دنیا اس جوہر نایاب کو صحیح معنوں میں پہچان نہ سکی



صادقین کا پورا نام سید صادقین حسین نقوی تھا . خطاطی ان کا خاندانی فن تھا، سادات امروہہ کے جس گھرانے میں انہوں نے 30 جون 1930ء کو آنکھ کھولی وہ فنِ خطاطی کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا۔ صادقین کی ابتدائی تعلیم امروہہ میں ہی ہوئی، پھر آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا اور جب ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تو وہ اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آگئے۔

طالب علمی کے زمانے ہی سے صادقین گھروں کی دیواروں پر نقاشی، تصویر کشی اور خطاطی کیا کرتے تھے۔ چوبیس برس کی عمر میں صادقین کے فن پاروں کی پہلی نمائش کوئٹہ میں ہوئی۔ 1960ء میں صادقین کی فنی صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اکتیس برس کی عمر میں صادقین کو فرانس کے اعلیٰ سول اعزاز کا حقدار قراردیا گیا۔

صادقین کی وجہ شہرت فن مصوری کے کسی ایک شعبے میں کمال دکھانے کے باعث نہیں تھی بلکہ انہوں نے مصوری کے کئی شعبوں میں ایسے کمالات دکھائے ہیں کہ اب شاید ہی کوئی ان کی جگہ اس قدر ہمہ جہت انداز میں اپنا فن پیش کرسکے۔ صادقین نے سینکڑوں فن پارے تخلیق کیے اور ان میں سے زیادہ تر اپنے مداحوں کو بطور تحفہ عنایت کردیے۔ صادقین کی تخلیقات کی مشرق وسطیٰ، امریکا اور یورپ میں کامیاب نمائشیں ہوئیں۔

1970ء میں انہوں نے سورۂ رحمن کی آیات کو انتہائی دلکش انداز میں پینٹ کیا اور مصورانہ خطاطی کے ایک نئے دبستان کی بنیاد ڈالی۔

صادقین کے دوستوں کا کہنا تھا کہ اکثر فنکاروں کی طرح صادقین کی شخصیت میں یکسر مختلف اور متضاد رنگ موجود تھے۔ اٹھائیس فروری 2002ء کو موہٹّا پیلس میوزیم، کراچی میں ڈان میڈیا گروپ کے سربراہ حمید ہارون کے زیرانتظام صادقین کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی تھی، جس میں صادقین کے دو سو سے زائد نایاب شاہکار پیش کیے گئے۔

اس نمائش کے ذریعے صادقین کے اندر چھپا وہ ہمہ جہت فنکار سامنے آسکا جو شاید فوجی آمر ضیاءالحق کی اسلامائزیشن کے نام پر فنون لطیفہ کو تباہ کرنے کی پالیسی کی بناء پر محض خطاطی کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوگیا تھا۔ مذکورہ نمائش کے منتظمین نے بطور خاص یہ کوشش کی تھی کہ عام لوگ چونکہ صادقین کو صرف اسلامی خطاطی کے حوالے سے جانتے ہیں، اس لیے خطاطی کے فن پاروں کے بجائے صادقین کے فن کے اس شاندار رُخ کو عام لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے جو کہیں چھُپ گیا ہے۔ دو ہفتے جاری رہنے والی اس نمائش کو چھیاسی ہزار افراد نے دیکھا، جو صادقین کی مقبولیت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔

خود صادقین بھی خطاطی سے کہیں زیادہ مصوری کی دیگر جہتوں میں کیے گئے کام کو اہمیت دیتے تھے۔ ایک مرتبہ صادقین سے کسی نے پوچھا کہ کیا قرآنی آیات کی خطاطی کی وجہ سے انہیں اسلامی مصور کہا جا سکتا ہے؟ صادقین نے اختلاف کرتے ہوئے جواب دیا تھا کہ میرا اصل فن مصوری یعنی تصویریں بنانا ہے اور میری خطاطی بھی میری مصوری کے ہی زیرِ اثر ہے۔

