اپنی صفائی مت پیش کرو پاکستانیوں

اُفقِ گفتگو ۔(تخلص) س۔ا۔شجر۔

بیسویں صدی عیسوی نے انسانی تہذیب و تمدن کا ارتقاءدو طویل جنگوں سے گزر کر طے کیا۔ریاستوں کی خودمختاری اور ان کی جغرافیائی حدود کا احترام ‘ویزہ‘اور غلامی جیسی بدبودار غلاظت سے کنارہ کشی جیسے اصول انسان نے کروڑوں جانوں کا ضیاع کر کے حاصل کیئے۔

پھر سوشلزم نے انگڑائی لی اور اشتراکیت کی آڑ میں دنیا کا امن تیع تیغ کیا۔اس کی ناکامی کے بعد چند لحظہ انسانیت پُرسکون رہی مگرپھر ایک لومڑی نما قوم نے اہل کتاب کو صلیبی جنگوں کی ناکامی کا احساس دلا کر اُن کے جذبات کو اس قدر برانگیختہ کیا کہ وہ قیود وامتیاز کے ساتھ ایک ہی قوم پر برس ایسے برس پڑے جیسے خالی شکم شیر تازہ گوشت دیکھ کر حواس باختہ ہو گیا ہو۔اور انجام کار چہرے پر سرخ دھبے لیئے اُسے دائمی بدہضمی کے ساتھ غار کی جانب لوٹناپڑے۔

1917میں لینن گراڈ نے زار روس کے توسیع پسندانہ عزائم کو نئی جہت کے ساتھ رفتہ رفتہ جاری رکھا۔اسی اثناءمیں افغانستان میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا گیا۔اور یہ سلسلہ اس بات پر منتج ہوا کہ روس افغانستان میں داخل ہو گیا۔جسے امریکہ نے پاکستان کی مدد سے نہ صرف نکلنے پر مجبور کیا بلکہ سویت یونین کو پارہ پارہ کرنے میں بھی ڈالر کا کمال شامل تھا۔لیکن تاریخ سے سبق حاصل کئے بغیر امریکہ خود اسی راہ پر چل پڑا جس کا خواب روسیوں نے دیکھا تھا۔محسن دشمن بنا دیئے گئے۔سورج کو چاند کہاگیا۔مشرق کو مغرب گردانا گیا۔پہاڑوں کو موم سمجھا گیا۔نتیجہ سب کے سامنے۔۔۔

اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:اللہ تعالٰی کی قسم وہ مومن نہیں۔اللہ تعالٰی کی قسم وہ مومن نہیں۔اللہ تعالٰی کی قسم وہ مومن نہیں۔صحابہ اکرامؓنے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺکون؟خُدا کے محبوب ﷺنے فرمایا”جس کی ایذا رسانی سے اُس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے“(بخاری شریف)۔مگر ہم نے اک بار پھر ہمسایہ کہ حقوق بھلا کر ”حقیقی دست وبازو“کا کردار ادا کیا۔نتیجتاً40ہزار سویلین و باوردی جانوں کی قربانی اور 80بلین ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔اور اسکے ساتھ ساتھ عین وہی ہزیمت اُٹھانا پڑی جو ہمارے اتحادی کے پہلے رفقاء اُٹھا چکے تھے۔مولن کی شعلہ بیانیاں‘محترمہ ہیلری کی گفتاری قلابازیاں‘اور اوباما کی توثیق یہ سب ڈیموکریٹک پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ ہیں جس سے وہ اپنی آبشار کی مانند گرتی مقبولیت کو سہارا دیناچاہتے ہیں۔(واضح رہے کہ مولن کے ترتیب دے گئے بیانات سے ابھی تک امریکی حکومت نے فاصلہ رکھا ہوا ہے )۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شاید کسی نئے عالمی منصوبے کی آمد آمد ہے ۔جس کی بنیاد شوشوں اور ڈھکوسلوں پر رکھی جارہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان امریکی بیانات کو بھی جواباًتندوتیز کلمات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ نامکمل اے۔پی ۔سی(جس میں غنوی بھٹو‘اخترمینگل‘حاصل بزنجو‘عبدالمالک بلوچ اور طلال بگٹی شریک نہیں ہوئے)شاید کوئی قابل ذکر عملی اقدام نہیں اٹھا سکی۔apc بلانے سے پہلے ہمیں سوچنا چاہیئے تھاکہ کیا اکتوبر2008کی واضح قرارداد جس کی پہلی شق میں ہی فوری اقدامات کرتے ہو ئے قومی سلامتی پالیسی پر نظرثانی اور آزادانہ خارجہ پالیسی بنانے پر زور دیاگیاتھا۔اور اس قراردادکے نتیجے میں قائم ہونے والی سترہ رکنی کمیٹی کی وہ سفارشات جسے 442ارکان پارلیمنٹ کی نمائندگی حاصل تھی کس کھو کھاتے ڈال بیٹھے ہیں؟؟؟کیا ہم محض قراردادی قوم نہیں بن گئے؟؟۔اور رہ گئی اے ۔پی ۔سی(آئی۔پی ۔سی)تو اس سے مشابہت رکھنے والے لمحات میں 1986یا 87میں روس کے خلاف افغان جنگ کو روکنے کیلئے اے۔پی۔سی کا انعقاد کیا گیاتھا۔اس وقت کے وفاقی وزیر برائے امورخارجہ نورانی صاحب اے۔پی۔سی کے فیصلے کی روشنی میں جنگ بندی کے معاہدے کو دستخطوں کی صورت میں عملی جامہ پہنانے چل پڑے تھے مگر ذرا دیر کیئے بغیر محترم ضیاءالحقؒ صاحب نے جونیجو کے بیرونی دورے کے دوران ہی اسمبلی برخاست کردی۔جونیجو صاحب کو ماری پور کے ہوائی اڈے پراتارا گیا۔اور وہ بغیر کسی پروٹوکول مول کے گھر کی جانب چل دیئے۔یہ ہیں وہ تلخ حقائق جو ہم تلک بذریعہ قلم پہنچے۔گہرائی کیا تھی اور حکمت کیا تھی یہ تو کرسی ہی جانتی ہے۔بہرطور نوزائیدہ اے۔پی ۔سی خُدا کرے سچ مچ کوئی کام کر دکھائے۔

