔ ان کا ایسا کرنا ایک جائز انتقام ہوگا کیونکہ جو سلوک ان کے ساتھ روا رکھا گیا اس کا بدلہ لینے سے انہیں روکا نہیں جاسکتا۔ مودی اور شاہ فی الحال انتخاب کے بعد پیدا ہونے والی متوقع صورتحال کی پیش بندی میں مصروف ہیں تاکہ ہر طرح کے نتائج سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی پہلے سے تیار ہو اور جلد بازی میں ہاتھ پیر مارنے کی نوبت نہ آئے۔ بی جے پی اگر اگلے انتخاب میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوجائے مگر حکومت سازی کا امکان ہوتو وزیر اعظم مودی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی مسلم مخالف شبیہ ہے۔ چوتھے مرحلے کے بعد مودی جی کے کئی انٹرویوز میں چھلکنے والے مسلم پریم کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ،لیکن کیا ان چکنی چپڑی باتوں سے ان کی مکروہ شبیہ سدھر سکے گی؟ مشکل ہے لیکن پھر بھی کوشش جاری ہے۔

مودی جی کے راستے کی دوسری رکاوٹ آر ایس ایس کے ذریعہ ان کی مخالفت ہوگی اس لیے کہ پچھلے دس سالوں میں انہوں نے کھلے عام تو مسلمانوں کی دلآزاری کی مگر اندر ہی اندر سنگھ پریوار کی بیخ کنی کرتے رہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک کو ان کے سامنے بونےنظر آنے لگے ۔ اس کا مظاہرہ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں ہوا جب سارے کیمرےمودی کے اطراف طواف کرتے رہے اور موہن بھاگوت کو بلانے کے باوجود حاشیے پر ڈال کر رسوا کیا گیا ۔ سنگھ پریوار کے چہیتے نیتن گڈکری کوتو پوچھا تک نہیں گیا جبکہ سونیا گاندھی کو گھیرنے کے لیے دعوتنامہ بھجوایا گیا۔ آر ایس ایس کی ناراضی اور متوقع ردعمل کے تناظر میں چھوٹے میاں جے پی نڈا کے تازہ ترین انٹرویو کو دیکھنا چاہیے جس میں وہ مادرِ تنظیم کو اس کی محدودیت کا احساس دلاتے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے سارے انٹرویوز نورا کشی ہوتے ہیں اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ان ملاقاتوں میں جواب پہلے طے کیا جاتا ہے اور ان پر سوالات بعد میں وضع کیے جاتے ہیں نیز درمیان میں ہنسنے اور رونے کے مواقع کا بھی تعین کرلیا جاتا ہے۔ اس طرح ایک منظرنامہ کے تحت فلم بناکر انتخابی مفاد میں نشر کردی جاتی ہے۔ وزیر اعظم اپنے پچھلے تینوں انٹرویز میں تسلسل کے ساتھ مسلمانوں کے حوالے سے اپنی شبیہ بدلنے کی سعی کررہے ہیں ۔ پہلے انہوں نے زیادہ بچے پیدا کرنے کا الزام تمام مذاہب کے غریبوں پر لگا کرصرف مسلمانوں کو اس سے بری کیا۔ اس کے بعد اپنے بچپن کے دیرینہ تعلقات اور عید و تعزیہ سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ۔ یہاں تک کہ ماہِ رمضان کے دوران غزہ کی بمباری تک روکنے کی سعی کا تذکرہ کیا ۔ اپنے تیسرے انٹرویو میں تو وہ یہاں تک بول گئے کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کبھی ایک حرف بھی نہیں کہا بلکہ وہ کانگریس کی منہ بھرائی کے خلاف بولتے ہیں ۔
اس انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ کیاانتخابی تقاریر میں انہوں نے اقلیتوں کو نشانہ نہیں بنایا تو بڑی معصومیت کے ساتھ وہ بولے ’ بی جے پی کبھی اقلیتوںکے خلاف نہیں رہی ، صرف آج ہی نہیں بلکہ کبھی بھی نہیں‘۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کانگریس منہ بھرائی کے راستے پر چلتی ہے اور بی جے پی مطمئن کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔کانگریس تسکین کی سیاست کرتی ہے اور وہ تسلی دینے یا مطمئن کرنےکی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ سب کا ساتھ سب کا وکاس(ترقی) کے قائل ہیں اور سارے مذاہب کو یکساں اہمیت دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ بولے’ہم سبھی کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں ۔ ہم کسی کو خاص شہری کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ سبھی کو مساوی سمجھتے ہیں ۔ کاش کے مودی جی کو پر یہ انکشاف دس سال پہلے ہوا ہوتا اور وہ اس پر عمل کرکے دکھاتے فی الحال شکست کے کگار پر ان کے مسلم پریم کو دیکھ کر مومن خاں مومن کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مودی
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

بھارتیہ جنتا پارٹی پر ایسا وقت آئے گا یہ کسی نے نہیں سوچا تھاکہ بڑے میاں تو مسلمانوں سے محبت پینگیں بڑھائیں گے اور چھوٹے میاں یعنی جے پی نڈا آر ایس ایس کے بارے میں کہیں گےاٹل بہاری واجپائی کے دور اور موجودہ وقت کے درمیان بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اس تناظر میں آر ایس ایس کی حیثیت بھی بدل گئی ہے۔ پہلے ہم اتنی بڑی پارٹی نہیں تھے اور نااہل تھے۔ ہمیں آر ایس ایس کی ضرورت تھی، لیکن آج ہم بہت ترقی کر چکے ہیں اور اپنے طور پر آگے بڑھنے کے قابل ہیں۔وہ اپنا کام نظریاتی طور پر کرتے ہیں اور ہم اپنا کام کرتے ہیں۔ ہم اپنے معاملات کو اپنے طریقے سے چلا رہے ہیں اور سیاسی جماعتوں کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ بی جے پی کے اس استعمال کرو اور پھینک دو کے رویہ کا شکار ہونے والی اس کی قدیم حلیف شیوسینا کے رہنما ادھوٹھاکرے نےاس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کو آرایس ایس کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے ۔وزیراعظم مودی نے ان کی پارٹی کو نقلی سینا کہا ہے اور بتایا ہے کہ وہ نقلی سنتان ہیں۔کل وہ آرایس ایس کو بھی نقلی کا لیبل لگا کر اس پر پابندی عائد کردیں گے۔ادھو ٹھاکرے کا اندازہ درست ہے مگرانہیں کہنا چاہیے کہ مودی پہلے آر ایس ایس کو توڑ کر اس کےجعلی دھڑے پر کسی شندے جیسے لیڈر کو مسلط کریں گے اور اس کے بعد اصلی نقلی کا کھیل کھیلا جائے گا ۔ موجودہ انتخابی مہم کا یہ ایک ایسا موڑ ہے کہ جس کا منظر نامہ لکھنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔ یہ تو کاتبِ تقدیر کی ایسی انمٹ تحریر ہے جس کے آگے سب بے بس ہیں۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452258 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.