صادقین انڈیا گئے تو انہوں نے ایک بڑا عرصہ دہلی میں گزارا۔ ہندوستانی حکومت نے انہیں مکمل پروٹوکول کے ساتھ ان کے آبائی شہر امروہہ لے جانے کا اہتمام کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے پورا شہر ہی ان کے استقبال کے لیے اُمڈ آیا ہو۔ انہیں ہاتھی پر بٹھا کر جلوس کی شکل میں ان کے آبائی گھر لے جایا گیا۔ اُس وقت کی ہندوستانی وزیرِاعظم اندرا گاندھی کی طرف سے اس گھر کی چابیاں بطورِ تحفہ پیش کی گئیں۔

صادقین نے چابیاں یہ کہتے ہوئے واپس کر دیں کہ ‘میں اس گھر کو امروہہ کے باسیوں کی نذر کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ یہاں ایک کتب خانہ قائم کریں گے۔’

صادقین اپنے فن پاروں میں میورالز کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میورالز بناتے ہوئے انہیں کچھ ایسا محسوس ہوا کرتا کہ وہ ان مناظرمیں اور ان لوگوں میں جن کی وہ تصویریں بنا رہے ہوتے ، گویا وہ ان کے چاروں اور زندہ ہیں اور وہ ان میں سانس لے رہے ہیں۔

صادقین نے اپنا پہلا میورل کراچی ایئر پورٹ پر بنایا، کراچی میں جناح ہسپتال اور منگلا ڈیم کے علاوہ سینڑل ایکسائز لینڈ، کمشنر کلب اور سروسز کلب کی دیواروں پر موجود شاہکار صادقین کی تخلیقات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ 1961ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں وقت کے خزانے کے نام سے شاندار میورل تخلیق کیا، اس عظیم الشان فن پارے میں انہوں نے سقراط سے لے کر آئن اسٹائن تک ہر عہد کے علمی اور سائنسی ارتقائی ادوار کو اس قدر مہارت اور خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ دیکھنے والا مبہوت ہوکر رہ جاتا ہے۔

غالب کی صدسالہ برسی کے موقع پر 1969ء میں صادقین نے کلام غالب پر پچاس وسیع وعریض اللسٹریشنز تیار کیں۔

صادقین کو کئی ملکی غیر ملکی ایوارڈز، انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کے شاہکار ‘The Last Supper’ نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، فریئر ہال کراچی، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پنجاب یونیورسٹی جیسی اہم عمارتوں کے علاوہ بالخصوص پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے میں صادقین کے منقش فن پارے آنے والی نسلوں کو صادقین کی فنی عظمت کی یاد دلاتے رہیں گے۔

بھرپور ستائش ملنے کے باوجود صادقین دنیا کی بھیڑ میں گم ہونے کے بجائے اپنے فن کی دنیا میں ہی رات دن مگن رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے دنیا اس جوہر نایاب کو صحیح معنوں میں پہچان نہ سکی، وہ جانتے تھے کہ وہ دنیا کو کیا دے رہے ہیں، لیکن ان کے ہم وطنوں کی بڑی تعداد ان کی صلاحیتوں سے بے خبر رہی۔

شاید بہت کم لوگوں کو یہ علم ہو کہ صادقین بہت اچھے شاعر بھی تھے، ان کی رباعیات بھی اسی قدر کمال کی ہیں جس قدر کہ ان کی مصوری کے شاہکار کمال کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی رباعیات پر مشتمل دو کتابیں ‘رباعیاتِ صادقین خطّاط’ اور ‘رباعیاتِ صادقین نقّاش’ شائع ہوچکی ہیں۔

صادقین کا انتقال 10 فروری 1987ء کو کراچی میں ہوا۔ انہیں سخی حسن قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا، لیکن ان کا فن انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 403 Articles with 204640 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.