مودی کا زوال فی الحال میڈیا میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے ۔
دراصل اس کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ وکاس بابو کا ہے۔ ہندی میں ترقی کو وکاس
کہتے ہیں لیکن یہ بہت مقبول عام نام بھی ہے۔ مودی جی نے ’سب کا ساتھ سب کا
وکاس‘ کے نعرے پر اقتدار تو سنبھال لیا مگر جب کئی سالوں تک کوئی قابل ذکر
ترقی نہیں ہوئی بلکہ مہنگائی اور بیروزگاری آسمان کو چھونے لگی تو خود ان
کےآدرش گجرات میں ا یک نیا نعرہ چل پڑا اور وہ تھا کہ وکاس پاگل ہوگیا ہے۔
بعید نہیں کہ اب وہ نعرہ لگانے والے وکاس پوروش (رجال ترقی) کے بارے میں
بھی یہی کہنے کی نوبت آجائے ۔ وزیر اعظم آج سے دس سال قبل ایک چائے والا
بن کر آئے اور اپنے آپ کو غریبوں اور مسکینوں کا نمائندہ بناکر پیش کیا۔
عام لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے درمیان سے ایک بلکہ وہ خود وزراتِ
عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہورہے ہیں ۔ اس کے بعد وہ مختلف بھیس بدلتے رہے
کبھی چوکیدار بن کر بیٹھ گئے ، کبھی فوجی وردی پہن کر دیوالی منانے لگے ۔
ملک بھر میں بہروپیہ کی مانند بھانت بھانت کے لباس پہن کر گھومتے رہے ۔
مغربی بنگال کا انتخاب جیتنے کی خاطر رابندر ناتھ ٹیگور کی طرح لمبی داڑھی
اور شال کندھے پر رکھ لی لیکن یہ سب انسانوں والی حرکتیں تھیں ۔ ان کی
نرگسیت اب انسانی جبلت کے حدود و قیود سے باہر نکل رہی ہے۔ وزیر اعظم کی
ذاتِ والا صفات پر اب ترمیم کے ساتھ محبوب خان کی فلم مدر انڈیا کا نغمہ
صادق آتاہے؎
نہ میں انسان ہوں ، نہ میں شیطان ہوں
دنیا جو چاہے سمجھے میں تو بھگوان ہوں
وزیراعظم نریندر مودی ایک انسان تھے اور ہیں لیکن گجرات میں اپنی کرسی کو
بچانے کی خاطر شیطان بن گئے ۔ وزیر اعظم بننے کی خاطر انہوں نے پھر سے
انسانیت کا چولا اوڑھا مگر دس سال کے بعد اپنا اقتدار بچانے کی خاطر بھگوان
ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ اس میں ان کے چمپت رائے اور سمبت پاترا جیسے
بھگتوں کا اہم کردار ہے۔ ایک بھگت نےانہیں بھگوان بنایا تو دوسرے نےبھگوان
ان کا بھگت بنادیا ۔ وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ ان چاپلوس لوگوں کو منع
کرتے مگر اس کےبرخلاف خود انہوں نے بھی اس کا بلا واسطہ دعویٰ کردیا۔وہ
اپنے ایک نورا انٹرویو میں کہتے ہیں”مجھے یقین ہے کہ میں حیاتیاتی طور پر
پیدا نہیں ہوا ہوں، انہیں خدا کی طرف سے ایک خاص مشن کی تکمیل کے لیے بھیجا
گیا ہے“۔اس پر حیرانی جتانے والوں کومعلوم ہونا چاہیے کہ جس چینل پر مودی
جی نے یہ انٹرویو دیا اس پر ۷؍سال قبل راجستھان ہائی کورٹ کے ایک جج مہیش
چندر شرما نے دعویٰ کیا تھا کہ ‘مور برہم چاری جانور ہے اور وہ مورنی کے
ساتھ کبھی مباشرت نہیں کرتا ہے۔ مورنی تو مور کے آنسو پی کر حاملہ ہوجاتی
ہے۔ جس ملک میں ہائی کورٹ کےمنصف اس طرح سوچتے ہوں وہاں جاہل مودی بھگتوں
کا کیا حال ہوگا ؟ دنیا میں خاص مشن پر بھیجے جانے پر علامہ اقبال فرماتے
ہیں ؎
باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز سوار ہے اب میرا انتظار کر
علامہ اقبال اور مودی جی کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ اس شعر کے اندر
’میں‘ کا اطلاق کسی فردِ خاص کے لیے نہیں بلکہ پوری بنی نوع آدم پر ہوتا
ہے نیز اس میں کسی کے حیاتیاتی وجود ہونے کا انکار نہیں ہے۔ مودی جی جب
گجرات سے وارانسی انتخاب لڑنے کے لیے گئے تو ان کا کہنا تھا گنگا ماتا نے
بلایا ہے۔ کل تک جوگنگا کے بلانے پر اپنا صوبہ چھوڑ کر اترپردیش چلا جاتا
تھا اب بھیجنے پر آگیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روبیکا لیاقت نے توصرف ان
کی توانائی کا راز پوچھا تھا اس پر انہیں موقع پاکر رام دیو کی کمپنی
پتانجلی کے کسی چیون پراش کا پرچار کردینا چاہیے تھا مگر آج کل بابا جی کو
عدالت سے اتنی پھٹکار پڑ رہی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نےاس سے گریز
کرتے ہوئے دعویٰ کردیا کہ یہ "اورجا (توانائی)”، باقاعدہ حیاتیاتی قسم کی
نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک خدائی تحفہ ہے تاکہ اس کے ذریعے خدائی کام لیا
جاسکے“۔ سوال یہ ہے کہ خدائی تحفہ سے حیاتیاتی وجود کیونکر محروم رہ سکتا
ہے ۔ اس کے لیے کسی کا مودی ہونا ضروری کیوں ہے؟
وزیر اعظم اگر کم گو ہوتے تو ان کے گول مول جملوں کو کھینچ تان کر بھگت
کوئی نہ کوئی اچھا مطلب نکال ہی لیتے مگر انہوں نے کوئی گنجائش ہی نہیں
چھوڑی وہ بول گئے جب تک ان کی والدہ زندہ تھیں، تب تک وہ خود کو گوشت اور
خون کا ایک باقاعدہ حیاتیاتی وجود سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار تھے ۔ ان
(ماں) کے آسمانی ٹھکانے کے لیے روانگی کے ساتھ، ایسا لگتا ہے کہ مایا کا
پردہ اٹھ گیا ، وہم دور ہوگیا ، اور وہ بدھا جیسی روشن خیالی کی حالت میں
پہنچ گئے– اب وہ اپنے حقیقی الوہی اصل اور حقیقی الٰہی مقصد کے قائل ہوگئے
ہیں‘‘۔وزیر اعظم مودی کو یہ کہنے کے بعد شاید ان کو بائیولوجیکلی جنم نہیں
دیا گیا احساس ہوا کہ لوگ مذاق اڑائیں گے اس لیے وہ بولے اب مجھے یقین ہو
چلا ہے،میں غلط ہو سکتا ہوں، لوگ تنقید کریں گے، میرے بال نوچ لیں گے لیکن
میں قائل ہو چکا ہوں کہ پرماتما (خدا) نے مجھے بھیجا ہے، یہ توانائی
بائیولوجیکل جسم سے نہیں ملی۔ مودی جی کا ذہنی دیوالیہ پن اس شعر کی مصداق
ہے؎
وہ ایک شخص جو خود کو خدا سمجھتا ہے
نہ جانے کون سے خوابوں میں کھویا رہتا ہے
حالیہ الیکشن اگر تین چار مراحل میں ہوجاتا تو مذکورہ انٹرویو کی نوبت ہی
نہیں آتی اور روبیکا لیاقت ان سے یہ سوال نہیں کرتی کہ ’انتخابات کو لے کر
آپ گھبرائے ہوئے ہیں؟‘۔ ایسا سوال پہلے کسی نے وزیراعظم مودی سے نہیں کیا
کیونکہ وہ اس قدر تھکے ماندے کبھی بھی نظر نہیں آئے۔ اس کے جواب میں مودی
نے اپنی نےتھکاوٹ کی طرف سے توجہ ہٹاتے ہوئے کہا کہ نروسنیس کا لفظ ان کی
لغت میں نہیں ہے۔ یعنی چور کی داڑھی میں تنکا کی مصداق انہوں نے اپنی نروس
نیس کا اعتراف کرلیا اور پھر لن ترانی کرتے ہوئے بولے میں نے اپنی زندگی
میں تپسیا کی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے ہم وطنوں کے لیے صرف
