تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے

سلویا عائشہ... قبول اسلام کی خوبصورت اطالوی رضاکار سلویا رومانو جس کوانتہا پسند تنظیم الشباب کی جانب سے افریقہ میں اغوا کر لیا گیا تھا ۔ ڈیڑھ سال قید کے بعد اٹلی حکومت نے انہیں ترکی کی انٹیلی جینس ایجنسی کی مدد سے بازیاب کروا یاہے ۔ دس مئی کو جب وہ اپنے وطن پہنچی تو ملک کے وزیر اعظم انہیں ائرپورٹ لینے گئے لیکن اس کے بعد سے وہ اطالوی میڈیا اور اطالوی انتہا پسند سیاسی پارٹیوں کے غیض و غضب کا شکار رہی ہیں ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیاہے اور اپنا نام عائشہ رکھا لیاہے ۔دو مہینے کی خاموشی کے بعد آج انہوں نے اپنا پہلا انٹرویو دیا ہے ۔ ان کا انٹرویو ڈیوڈ پکاریدونے کیا ہے ۔یاد رہے کہ ڈویڈ پکاردو میلان میں مسلمان تنظیمات کا راہنما ہے اور قرآن کااطالوی زبان میں ترجمہ کرنے والے معروف عالم حمزہ روبیرتو پیکاردو کا بیٹا ہے ۔

ڈیوڈ پکاردو کا کہنا ہے کہ جب میں میلان کے ویا پادوا میں عائشہ کو ملنے گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک مصری خاتون نے انہیں روک لیا اور اسے کہا کہ تم سلویا ہی ہو نا۔ اسی وقت میں نے سوچا کہ مجھے ان کی باتیں سننی چاہیے ۔لیکن میں نے دیکھا کہ اس مصری خاتون کی زبان سے تو کچھ الفاظ نہ نکلے البتہ محبت سے آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ ڈیوڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے عائشہ کا کہنا تھا۔ اغوا ہونے سے پہلے میں خدا پر یقین نہیں رکھتی تھی ۔ میں اپنے آپ کو ملحد کہتی تھی ۔ میں جب دنیا میں ہونے والے کسی بھی سانحے کی خبر سنتی تو اپنی ماں سے کہتی اگر کہیں خدا ہوتا تو اس طرح کی برائیاں تو نہ ہوتیں خدا کیسے انسانوں کو اتنا دکھ پہنچا سکتا ہے ۔ دوران تعلیم مجھے دنیا میں پھیلی ناانصافیوں کے خلاف کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔ مجھے چھوٹے بچوں اور خواتین پر ہونے والے ظلم کے خلاف اور سماجی نانصافیوں کے خلاف نکلنے کا شوق پیدا ہوا اور میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ان کا ذاتی تجربہ حاصل کرنے کے لئے افریقہ جانا چاہیے ۔ سلویا ایک افریقی رضا کار تنظیم افریقہ ملیلے کے ساتھ کام کر رہی تھی ۔

ڈیوڈ کے اس سوال پر کہ کیا اس سے پہلے مسلمانوں سے ملنے کا کوئی تجربہ ہوا تھا۔ عائشہ کا کہنا تھا کہ ہاں لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کے بارے میرا نکتہ نظر بہت منفی تھی ۔ جب پہلی دفعہ میں ایک عورت کو میلان میں باپردہ دیکھا تو میرے ذہن میں بھی پہلا خیال یہی آیا کہ اس بے چارہ کو زبردستی دبا کر رکھا گیا ہے۔

