سام ، دام ، دنڈ ، بھید کا انجام

انتخابی نتائج کے بعد پہلی مرتبہ مودی جی پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ قومی جمہوری محاذ کا حصہ ہیں ورنہ تو یہ حالت تھی کہ وہ اپنی بی جے پی کو بھی بھول گئے تھے اٹھتے بیٹھتے یہ مودی کی گارنٹی ہے کا ورد کرتے رہتے تھے ۔ انتخابی کے آخری دو ہفتوں میں انہوں نے خود اپنا نام 758 مرتبہ لیا لیکن جب عوام نے انہیں یعنی ان کی پارٹی کو اکثریت سے محروم کرکے 2014 سے بھی بری حالت میں پہنچا دیا تو ان کو این ڈی اے کی یاد آگئی۔ کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ ’عوام نے ایک بار پھر ہم پر بھروسہ کیا، آج بڑا دن ہے کیونکہ این ڈی اے تیسری بار حکومت بنانے جارہی ہے، الیکشن نتائج سامنے آنے کے بعد دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی جیت ہوئی‘۔مودی نے کہا کہ یہ دراصل چالیس کروڑ بھارتیوں کی جیت ہے کیونکہ ایک بار پھر عوام نے این ڈی اے کو بھاری اکثریت دے کر کامیاب بنایا ہے۔ اس چھوٹے سے بیان میں دو بار این ڈی اے کا ذکر اور ایک بار خود کی تعریف و توصیف ظاہر کررہی ہے کہ اب انہیں دال آٹے کا بھاو معلوم ہوچکا ہے۔ دوسروں کو مجرا کرنے کا مشورہ دینے والے این ڈی اے میں شامل جماعتوں کے سامنے کتھک ناچ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ امیت شاہ جو اچھے اچھوں کو منہ نہیں لگاتے تھے اب ایک سیٹ پر کامیاب ہونے والے جتن رام مانجھی کو دہلی بلانے کے لیے فون کررہے ہیں ۔ اسے مشیت کا انتقام کہتے ہیں ۔

اس طول طویل انتخابی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی اناپ شناپ باتوں اور بی جے پی کی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے وہ لوگ پریشان ہوتے تھے جو بھول گئے تھے کہ یہ عوامی فلاح وبہبود کے لیے کام کرنے والی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ اس سے چونکہ غلط توقعات وابستہ کرلی گئی تھیں اس لیے الجھن ہوتی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی دراصل ایک الیکشن لڑنے مشین ہے اور اس کا مقصدِ وجود اقتدار حاصل کرنا یا اسے قائم و دائم رکھنا ہے۔ وہ اپنے دشمن کو قابو میں کرنے کی خاطر چانکیہ کے سات نکاتی منصوبے کو بروئے کار لاتی ہے۔چانکیہ نیتی کو سام(بہلانا پھسلانا)، دام (خریدنا)، دنڈ(مالی یا جسمانی ایذا رسانی)، بھید(پھوٹ ڈالنا) ، مایا(لالچ، دھوکہ یافریب دینا) ، اپیکشا (دشمن کی حامیوں کو اپنے ساتھ کرکے اس کی مدد کے دروازے بند کرنا) اور اندر جال(سازش رچنا) کی اصطلاحات سے جانا جاتا ہے۔ بی جے پی نے موجودہ انتخابی مہم کے دوران اس حکمت عملی پر پوری طرح عملدر آمد کیا۔ بی جے پی چونکہ دن رات انتخابی جوڑتوڑ کے سوا کچھ نہیں کرتی اس لیے وہ ہمیشہ اس کام میں مصروف رہتی ہے۔
بی جے پی کے طریقۂ کار میں چانکیہ نیتی کے اصولوں کی جھلکیاں نہایت دلچسپ ہیں ۔سام یعنی بہلانے پھسلانے کے معاملے کو مہاراشٹر، بہار اور اترپردیش میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مہاراشٹر کے اندر شیوسینا کو توڑنے سے پہلے اور بعد میں بی جے پی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی مگر چونکہ اکثریت ثابت کرنےکی خاطر دیگر جماعتیں اس کی حمایت میں نہیں آئیں اس لیے وہ اقتدار سے محروم رہی ۔ ایکناتھ شندے کے ساتھ آجانے سے وہ کمی پوری ہوگئی اب ریاست میں بی جے پی کے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کی حلف برداری ہوجانی چاہیے تھی مگر’سام‘ کے اصول کا تقاضہ تھا کہ بڑ بولے فڈنویس کو نائب وزیر اعلیٰ بنایا جائے۔ بہار کے اندر نتیش کمار کی جے ڈی یو سے زیادہ نشستیں بی جے پی کی ہیں مگر انہیں وزارت اعلیٰ کی کرسی سے نہیں ہٹایا گیا ۔ اترپردیش میں بی جے پی نے کواوم پرکاش راج بھر نے خوب برا بھلا کہا مگر اسےنہ صرف وزارت سے نوازہ گیا بلکہ ان کے بیٹے اروند راج بھر کو گھوسی سے پارلیمانی امیدوار بھی بنا دیا گیا لیکن یہ تدابیر کام نہ آئیں۔ شندے کے زیادہ تر امیدوار ہار گئے اور صرف ۶؍نشستیں جیت سکے۔راج بھر کابیٹا بھی شکست کھا گیا اور نتیش کمار پھر سے انڈیا محاذ میں جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے سام والی حکمت عملی مفید ثابت نہیں ہوئی

