اے پی سی کا افسوسناک پہلو

امریکی دھمکیوں اور الزامات کے ردعمل میں پاکستان کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں اور حکومت کا مشترکہ موقف قوم کی جانب سے ایک مثبت اور امریکہ اس کے حواریوں کےلئے سخت جواب ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس(اے پی سی) میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ( ن)، جمعیت علماءاسلام (ف)، جمعیت علماءاسلام (س)، متحدہ قومی موومنٹ، تحریک انصاف سمیت 56 کے قریب جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بھی ہم ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے لئے متحد ویکجا ہیں تاہم آل پارٹیز کانفرنس کے حوالے سے حکومت کے بعض اقدام نہ صرف قابل اعتراض بلکہ افسوسناک اور قابل مذمت بھی ہیں جن کے منفی اثرات شاید مستقبل کی سیاست میں انتہائی گہرے ہونگے۔

اے پی سی میں جہاں اہم قومی سیاسی ،مذہبی، علاقائی جماعتوںاور قوم بعض قوم پرست تنظیموں کو مدعو کیا گیا وہیں پر کئی کاغذی جماعتوں کی قیادت بھی دکھائی دی، لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کانفرنس میں ملک کی مختلف معروف قومی وعلاقائی سیاسی ومذہبی جماعتوں کو مدعو نہیں کیا گیا جن میں مسلم لیگ (ضیائ)، سندھ نیشنل فرنٹ، پیپلز پارٹی شہید بھٹو، جئے سندھ ترقی پسند پارٹی، اہلسنت والجماعت پاکستان، جماعة الدعوة پاکستان، جمہوری وطن پارٹی،جئے سندھ قومی محاذ اور اس طرح کی دیگر ایک درجن سے زائد مذہبی وسیاسی اور قوم پرست جماعتیں شامل ہیں ان کو مدعو نہ کرکے نفرت کی انتہائی غلط بنیاد رکھی گئی ہے۔ جمہوری وطن پارٹی گزشتہ چار دہائیوں سے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں بھرپور نمائندگی کی حامل رہی ہے۔ اسی طرح سندھ نیشنل فرنٹ، جئے سندھ قومی محاذ اور سندھ ترقی پسند پارٹی سندھ کی سیاست اور عوام میں انتہائی گہرے اثرات رکھتی ہیں جبکہ اہلسنت والجماعت پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی کے تقریباً تمام ہی انتخابی حلقوں میں اس جماعت کا اچھا خاصا ووٹ بینک اور اس کا ملک کی مذہبی سطح پر منظم جماعتوں میں شمار ہوتا ہے۔ مسلم لیگ( ضیائ) کی نمائندگی پنجاب اسمبلی میں ہے جبکہ جماعة الدعوة پاکستان کا بھی مذہبی حلقوں میں ایک اچھا خاصا نیٹ ورک اور اثر ورسوخ ہے۔سندھ نیشنل فرنٹ اور پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے بارے میں بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی ذاتی رنجش کی وجہ سے انہیں مدعو نہیں کیا گیا جبکہ دیگر جماعتوں کو بھی نظر انداز کرنے پر مختلف تجزیہ نگار اور مبصرین حیران ہیں۔

دراصل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم ہاﺅس کی جانب سے مدعو کی گئی جماعتوں کی قیادت کے حوالے سے کوئی خاص معیار مقرر نہیں کیا گیااور نہ ہی مذکورہ بالا جماعتوں یا قیادت کو نظر انداز کرنے کے منفی اثرات سے حکومتی قیادت آگاہ ہے۔اے پی سی میں معروف سرگرم سیاسی ومذہبی جماعتوں کو ہی مدعو کرنا تھا تو کاغذی جماعتوں کی موجودگی ایک بڑا سوال ہے اور اگر الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعتوں کو ہی بلانا تھا تو پھر اے پی سی میں فارورڈ بلاک اور الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہ ہونے والی جماعتوں کی قیادت کی موجودگی بھی سوالیہ نشان ہے۔ اسی طرح اگر کالعدم جماعتوں کی سابقہ قیادت کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو پھر آل پارٹیز کانفرنس میں بعض ایسے رہنماﺅں کی موجودگی جو یکے بعد دیگرے کالعدم جماعتوں کے رہنما رہے ہیں کئی خدشات کو جنم دیتے ہیں۔یقینا حکومت کے اس دانستہ یا غیر دانستہ عمل کا مستقبل کی سیاست بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس کے اژالے کےلئے فوری طور پر وزیراعظم پاکستان ہر ممکن اقدام کریں اور ان جماعتوں کی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرکے اپنی دانستہ یا غیر دانستہ کوتاہی کی تلافی کریں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ پیغام جائے گا کہ حکومت نے ملک کی قوم پرست اور سرگرم مذہبی جماعتوں کی ایک بڑی تعداد کو جان بوجھ کر امریکی حامیوں کی صف میں کھڑا کردیا حالانکہ یہ لوگ اس وقت بھی قومی سلامتی اور مفاد کےلئے ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں اور کرینگے بھی۔ اس کی واضح مثال کراچی میں امریکی قونصل خانے کے باہر بلوچوں کا بھرپور احتجاجی دھرنا اور اہلسنت والجماعت پاکستان کے تحت 30 ستمبر کو ملک بھر میں بھرپور احتجاج ہے جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ قومی سلامتی وبقاءکےلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔ یہ وقت ذاتی رنجشیں، اختلافات اور شکوہ شکایات کو بھلا کر متحد ہو کر عالمی سامراج کا منظم مقابلہ کرنے کا ہے۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت اور حکومتی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔

