جب ہندوستان میں پاکستان کی
تحریک چلنے لگی تو ماہتما جی نے کہا کہ ”یہ کیا ہورہا ہے“ ۔جب یہ تحریک
کامیاب ہوئی اور بٹوارہ ہونے لگا پھر دونوں اطراف سے لوگ ہجرت کرنے لگے۔جب
لٹے پٹے قافلوں پر حملے ہوئے لوگ گاجر مولی کی طرح کٹنے لگے تو دنیا نے کہا
کہ یہ کیا ہورہا ہے۔اور ایک سال بعد بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی
حالت غیر ہوگئی اور بانی پاکستان نے بندر روڈ میں ایمبولینس پر ہی جان دی
اور وہ خالق حقیقی سے جاملے۔اہل فکر کو حیرت ہوئی اور کہنے والوں نے کہا کہ
یہ کیا ہورہا ہے۔قائدکے بچھڑنے کے بعد بڑی چہ میگوئیاں ہونے لگی مگر کوئی
سِرا ہاتھ نہیں لگا۔اس کے بعد قائد اعظم کا دائیاں بازو قائد ملت لیاقت علی
خان کو سر عام قتل کیا تو پانی کے بلبلے کچھ دیر کے لیے اُبلنے لگے پھر مثل
حباب ان کا جذبہ ختم ہوگیا۔اس سانحہ سے پوری قوم کا دل خون کے آنسو رونے
لگا کیا کرتے کیا کہتے بچارے بس یہی کہتے رہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔اس کے بعد
ملک عزیز پاکستان میں ایک عظیم سیاستدان سورج کی طرح طلوع ہوا اور دیکھتے
ہی دیکھتے پوری دنیا میں اس کا نام روشن ہوا۔اور یہ روشنی علم بین الاقوامی
مسلم کانفرنس کا نمایا چیئرمین بنا، اور1971ءمیں جب پاک فوج کے ایک لاکھ کے
قریب جوان قید ہوئے تو یہی بھٹو تھا جس نے اپنی جرائت اور حکمت عملی سے
قیدیوں کو چھڑا لایا۔اس کے علاوہ ملک میں ہر بے زبان کو زبان دی بولنے کی
شکتی دی اور ملک کو ترقی کی جانب گامزن کیا۔ اور اس عظیم سیاستدان کو ایک
ڈکٹیٹر نے پھانسی پر لٹکایا۔ اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے
سربراہان کو دکھ ہوا کہ جن کے سپاہیوں کو موت سے بچا کر لانے میں کامیاب
ہوا تھا اُن سپاہیوں کے سربراہ یعنی ایک فوجی جرنیل نے اس نایاب عوامی لیڈر
کو شہید کردیا۔اس پر ملک کے اندر اور باہر سے بیک آواز آئی کہ یہ کیا ہورہا
ہے۔جب اس عظیم لیڈر کی عظیم بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو بر سر اقتدار آئی تو
اسی کے دور اقتدار میں ہی بھٹو کا بیٹا بینظیر کا بڑا بھائی میر مرتضیٰ
بھٹو کو بیچ چوراہے پر مار دیا۔مگر ملک کی وزیر اعظم بے بس تھی کچھ نہ کر
سکی مرتضیٰ کے جیالے سینہ کوبی کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔
بھٹو خاندان کا ایک اور بیٹا شاہنواز بھٹو بھی مارا گیا مگر معلوم ہوتے
ہوئے بھی کچھ معلوم نہیں ہوا۔پھر ملک کے ایک عظیم جرنیل کو میزائل کا نشانہ
بنایا نہ معلوم یہ میزائل تھا یا چیونٹی اس کا بھی کچھ پتہ نہیں چلا اہل
درد کہنے لگے یہ کیا ہورہا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آ پہنچا کہ بھٹو کی بیٹی کو
دوبارہ اپنی دھرتی میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور جب کراچی میں اس کا
استقبال کیا جارہا تھا تو اسے مارنے کی کوشش ہوئی ۔وہ تو بچ گئی مگر کئی
قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔اب آجائیں قاتل باغ میرا مطلب ہے لیاقت باغ۔ جب
لیاقت باغ میں محترمہ کا تاریخی جلسہ تھا اور اس جلسے میں قوم کی بیٹی کو
شہید کردیا گیا۔ اور حقیقی معنوں میں اب تک قاتل منظر عام پر لائے گئے ہیں۔