اس سوال پر تو پھر خدا کے قریب کیسے آئی؟عائشہ کا کہنا تھا کہ جب مجھے اغواءکیا گیا ۔ جب مجھے وہ لے کر جارہے تھے تو میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ میں تو ا س ملک میں بطور رضا کار آئی تھی ان کی مدد کرنے آئی تھی ۔ میں تو کچھ اچھا کرنے آئی تھی ۔ میں نے کون سا گناہ کیا ہے ؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ مجھے اغوا کیا گیا ہے ؟ کسی اور لڑکی کو اغوا ءکیوں نہیں کیا گیا ؟ کیا میرے اغوا کا فیصلہ کسی اورطاقت نے کیاہے ؟پہلا سوال ہی مجھے خدا کے قریب لے آیا ۔ پھر میری روح کا سفر شروع ہوا ۔ اس سفر کے دوران میں بہت زیادہ غور کرتی رہی۔میرے پاس سوالوں کے جواب نہیں تھے لیکن مجھے ان سوالوں کے جوابات کی ضرورت تھی۔ یہ سوال مجھے مزید پریشان کرتے تھے ۔ میں روتی تھی ، پریشان ہوتی تھی جب ان سوالوں کا جواب نہیں آتا تھا تو مجھے مزید غصہ آتا تھا ۔ مجھے خود ہی ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا تھا ۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئی ہے اوپر جس نے میرے لئے کوئی اچھا منصوبہ بنایا ہے ۔ اس کے بعد کا مرحلہ وہ آیا جب میں جیل میں تھی میں نے سوچنا شروع کردیا ۔ کہیں خدا مجھے کوئی سزا تو نہیں دے رہا کیونکہ میں اس کی ذات میں یقین نہیں رکھتی۔ اور میں اس سے اتنی دور ہوں ۔

دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ میرے اغوا کار مجھے صومالیہ لے گئے ۔ رات کا وقت تھا میں سو رہی تھی ۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ ڈرون حملہ سنا ، میں گہرے صدمے میں چلی گئی ، مجھے لگا میں مرنے والی ہوں ۔ اس لمحے میں نے خدا سے گڑ گڑاکر دعا کرنا شروع کردی ۔ اے خدا مجھے بچا لے ۔ مجھے اپنی فیملی سے دوبارہ ملا دے ۔ مجھے ایک موقع اور دے دے ۔ مجھے موت سے بہت ڈر لگ رہا تھا ۔ یہ پہلی دفعہ تھی کہ میں اس سے مخاطب ہوئی ۔ اغوا کار سخت نہیں تھے لیکن وہ لوگوں کو حبس بے جا میں رکھے ہوئے تھے ۔ ان کا یہ طرز عمل غیر قانونی تھا ۔ بہت مشکل ہے کہ کوئی ان کا مذہب اختیار کرلیتا ۔ میں نے قرآن پڑھنا شروع کر دیا ۔ مجھے اسی وقت اندازہ ہوگیا کہ یہ بہترین کتاب ہے اور یہ کتاب ہمیں ایک بہتر راہنمائی کی طرف لے کر جاتی ہے ۔ مجھے سمجھ آگیا کہ یہ قرآن ان الشباب ©“ والوں کی کتاب نہیں ہے ۔ یہ ایک معجزاتی کتاب ہے ۔ میرے روح کی تلاش شروع ہوگئی اور مجھے خدا کے وجود کی آگاہی ہونا شروع ہوگئی ۔مجھے محسوس ہوگیا کہ خدا مجھے رستہ دکھا رہا ہے اور مجھے موقع دے رہا ہے کہ میں اس پر عمل کروں یا نہیں

ڈیوڈ ۔ قرآن سے تمہار رشتہ کیسے استوا رہوا .

پہلی دفعہ تو اسے پڑھتے ہوئے مجھے پورے دو مہینے لگ گئے ۔ لیکن اس کے بعد میں نے اس پر غور کرنا شروع کر دیا ۔ ہر روز میں خود کو زیادہ مضبوط محسوس کرتی ۔ جب تک کہ میں نے اسلام قبول کرلیا۔ بہت سی آیات نے میرے دل پر گہری چوٹ لگائی ۔ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ خدا مجھ سے براہ راست مخاطب ہے ۔

ڈیوڈ پکاردو۔ کوئی ایسی سورت جو خاص طور پر پسند ہو ۔ مسلمان ہونے سے پہلے مجھے سورت انفال کی آیت نمبر 70بہت اچھی لگی

اے پیغمبر جو قیدی تمہارے ہاتھ میں (گرفتار) ہیں ان سے کہہ دو کہ اگر خدا تمہارے دلوں میں نیکی معلوم کرے گا تو جو (مال) تم سے چھن گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عنایت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا اور خدابخشنے والا مہربان ہے

