وطن ِ عزیز میں مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی پر ماتم کرنے
والے اور اس پر بغلیں بجانے والے دونوں پریشان ہیں کہ بی جے پی کو تنہا
مسلمانوں نے تو کمزور نہیں کیا بلکہ اس میں ہندووں کا بڑا حصہ ہے اس کے
باوجود آخر مسلمانوں کی حکمت عملی اس قدر زیر بحث کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ
تو یہ ہے کہ ہندووں کے ووٹ منقسم اورمسلمان متحد تھے۔ اس سے بھی بڑا فرق یہ
تھا کہ ہندو سماج اقتدار میں آنے کے لیے اپنا حق رائے دہندگی استعمال
کررہا تھا، اس کے برعکس مسلمان ملک کو آمریت کے فتنے سے پاک کرنے کی خاطر
جدوجہد کررہے تھے۔ اس میں ان کا کوئی ذاتی یا قومی مفاد پوشیدہ نہیں تھا ۔
اپنے مفاد کی خاطر لڑنا چاہے وہ کتنا بھی معقول کیوں نہ ہو اور اس سے اوپر
اٹھ کر بے لوث انداز میں کام کرنا بہت مختلف ہوتا ہے۔ امت نے اس کا بے مثال
مظاہرہ کیا ۔ وزیر اعظم سمیت بی جے پی والے بار بار ان کو مشتعل کرکے اپنا
آلۂ کار بنانے کی کوشش کرتےرہے مگر امت ان کے بچھائے ہوئے دام میں نہیں
پھنسی ۔ اہل ایمان اپنے دین کی بابت حساس ہیں اور انہیں ایسا ہونا بھی
چاہیے ۔ اس کے باوجود انہوں نے جذباتی استحصال کی سازش کو ناکام کرکے اپنی
ساری توجہ ایک مقصد پر مرکوز رکھی اور اس میں کامیاب ہوئے۔
امت مسلمہ نے ایسا کیوں کیا ؟ اس کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ
کہ وہ خوفزدہ تھے ، یوگیندر یادو کہ مطابق ان کو ایسا لگتا تھا کہ ’وہ رگڑ
دئیے جائیں گے؟‘ اس بات کو درست مان لیا جائے تویہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ
کیوں رگڑ دئیے جائیں گے؟ کیا بی جے پی کی مخالفت کے سبب انہیں کچل دیا جائے
گا؟ یہ بات اگر درست ہے تو مسلمانوں کے بی جے پی کے آگے سپر ڈال دینا
چاہیے تھا ۔وہ نتیش کمار، چندرا بابو نائیڈو،اجیت پوار،مایاوتی اورجینت
چودھری جیسوں کی مانند زعفرانی پناہ میں کیوں نہیں گئے؟ بی جے پی نے
پسماندہ مسلمان کا جال پھینکا ہی تھا وہ اس میں کیوں نہیں پھنسے؟ مسلمانوں
کو خوفزدہ اور مایوس کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کیفیات میں مبتلا
لوگ گھر میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ عوامی اور انتظامیہ کی مخالفت کے
باوجود جوق در جوق میدان میں نہیں آتے۔
معروف سماجی کارکن چِنیکا شاہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کے پاس کوئی متبادل
نہیں تھا ؟ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ گھر میں بیٹھے رہنے کا موقع تو ہر ایک
پاس ہوتا ہے اور اگر کسی کو بہت زیادہ شوق ہو تو اسے نوٹا پر مہر لگانے سے
روکنے والا کوئی نہیں تھا ۔ اس لیے ملت کے جوش و خروش کو مجبوری کہہ کر
ہلکا کرنا درست نہیں ہے۔ اس سوال پر غور ہونا چاہیے کہ انہوں یہ دو متبادل
کیوں استعمال نہیں کیے؟ حالیہ انتخاب کے دوران اور نتائج کے بعد سبھی نے یہ
اعتراف کیا اس بار مایوسی کا شکار سنگھ کے سیوک اپنے گھروں سے نہیں نکل رہے