کیا ہے۔ اور میں نے یہ سب اس لیے کیا ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ اس کے حقدار
ہیں۔ 70 سال تک ناانصافی ہوئی ہے۔ جب کوئی ان کے آنسو پونچھتا ہے، کوئی ان
کے بیت الخلاء کی فکر کرتا ہے تو ان باتوں کو وہ بھول نہیں سکتا ہے ۔
وزیر اعظم کی اس خود ستائی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان جیسے سیاستدانوں
کے ذریعہ کیے جانے والے فلاح و بہبود کے کام بے لوث خدمت نہیں بلکہ عوام کو
اپنا احسانمند بناکر ان ووٹ بٹورنے کی ایک سازش جھانسہ ہوتا ہے۔ اسی لیے ان
کے سامنے وزیراعظم اپنے احسانات گنواتے ہوئے کہتے ہیں کہ کورونا کے مشکل
وقت میں انہوں نے کسی گھر کا چولہا بجھنے نہیں دیا تھا۔ بچوں کو بھوکا سونے
نہیں دیا تھا۔ ان تمام کاموں کی وجہ سے لوگوں کا حکومت پر اعتماد بڑھا ہے
اور یہی اعتماد انہیں توانائی دیتا ہے۔ ان چکنی چپڑی باتوں میں آکر عام
لوگ بھول جاتے ہیں کہ اچانک لاک ڈاون کے سبب انہیں ہزاروں کلومیٹر پیدل چل
کر اپنے گاوں جانا پڑا تھا ۔ راستے میں ان کو کہیں ریل نے کچلا تو کبھی
پولیس کے ڈنڈے کھانے پڑے تھے۔ ان کو آکسیجن کی خاطر اپنا در بدر مارے مارے
پھرنا یاد نہیں آتا اور ویکسین بنانے والی کمپنی سے ایک ایسا ٹیکہ خرید کر
لوگوں لگوا دینے کی غلطی کے اوپر بھی پردہ پڑ جاتا ہے جس کے مضر اثرات کو
جانچا نہیں گیا تھا۔ وزیر اعظم اب اس ویکسین کو مفت میں لگوانے کے احسان کی
بات نہیں کرتے کیونکہ اسے بناے والی کمپنی سے الیکٹورل بانڈ کی آڑ میں
رشوت لی گئی تھی ۔ مودی جی نے تو اب ویکسین سرٹیفکیٹ کے اوپر سے بھی اپنا
ہنستا ہوا نورانی چہرا بھی ہٹا دیا ہے۔
روبیکا لیاقت نے انٹرویو کے دوران دیکھا کہ گول مول سوالات کرنے سے بات
نہیں بن رہی ہے تو سیدھے پوچھ لیا’پانچ سال پہلے میں نے آپ سے سوال کیا تھا
کہ آپ تھکتے کیوں نہیں۔ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں مجھے آپ زیادہ توانا
نظر آرہے ہیں، آپ نے زیادہ ریلیاں نکالی ہیں، آپ زیادہ کام کر رہے ہیں، آپ
واقعی تھکتے کیوں نہیں؟‘ مودی جی کوپانچ سال پہلے کے مقابلے زیادہ توانا
وہی کہہ سکتا ہے جس کی آنکھوں پر عقیدت اوردولت کی عینک لگی ہو ۔ ان کے
مچھلی ، مٹن ، منگل سوتر، بھینس ، ٹونٹی اور مجرا والے بیانات چیخ چیخ کر
کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نہ صرف جسمانی طور پر ٹوٹ چکے ہیں بلکہ دماغی
دیوالیہ پن کا بھی شکار ہوچکے ہیں اور ان کمزوریوں کو الوہیت کی چادر سے
ڈھانپنے کی کوشش کی گئی مگر ملک کی عوام نے یہ انتخابات میں دکھا دیا کہ وہ
بیچارہ چار سو پار تو دور معمولی اکثریت بھی نہیں لاسکا۔ اس رسوائی کے بعد
عزت نفس کا تو تقاضہ یہی ہے کہ وہ ازخود جھولا اٹھاکر ایک کنارے ہوجائیں اس
لیے اب اگر مخلوط حکومت میں وہ وزیر اعظم بن بھی جائیں تب بھی ان سے کچھ
ہوگا نہیں الٹا آئے دن حامی جماعتوں کے سامنے مجرا کرنا پڑے گا ۔ ایسی
صورتحال میں ارتضیٰ نشاط کا مشورہ ہے؎
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے؟
|