ایک اور آیت جس نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا وہ تھی

تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے

ایک اور آیت سورہ آل عمران اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی حالب نہ ہو سکے گا اور اگر اس نے مدد چھوڑ دی تو پھر ایسا کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کر سکے اور مومنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے

مجھے ایسا محسوس ہوا کہ خدا براہ راست مجھ سے مخاطب ہے

جب میں مسلمان ہوئی تو مجھے یقین ہوگیا کہ خدا مجھ سے محبت کرتا ہے ۔ جب مجھے ڈر لگتا تھا جب مجھے اپنی فیملی یاد آتی تھی جب مجھے اپنا مستقبل بے قرار کرتا تھا تو عبادت مجھے طاقت دیتی تھی ۔ جتنا میں غمگین ہوتی تھی اتنا ہی خدا سے میں صبر اورقوت مانگتی تھی خاص طور پر جب میں دکھی ہوتی تھی پھر میں نے پیغمبر اسلام اور ان کے صحابہ کے بارے میں آگہی حاصل کرنا شروع کردی اور میری ذات میں صبر آگیا

اس سوال پر کہ آپ نے اپنا نام کیسے چنا ؟ عائشہ کا کہنا تھا کہ میںنے خواب دیکھا کہ میں ٹرام کی ٹکٹ خرید رہی ہوں اور میرے میٹرو کارڈ پر میرا نام عائشہ لکھا ہے

اس سوال پر کہ اسلام سے آپ کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے ؟ عائشہ سلویا کا کہنا تھا کہ مجھ میں صبر آگیا ہے ۔ میں اپنے والدین کی عزت زیادہ کرتی ہوں ۔ میں دوسروں کے بارے میں نرم دل گئی ہوں ۔ جب کوئی میرے ساتھ بد اخلاقی سے پیش آتا ہے تو مجھے غصہ نہیں آتا۔

اس سوال پر کہ اٹلی کے مسلمانوں کا آپ کے ساتھ کیسا رویہ ہے کہ جواب میں عائشہ کا کہنا تھا کہ میری بڑی خواہش تھی کہ میں جب اپنے محلے کی کسی حلال گوشت کی دوکان میں جاﺅں گی تو اسلام علیکم کہوں گی ۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ لوگ مجھے پہچانتے ہیں میراخیال تھا کہ میں اکیلے رمضان گزاروں گی ۔ لیکن مجھے بہت سے تحائف ، خطوط اور ویڈیوز ملی اٹلی بھر سے مجھے مسلمانوں نے میرے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا ۔ میں حیران رہ گئی ۔مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ اتنے زیادہ اطالوی مسلمان ہیں میرا خیا ل تھا کہ مجھے مصری ، مراکشی ، افریقی مسلمان ہی ملیں گے لیکن سب سے پہلے مجھے اطالوی مسلمانوں نے رابطہ کیا جو میرے لئے حیران کن تھا ۔

دہشتگرد گُرو پ الشباب کی قید سے بازیاب کرائی جانے والی اطالوی خاتون عائشہ سلویا جو اب مسلمان ہو چکی ہیں

انہوں نے اپنے پہلے انٹرویو میں بتایا ہے کہ قید کے دوران جب وہ قرآن کا مطالعہ کر رہی تھی تو جب وہ سورہ انفال کی آیت نمبر ستر پر پہنچی تو اس کی دل کی دنیا بدل گئی


يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( 70 ) انفال - الآية 70
اے پیغمبر جو قیدی تمہارے ہاتھ میں (گرفتار) ہیں ان سے کہہ دو کہ اگر خدا تمہارے دلوں میں نیکی معلوم کرے گا تو جو (مال) تم سے چھن گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عنایت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا اور خدابخشنے والا مہربان ہے

وہ کہتی ہیں کہ ایک اور آیت جس نے میرے دل پر گہرا اثر چھوڑا وہ تھی

تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے

اللہ اسے استقامت دے
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 338 Articles with 132375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.