جہاں تک حقانی نیٹ ورک کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں حقانی صاحب نے اب خود کہہ دیا ہے کہ وہ خود کو پاکستان کے بجائے افغانستان میں زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔مزید یہ بھی کہا ہے کہ ان کا آئی ۔ایس ۔آئی سے کوئی تعلق نہیں۔اور وہ ڈکٹیشن اپنے قائد ملاعمر سے لیتے ہیں اور ان کے وفادار ہیں ۔رہ گئی یہ بات کہ ان حقائق کو امریکہ کے سامنے کس طرح منوایا جائے تو اس ضمن میں مجھے حضرت علیؓشیرخدا کا قول یاد آرہا ہے۔آپ کا فرمان ہے”اپنی صفائی پیش مت کرو اس لیئے کہ جو تمہیں پسند کرتا ہے یا تمہارا رفیق ہے اسے تمہاری صفائی پیش کرنے کی چنداں ضرورت ہی نہیں اور جو تمہیں پسند نہیں کرتا وہ تمہاری صفائی پر یقین ہی نہیں کرے گا“۔خدا کرے اب ہم سنجیدگی سے اپنے بیرونی واندرونی معاملات کے بارے میں غوروخوض کریں کیونکہ مسائل کانفرنسیں کرنے ‘اجلاس بلانے یا جرگہ کا انتظام کرنے سے نہیں بلکہ سچے اور پکے جذبے کے ساتھ مثبت عملی اقدامات اٹھانے سے حل ہوتے ہیں۔

کچھ لیڈر اب بھی ”تخت “کے سنہرے سپنے دیکھتے ہوئے پاکستان مخالف پالیسی کی حمایت کر رہے ہیں ۔انہیں باز آنا ہو گا۔وگرنہ قوم کے رد عمل سے ہمکنار ہوناپڑے گا۔رہ گئی بات امریکہ کہ زمینی فوج کے ذریعے حملہ آور ہونے کی تو وہ ایسی فاش غلطی کبھی نہیں کرے گا۔اور اگر کر بیٹھا تو پھر ۔۔۔۔اس کی اپنی قسمت۔اور زمینی حملے سے ہی ہمیں آنچ آئے گی اور یہی وہ حملہ ہے جو قوموں کی آزادی کو مسخ کرتاہے۔سرحد کی خلاف ورزی تصور ہوتا ہے ۔وگرنہ ڈرون حملے تو کچھ بھی نہیں۔کیونکہ ڈرون حملوں سے نہ تو ولی عہد مرتے ہیں ‘۔اور نہ ہی تخت پر لرزہ طاری ہوتاہے ۔عوام پر ہوتا ہے تو یہ اُس کی اپنی بزدلی ہوئی ناں۔۔باقی ماندہ ہے خود مختاری تو وہ بیچاری کب کی مرکھپ کر گمنامی کی لحد میں گہری نیند سو چُکی ہے۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188617 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.