راہل نے بی جے پی کو’ گھر میں گھس کر مارا‘

راہل گاندھی نےحزب اختلاف کے قائد کی حیثیت سے اپنے پہلے خطاب میں بی جے پی کو ’گھر میں گھس کر مارا‘۔راہل گاندھی اگر منی پور، مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل پر تقریر کرتے تو لوگ کہتے یہ توبی جے پی کا گھر ہی نہیں ہےکیونکہ وزیر اعظم اس میں قدم رنجا نہیں فرماتے مگر وہ تو ہندوتوا کے دربارمیں گھس گئے ۔ بی جے پی یہ کہہ کر ورغلاتی ہے کہ فلاں فلاں ہندوتوا کےدشمنوں کی وجہ سے ہندو دھرم خطرے میں ہے۔ ہم ان سے سناتن دھرم کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اس خدمت کے عوض ہمیں ووٹ دے کر اقتدار میں رکھا جائے ۔ راہل گاندھی نے آگے بڑھ کر کہہ دیا چونکہ ہندو مذہب تشدد کی تعلیم نہیں دیتا اس لیے یہ اپنے آپ کو ہندو کہہ کر دن رات نفرت نفرت، تشد د تشدد پھیلانے والے سرے سے ہندو ہی نہیں ہیں ۔ وزیر اعظم نے دیکھا کہ اس نے ہندوتوا پر ہی ہاتھ ماردیا تو سوچا کہ اگر یہی چھن جائے تو میں کس بنیاد پر حکومت کروں گا َ؟ بس پھر کیا اس نازک رگ پر ہاتھ رکھتے ہی وہ بلبلا اٹھے اور راہل کے جال میں پھنس گئے۔

وزیر اعظم بھول گئے کہ انہیں درمیان بول کر اپنی تضحیک نہیں کرانی چاہیے بلکہ آخر میں جواب دینے کے موقع کا انتظار کرنا چاہیے ۔ ان سے یہ نہیں ہو سکا اس لیے وہ بیچ میں کھڑے ہوکرکہہ دیا کہ ہندو سماج کو تشدد کا حامی کہنا اس کی توہین ہے ۔ مودی کے جواب میں راہل نے کہا کہ وہ پورے ہندو سماج کے بارے میں نہیں کہہ رہے ہیں ۔ اس کے آگے بڑھ کر راہل گاندھی نے یہ بھی کہہ دیا کہ مودی ، بی جے پی اور آر ایس ایس ہندووں کے نمائندے نہیں ہیں۔ راہل نے ایودھیا میں بی جے پی میں رام بھگتوں کی ناراضی اور وارانسی سے کسی طرح مودی کے بچ نکلنے کا ذکر کیا تو پانی سر سے اونچا ہوگیا ۔ کاش کے وزیر اعظم صبر کر جاتے تو انہیں اس طرح دھوبی پچھاڑ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ اس لمحہ وزیر اعظم نے سوچا ہوگا کہ کاش وہ انتخاب ہار جاتے تو انہیں یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔ وزیر اعظم ایک بار چِت ہونے کے بعد پھر بولے ان کے علاوہ تین بار امیت شاہ اور راجناتھ سنگھ نیز ایک ایک مرتبہ شیوراج چوہان ،کرن رجیجو اور بھوپندر یادو پھٹ پڑے۔

راہل کے خطاب سے حزب اقتدار کو مرچی لگی تو انہوں نے برجستہ کہا کہ یہ شور غل تیر کے سینے میں پیوست ہونے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ راہل نے ہندوتوا پر اپنا بیان جاری رکھا تو وزیر داخلہ نے اٹھ کر کہا کہ انہوں نے فخر سے خود کو ہندو کہنے والوں کی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے اس لیے معافی مانگیں ۔ شاہ نے 40 سال پرانے 1984کے سکھ فساد کو تو یاد کیا مگر 22سال پرانے گجرات فساد تین سال پرانے دہلی کے فسادات اور اسی برس ہونے والے منی پور فساد کو بھول گئے ۔ ر اہل گاندھی نےکہا کہ بی جے پی منی پور کو ہندوستان کا حصہ ہی نہیں سمجھتی اس لیے وہاں نہ وزیر اعظم اورنہ وزیر داخلہ جاتے ہیں۔ جھوٹ کے الزام پرجب راہل نے ڈٹ کر کہا یہ سچ ہے تو وزیر داخلہ کی ساری دھونس ہوا ہوگئی کیونکہ طمانچہ زناٹے دار تھا ۔ اگنی ویر کو راہل گاندھی نے’یوز اینڈ تھرو‘ اسکیم بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ملازمت چار سال کے بعدختم ہوجاتی ہے ۔ جوان کو صرف ۶؍ماہ کی تربیت دی جاتی ہے جس کی مدت چین میں ۵؍سال ہے۔ اس کو کوئی نہ تو پنشن ملتی اورنہ مرنے کے بعد شہید کا درجہ اور معاوضہ بھی نہیں ملتا۔