جب بےنظیر کو مارا گیا تو ان کی پارٹی کے علاوہ کے لوگوں ،سیاستدانوں نے
بہت افسوس کا اظہار کیا اور بیرونی دنیا میں بھی ہمارا وقار مزید گرنے
لگا۔عوام کہنے لگے یہ کیا ہورہا ہے۔گزشتہ دنوں گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کو
اس کے اپنے سیکورٹی گارڈ نے مار دیا یہ مار دھاڑ کا سلسلہ اپنے ملک میں بہت
تیزی سے جاری و ساری ہے نتیجہ نہ نکلا ہے اور نہ نکلے گا۔اس ملک میں دہشت
گردی کا پودا ضیاءالحق نے لگایا اُس دور میں کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کی
لب کشائی کر سکیں، مگر کچھ فکر کرنے والوں نے دھیمے لہجے میں کہا کہ یہ کیا
ہورہا ہے۔مگراُس زمانے میں بولنا بھی خطرے سے کم نہیں تھا۔ اب دیکھتے
دیکھتے پورا ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ عنکبوت بھی
کہہ رہا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ملک عزیز کے ایوانوں میں جو نقشہ نظر آرہا
ہے اسے دیکھ کر ڈاکو کہتے ہیں یار ٹی وی میں دیکھو یہ کیا ہورہا ہے۔پھر
سلمان تاثیر کی قبر کی مٹی سوکھی نہیں تھی ایک اور وزیر کو نیچے پہنچادیا
تو شہباز بھٹی کو دیکھ کر سلمان تاثیر ضرور یہ کہیں گے یار یہ کیا ہورہا
ہے۔ایسے میں ایک غیر ملکی ہیرو نے دو پاکستانی کو ڈھیر کردیا اور ایک مرحوم
کی بیوی نے اپنے شوہر کی غم کی تاب نہ لاتے ہوئے خودکشی کی۔ ایک امریکی
ایجینسی کے آدمی کو جب امریکہ بہادر نے سفارت کار کے طور پر پیش کیا تو
ہمارے حاکم بھی بول اُٹھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ایسے میں ایک گدا گر نے کہا
کہ بھکاری کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے جو اپنی روزی خود پیدا کرنے کا بھی
اہل نہیں ہو تو وہ اپنے پریوار کو برائے فروخت کے لیے بازار میں بینر لگاکر
کھڑا ہی ہوسکتا ہے اور کوئی چارہ نہیں جب فقیر کی بات سنی گئی تو کچھ اہل
دانش کو خطرے کی گھنٹی کی آواز آئی تو کہنے لگے اب بس بھی کریں یہ کیا
ہورہا ہے۔کل رات جنت کے پلاٹ تقسیم کرنے والے فرشتے نے اپنے موبائل سے ایس
ایم ایس کیا اُس فرشتے نے کچھ اس طرح لکھا تھا۔اب خود کش حملہ ہو یا فائرنگ
کر کے ایک دوسرے کو ماردو کچھ بھی کرو مگر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جنت
میں پلاٹ اب ختم ہوگئے ہیں۔ اب زمین پر ہی کہیں اپنے لیے جنت بنالینا اور
اپنے اپنے نام کے ایڈوانس ہی تختی لگالینا۔ خدا کا حکم آیا ہے کہ اس جنت
نظیر خطے میں جہنم کی خصلت والے لوگ درکار نہیں اب یہاں کوئی خوبصورت لوگوں
کو لانا ہے تاکہ وہ اس ملک کو مزید خوبصورت بنائیں اور جنت کے پلاٹ کی
انہیں خواہش بھی نہیں ہوگی۔جب یہ خبر پوری دنیا میں پھلی تو پریشانی امریکہ،
اور یورپ والوں کو زیادہ ہوئی کہنے لگےoh Godیہ کیا ہورہا ہے۔ان کے جواب
میں احمدی نجات نے کہا کہ اب جو ہونے والا ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا ہے اب
اپنے بوئے ہوئے فصل کو خود ہی کاٹنے کے لیے تیار رہو۔بس اچانک احمدی نجات
کو ایک زور دار آواز آئی” نجات نجات“تم ڈٹے رہنا وہ وقت آگیا ہے قریب (گر
تہران ہو عالم مشرق کا جینوا۔ شاید کرہ عرض کی تقدیر بلد جائے۔ یہ آواز تھی
مفکر قرآن شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی تھی۔ |