ہیں یا کم ازکم دوسروں کے گھر جاکر انہیں پولنگ بوتھ پر لانے کی زحمت کرنے
سے گریز کررہے تھے ۔ مسلمانوں کااس منفی رو یہ کو اختیار نہ کرنا یہ ظاہر
کرتا ہے کہ یہ معاملہ متبادل کی غیر موجودگی یا مجبوری سے مختلف ہے ۔
مسلمانوں نے ظلم و جبر کے خلاف عدل و انصاف کے قیام کی اپنی دینی ذمہ داری
کو ادا کرنے کے لیےیہ موقع استعمال کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس بار
مسلمانوں کی نمائندگی کم ہوئی ہے مگر مسلمانوں نے اس کی پروا نہیں کی ۔
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ملک کا مسلمان بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں
دیتا ؟ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اگر بی جے پی مسلمانوں کی مخالفت بند
کرکے ان کے کچھ مطالبات تسلیم کرلے تو اس کی حمایت پر غور کرنا چاہیے۔
مسلمان اگر محض کوئی مطالباتی گروہ ہو تو اس کا ایسا سوچنا جائز ہے مگر ایک
نظریاتی امت ایسا کیونکر سوچ سکتی ہے جس کے مقصد وجود کی بابت قرآن حکیم
میں فرمایا گیا :’’ اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت
و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے
روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ اب اگر کوئی جماعت ہم سے اچھا سلوک
کرے اور دوسروں پر مظالم روا رکھے تو کیا ہم اس کی حمایت کر سکتے ہیں؟ بی
جے پی نے اسی طرح کامیابی حاصل کی کہ پہلے سارے پسماندہ طبقات کے ساتھ برا
سلوک کیا ۔ اس کے بعد ان میں سے غیر یادو لوگوں سے اچھا سلوک کرکے اپنا
بنالیا ۔ اسی طرح پہلے سارے دلتوں پر ظلم کیا پھر اس میں سے غیر جاٹو کے
ساتھ تعلقات استوار کرکے ان کو حامی بنالیا لیکن اس کے بنیادی نظریات میں
کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔ ایسے میں اگر وہ اپنے نظریات کی تبدیلی کے
بغیر مسلمانوں کے کام کرنے لگے تب بھی اس کی حمایت کرنا ان لوگوں کے خلاف
ظلم میں شامل ہونے جیسا ہوگا جو آئے دن اس کے مظالم کا شکار ہوتے رہتے ہیں
۔
اس بات کو ازبکستان کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ اسرائیل کا اس کے ساتھ بہت
اچھا سلوک ہے تو کیا اس کے جواب میں اسکا صہیونیت کی حمایت کردینا
فلسطینیوں کے ساتھ غداری کے مترادف نہیں ہے۔ اسی طرح ہٹلر جس وقت یہودیوں
پر مظالم ڈھا رہا تھا اس وقت اس کا محض اس لیے ساتھ دینا کہ وہ ہم سے اچھا
برتاو کرتا ہو کیا درست موقف ہوتا ۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران معروف
دانشور اور صحافی تولین سنگھ نے مودی بھگت ہونے کے باوجود یہ لکھا کہ چونکہ
بی جے پی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کرتی ہے اور اس سے ان کی دلآزاری
ہوتی ہے اس لیے مسلمان اسے کیسے ووٹ دے سکتے ہیں ۔ تولین سنگھ اتنی معمر
صحافیہ ہیں انہیں خود اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ اگر کوئی جماعت کسی
ایک طبقہ کے خلاف نفرت پھیلا کر اپنی سیاست چمکاتی ہو تو کیا خود ان کا اس
کو ووٹ دینا درست ہے ؟ لیکن بی جے پی چونکہ ان کے سماجی مفادات کی حفاظت