مجموعی طور پر اے پی سی کے نتیجے میں جو اعلامیہ جاری ہوا ہے وہ انتہائی مثبت اور واضح پیغام ہے۔ تاہم اس اعلامیہ میں امریکہ کا براہ راست ذکر نہ ہونے پر قوم ایک بڑی کمی محسوس کررہی ہے۔ اگرچہ اعلامیہ کے مطابق اے پی سی میں تمام گفتگو صرف امریکی دھمکیوں، دہشت گردی اور مفاد پرستی کی حوالے سے ہی ہوئی ہے، اسکا اعلامیہ میں بھی اس کا ذکر ہوتا تو مناسب ہوتا۔تاہم اب معاملہ اعلامیہ اور اے پی سی تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ قومی سطح پر ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ماضی میں اکتوبر 2008ءاور مئی 2009ءمیں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس اور پارلیمنٹ کے مشترکہ فیصلوں پر عمل درآمد اور حکومت کا ردعمل دیکھتے ہیں تو بظاہر اس کانفرنس کے حوالے سے بھی ناامیدی دکھائی دیتی ہے لیکن پاکستان کی موجودہ وزیر خارجہ(حنا ربانی کھر) اور مسلح افواج کی قیادت کے بعض اقدام اور بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اب نتیجہ 2008ءاور مئی 2011ءسے مختلف ہوگا اور ہونا بھی چاہئے ،کیونکہ نائن الیون کے بعد ہم نے گزشتہ 10 برسوں میں امریکہ کے سامنے جھک کر جو نقصان اٹھایا اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا اس کی دنیا میں شاید ہی کسی اور ملک میں مثال ملتی ہو۔ دوسروں کی جنگ میں ہم نے اپنے 5 ہزار سے زائد فوجی اور 35 ہزار سے زائد سول قربان کئے اور 60 ارب ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کیا۔ ملک کو شرق سے لے کر غرب تک وار زون(جنگی ملک) بنادیا۔ ان سب کے باوجود عالمی سامراج اور انسانیت کا دشمن امریکہ ہم پر ایک اور جنگ مسلط کرکے افغانستان میں اپنی اور دیگر 47 حواری ممالک کی بدترین شکست کو فتح بدل سکے اور اس کےلئے وہ پاکستان کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ مزید یہ کہ امریکہ، چین کے دنیا میں بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ اوراس کی معاشی ترقی سے بہت زیادہ خوفزدہ ہے اور اب امریکہ چین کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے کےلئے اس کے قریبی دوست پاکستان پر باالواسطہ یا بلا واسطہ حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔ یقینا اس کو چینی قیادت نے بھی محسوس کیا اور امریکی فوج کے سابق سربراہ مائیک مولن کی پاکستان پر الزام تراشی کے بعد چینی نائب وزیراعظم کا دورہ پاکستان اور اس کے نتیجے میں ردعمل پاکستان کےلئے مثبت اور امریکہ کےلئے واضح پیغام تھا جبکہ اس موقع پر یقینا چین کا یہ ردعمل اور روس کی خاموشی ہمارے علاقائی اور نام نہاد دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت کےلئے ایک سنجیدہ جواب ہے جس نے امریکی دھمکیوں کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان کے حوالے سے پروپیگنڈہ شروع کیا۔