بی جے پی کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی امیر ترین سیاسی جماعت ہے۔ اس نے چندہ جمع کرنے کے لیے الیکٹورل بانڈ سے پی ایم کیئر فنڈ تک کئی طریقے ایجاد کررکھے ہیں اس لیے مخالفین کو منہ بولے دام پر خریدنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کو اس پر عار محسوس نہیں ہوتی بلکہ فخر کرتے ہیں۔ مہاراشٹر میں حکومت سازی کے لیے دولت کا استعمال اس بے دریغ طریقہ پر کیا گیا کہ شندے سرکار کو ’کھوکے‘ یعنی لاکھوں کی دولت بکسے والی حکومت کا لقب مل گیا۔ مدھیہ پردیش ، گوا اور کرناٹک وغیرہ میں بھی دولت کے بل بوتے پر سرکار گرائی اور بنائی گئی۔ پارلیمانی انتخابی مہم کے دوران وقفہ وقفہ سے دیگر جماعتوں سے بی جے پی شمولیت کی خبروں کے پسِ پشت یہ عوامل کارفرما تھے۔ مخالفین کو جسمانی اور مالی ایذاپہنچانے کی خاطر ای ڈی اور سی بی آئی کا جیسا استعمال مودی اور شاہ نے کیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس کے ذریعہ نہ صرف اروند کیجریوال ، ہیمنت سورین، منیش سسودیہ اور انل دیشمکھ جیسے نہ جانے کتنے مخالفین جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دئیے گئے۔ انتخابی مہم کے دوران کانگریس کے کھاتوں کو منجمد کردینا اور اس پر کروڈوں کا جرمانہ لگا دینا اسی زمرے میں آتا ہے۔ ان ساری مکاریوں کے باوجود کانگریس نے اپنی سنچری مکمل کرکے ثابت کردیا کہ کانگریس مکت بھارت کا سپنا کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔
 
بھید کے معنی حریفوں کے درمیان تفریق و امتیاز پیدا کرنے اور عوام کو بھی ایک دوسرے سے لڑا دینے کے ہوتے ہیں۔ بی جے پی نے ہر جماعت سے توڑ کر بدعنوان لوگوں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا ہے۔ کرپشن کو دھونے والی اس کی مشین پوری دنیا میں مشہور ہوگئی اور آج حالت یہ ہے کہ اس کے ایک چوتھائی ارکان پارلیمان سنگھ کی شاکھا سے نہیں بلکہ مخالف جماعتوں سے نکل کر آنے والوں میں سے ہیں۔ ہندو اور مسلم کے درمیان دشمنی لگانے کا کام خود وزیر اعظم نے جس بے حیائی سے کیا ہے اس کا تصور بھی محال تھا۔ ایک وقت تو ایسا بھی آگیا کہ وہ حزب اختلاف کو مجرا کرنے کا مشورہ دے کر خود کیبرٹ ڈانس کرنے لگے تھے لیکن اس نے مسلمانوں کو متحد اور بیدار کرنے کے ساتھ ہندووں کو بیزار کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس راجستھان میں منگل سوتر کا راگ الاپا گیا وہاں سے کانگریس کےکئی ارکان اسمبلی کامیاب ہوگئے۔ اترپردیش جہاں رام مندر پر تالا لگوانے اور بلڈور چلوانے ڈر دکھایا گیا وہاں کے لوگوں سماجوادی پارٹی کو پہلے نمبر اور بی جے پی کو دوسرے مقام پر ڈھکیل دیا۔ مودی کے ووٹ کا فرق کئی گنا گھٹ گیا۔ سچ تو یہ مودی نے بی جے پی کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ کیا۔