کرتی ہے اس لیے وہ اس پر تنقید کرنے کے باوجود حمایت کرتی ہیں ۔ یہی خود
غرضی بی جے پی کے لیے کامیابی کی شاہِ کلید ہے۔
مسلمانوں کی سرگرمی کے اثرات اس طرح ظاہر ہوئے کہ مہاراشٹر میں این سی پی
کے رکن اسمبلی جیتندر اوہاڑ نے نہایت پرزور انداز میں اسمبلی کے اند ان کی
وکالت کی۔ انہوں نے پہلے تو بی جے پی والوں کی اس شکایت کا جواب دیا کہ ان
کے خلاف ووٹ جہاد کیا گیا ۔ انہوں نے بی جے پی والوں سے سوال کیا ’ خود
سوچیے کہ آخر مسلمان آپ کو ووٹ کیوں دے‘؟ دن رات کسی کو برا بھلا کہنے کے
بعد ان سے حمایت کی توقع کرنا سراسر حماقت ہے۔ انہوں نے مثال دے کر بتایا
کہ کئی حلقۂ انتخاب میں صوبائی اور مرکزی وزیر ہار گئے حالانکہ وہاں
مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس بابت انہوں نے ایودھیا کا بھی حوالہ دیا ۔
ان کے مطابق مذہب کی بنیاد پر دنگا فساد کرنا باشعور ہندووں کو بھی گوارہ
نہیں ہے اس لیے بی جے پی انتخاب ہار گئی۔ انہوں نے اعتراض کیا کہ گورنر کے
خطاب میں ریزرویشن اور بجٹ میں مسلمانوں کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے ۔
اس طرح کسی ایک سماج کے ساتھ ناانصافی نہ کی جائے۔
جیتندر اوہاڑ تو خیر مسلمانوں کے ووٹ سے کامیاب ہوتے ہیں اور بہت جلد
اسمبلی انتخاب ہونے والا ہے اس لیے ان کے شور شرابے کو سیاسی عینک سے دیکھا
جاسکتا ہے مگر بی جے پی سرکار میں شامل بچو کڑو کا کیا کیا جائے؟ بچو کڑو
ایک آزاد رکن اسمبلی ہیں ۔ انہوں نے بھی نہایت واضح انداز میں خود اپنی ہی
حکومت کے سامنے مسلمانوں کے مسائل پیش کیے۔وہ فی الحال بی جے پی سرکار کے
ساتھ ہیں اس کے باوجودانہوں نے بھی کہا کہ گورنر کے خطاب میں مسلم لفظ ہی
نہیں آیا۔ انہوں نےپوچھا کہ مسلمان کہنے میں کیا پریشانی ہے؟ملک کی مختلف
ریاستوں میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن ہے تو مہاراشٹر میں کیوں نہیں؟ اس
لیے مسلمانوں کے تئیں نفرت کو اپنے دل سے نکال کر ان کی ترقی کے لیے کوشاں
ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ منطق پیش کی کہ فرد کی ترقی کے بغیر ملک خوشحال
نہیں ہوسکتا۔ سماج غریب ہو تو گاوں اور گاوں غربت کا شکار ہوتو ملک بدحال
ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کی تعلیمی ، معاشی اور صنعتی کی جانب توجہ دینے کے لیے
ریزرویشن دنیا لازمی ہے ۔ بچو کڑو نے کہا جن صوبوں میں مثلاً راجستھان،
اترپردیش ، مہاراشٹر اور جنوب میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے بی جے پی ٹک
نہیں سکتی اور وہ ہندوتوا کے سبب خلاف چلے گئے۔اس لیے انہیں نظر انداز نہ
کیا جائے۔ اس طرح کی آوازیں میڈیا سے نکل کر ایوان پارلیمان تک پہنچیں اور
اب ملک کی کئی ریاستوں مثلاً یوپی، بہار وغیرہ کے اسمبلی میں بھی اٹھنے لگی
ہیں۔بی جے پی کی یلغار کے خلاف مسلم نمائندوں کی غیر موجودگی میں غیر
مسلمین کی وکالت کو دیکھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مِل گئے کعبے کو صنَم خانے سے
|