بھارت کا یہ رویہ ہمارے ان لبرل اور سیکولر انتہا پسندوں کےلئے لمحہ فکریہ ہے جو آج بھی سب کچھ بھلا کر پاکستان کو بھارت کی جھولی میں ڈالنے کےلئے یکطرفہ تعلقات میں بہتری اور کبھی مبینہ دہشت گردی کے خاتمے اور مذہبی لوگوں کے خلاف کارروائی کی بات کرتے ہیں حالانکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں انتہا پسندی انتہائی زیادہ ہے اور ہمارے نام نہاد دانشور پاک بھارت تعلقات کے نام پر کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور مقوضہ کشمیر میں ہزاروں گمنام قبروں سے برآمد ہونے والی کشمیریوں کی لاشوں کا ذکر کرنا بھی بدتراز گناہ سمجھتے ہیں۔ پاکستانی عوام دنیا کے باالعموم تمام اور بالخصوص پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات اور مراسم رکھنا چاہتی ہے لیکن یہ تعلقات قومی سلامتی، عزت اور قومی وقار کے سودے پر نہیں بلکہ تمام ممالک کے مابین برابری کی بنیاد پر ہونے چاہئیں، اس لئے بھارت کو امریکی دھمکیوں کے بعد للچائی ہوئی نظروں سے پاکستان کو گھورنے سے گریز کرتے ہوئے اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ آج اگر یہ مشکل وقت اس کے پڑوسی پر آیا ہے تو کل یہ اس پر بھی آسکتا ہے اور اگر اس نے پڑوسی کے خلاف ہونے والی سازشوں میں 1971ءکی طرح ہر اول دستہ کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو پھر اسے بھی اپنے پڑوسی سے شکوہ شکایت نہیں کرنی چاہئے۔ اس دوران افغانستان کے کٹھ پتلی صدر حامد کرزئی نے بھی اپنے جوبن دکھانے شروع کردیئے ہیں۔ سہ ممالک(پاکستان،افغانستان اور امریکا) کے ہونے والے مذاکرات اور وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کا دورہ کابل کو یکطرفہ منسوخ کرنے کا افغان حکومت کا اقدام نہ صرف قابل مذمت بلکہ انتہائی شرمناک ہے اور افغان حکومت سے توقع بھی یہی تھی کیونکہ اس وقت افغانستان امریکہ کی ایک مقبوضہ ریاست ہے۔ امریکہ سمیت 48 ممالک کی افواج اور افغانستان کی کٹھ پتلی انتظامیہ 10 سال بعد بھی مقبوضہ افغانستان میں کنٹرول نہیں کرسکی ہے۔

ذرائع سے حاصل کردہ اعداد وشمار کے مطابق افغانستان کے نصف سے زائد حصے پر طالبان کا مکمل جبکہ ایک تہائی سے زیادہ حصے پر جزوی کنٹرول ہے۔ امریکہ جس حقانی نیٹ ورک کو بنیاد بنا کر پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے اس نیٹ ورک کا کنٹرول افغانستان کے 7 صوبوں پر ہے جہاں پر وہ آزادانہ نقل وحمل کے ساتھ اپنے قوانین کا نفاذ بھی کرتے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق خود کابل میں طالبان کے بیشتر قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور عملی طور پر امریکہ اور اس کے حواریوں کو افغانستان میں شکست فاش کا سامنا ہے، ایسے میں امریکہ براہ راست پاکستان پر حملے کی تو شاید جسارت نہ کرسکے لیکن وہ پاکستان کے اندر سازشوں کو تیز تر کرسکتا ہے جس میں ہمارے ملک کے اندر مذہبی وسیاسی اختلافات کو پروان چڑھانا، دہشت گردی کی کارروائیوں کو تیز کرنا اور عالمی سطح پر دباﺅ بڑھانا شامل ہے۔ اس مشکل مرحلے پر ہم نے تمام سطحوں پر تمام طرح کے اختلافات کا خاتمہ کرکے قومی سلامتی اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے منظم ہو کر ذلت کی زندگی کے بجائے عزت کی موت یا پھر عزت کی زندگی کا انتخاب کیا تو یقینا امریکہ اور اس کے حواریوں کو اس خطے میں ایک اور بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مشکل مرحلے پر پوری قوم متحد ومنظم ہوجائے اور امریکہ اور اس کے حواریوں کو منظم پیغام دے۔ سیاسی قیادت بھی ظاہری اور باطنی تضاد کو ختم کرکے پاکستان کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے جرات مندانہ اور غیرتمندانہ فیصلے کرے اور ان پر عمل درآمد کےلئے حکومت کو مکمل تعاون فراہم کرنے کے ساتھ پورے عالم کو ایک مثبت پیغام دے۔ اسی کے ذریعے ہی ہم اپنے مسائل اور مشکلات پر قابو اور امریکی دھمکیوں اور سازشوں کا بہترین مقابلہ کرسکتے ہیں۔اس مرحلے پر ہمیں ان لوگوں سے بھی بات کرنے کی ضرورت ہے جو بعض ذاتی معاملات پر اختلافات رکھتے ہیں اور ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106855 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.