چانکیہ نیتی میں استعمال ہونے والی ایک استحصال مایا ہے جس کے معنی دھن دولت یا دھوکہ فریب ہوتا ہے۔ اس حکمت عملی کا استعمال سیاستدانوں کے علاوہ سرمایہ داروں کو بلیک میل کرنےکے لیے کیا گیا۔ اس سے نہ صرف اڈانی جیسے چہیتوں کی مدد کی گئی بلکہ دیگر صنعتکاروں سے تاوان وصول کرکے انہیں سرکاری ٹھیکے بھی دئیے گئے ۔ان ٹھیکوں میں اتراکھنڈ کے اندر دھنسنے والی ٹینل اور جان لیوا ثابت ہونے والی ویکسین تک شامل ہے ۔ اپیکشا دشمن کی امداد رسانی کو روکنے کے لیے ان کے حامیوں کو ساتھ لینے کے معنیٰ میں آتا ہے۔ اس کی مثال بھی مہاراشٹر ہے جہاں ایکناتھ شندے کے ساتھ بی جے پی کو واضح اکثریت ہونے کے باوجود اجیت پوار کو توڑ کر اپنے ساتھ کرلینا ہے۔ یہ حرکت دراصل شردپوار کو کمزور کرنے کے لیے کی گئی تھی ۔کانگریس کو کمزور کرنے کی خاطر اشوک چوہان کو ساتھ لیا گیا ۔ مودی نے انہیں ایوان بالا کا رکن تو بنا دیا مگر وہ ناندیڑ سے بی جے پی کے امیدوار کو کامیاب نہیں کرسکے کیونکہ ان کی حامی کانگریس میں ہی رہ گئے۔ اس لیے بی جے پی کوئی خاص فائدہ تو نہیں کرسکے الٹا کانگریس مہاراشٹر میں چوتھے نمبر سے پہلے مقام پر آگئی۔

چانکیہ نیتی کا ساتواں اصول اپنے دشمن کے خلاف سازش کرنے کو اندر جال کہتے ہیں ۔ اس کی بھی بے شمار مثالیں ہیں مثلاً سندیش کھالی میں ایک فرضی عصمت دری کا معاملہ اچھال کر نہ صرف ممتا بنرجی صوبائی حکومت بلکہ پورے مسلم سماج کو بدنام کرنے کوشش کرنا تھا ۔ وہ جھوٹ بھی جب طشت ازبام ہوگیا تو مودی کو اسے بھول جانا پڑا۔ مغربی بنگال میں اس بار مودی اور شاہ کی تمام تر کوششوں کے باوجود بی جے پی کو بڑا خسارہ ہوا۔ دہلی کے اندر سواتی مالیوال کے ذریعہ اروند کیجریوال پر نشانہ سادھنا بھی اس زمرے میں آتا ہے مگر جو پارٹی برج بھوشن سنگھ جیسے بدمعاش کے بیٹے کو ٹکٹ دیتی ہے اس کی آنکھوں میں خواتین سے ہمدردی کے مگر مچھ والے آنسو زیب نہیں دیتے۔ پرجول ریوناّ کے واقعہ نے مودی جی رہی سہی ساکھ ختم کردی۔ سورت میں بلا مقابلہ کامیابی کے لیےکمال سازش رچی گئی۔ کھجوراہو، اندور اور اڈیشہ میں مخالف امیدواروں کا کانٹا نکالنا بھی ایک خطرناک ساز ش کا حصہ تھا مگر یہ سب کرنے کے باوجود بی جے پی چار سو پار تو دور معمولی اکثریت بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ان کے خلاف مسلسل جدو جہد کرنے والوں کے عزم و حوصلہ پر رشید کوثر فاروقی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
کچھ اور صبر کے اس جبر و آزمائش کا
سکون بخش نتیجہ ضرور نکلے گا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450591 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.