اس تبصرے پر وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا پیمانۂ صبر چھلک گیا ۔ انہوں نے راہل گاندھی پر ایوان کو گمراہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اگنی ویر جیسا نظام امریکہ و دیگر ممالک میں رائج اسے بہت سوچ سمجھ کر نافذ کیا گیا ہے اور دیگر مقامات پر پر اعترض نہیں ہوتا تو یہاں کیوں ہورہا ہےَ ؟ راجناتھ نے یہ بھی بتایا کہ اگنی ویر کے دوران جنگ فوت ہوجانے پر اسے ایک کروڈ معاوضہ دیا جاتا ہے۔ راہل کے بیان کو حذف کرنے کا مطالبہ کرنے والےراجناتھ نے موت کے بعد رقم دینے کی بات تو کی مگر زندگی میں اس کے استحصال پر کچھ نہیں کہہ سکے اور نہ پنشن پر خاموش رہے ۔یہ وزارت داخلہ کا معاملہ نہیں تھا اس کے باوجود امیت شاہ اپنی بے عزتی کرانے کے لیے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا وزیر دفاع نے جب یہ بتا دیا کہ مرنے والے اگنی ویر کو ایک کروڈ معاوضہ دیا جاتا ہے تو حزب اختلاف کے رہنما کو اپنے الفاظ واپس لے کر معافی مانگنی چاہیے ۔ راہل گاندھی نے ایک فوت ہونے والے اگنی ویر کے گھر جانے کا واقعہ سنا کر دوسری بار وزیر داخلہ کو پٹخنی دے دی۔ انہوں نے کہا کہ اس بابت وزیر دفاع اور ان کے بیانات میں اختلاف ہے لیکن حقیقت اگنی ویر کا خاندان جانتا ہے۔ یہ اسکیم فوجی جوانوں کے درمیان تفریق و امتیاز کی علامت ہے اس لیے ان کی اسے منسوخ کردے گی ۔

ملک کی کثیر آبادی اگنی ویر اسکیم کے خلاف ہے۔ راجناتھ سنگھ اگر درمیان میں دخل اندازی نہ کرتے اور امیت شاہ ان کی تائید میں نہیں آتے تو راہل گاندھی کو یہ ثابت کرنے کا موقع نہیں ملتا کہ فوج کا دوست اور دشمن کون ہے؟ یہ مسئلہ چھیڑکر راہل نے اگنی ویر وں کے اہل خانہ کو بی جے پی سے دور کرکے اپنا ہمنوا بنالیا ۔ راجناتھ اور امیت شاہ کے ردعمل نے راہل گاندھی کی مدد کی ۔ اڈانی اور امبانی کی خاطر کسان قانون کو بنانے کا الزام لگانے کے بعد سرمایہ داروں کے لاکھوں کروڈ قرض کی معافی اور کسانوں کو خودکشی کاذکر کیا ۔ انہوں نے کسانوں سے گفت و شنید نہ کرنے اور انہیں گلے نہیں لگانے کی شکایت کرتے ہوئے ایم ایس پی نہیں دینے کی بات کی تو نئے وزیر زراعت شیوراج سنگھ چوہان کا خون جوش مارگیا ۔ وہ بولےایوان میں جھوٹ بول کر ملک کو گمراہ کیا جارہا ہے ، ایم ایس پی دی جارہی ہے ۔ حالانکہ چوہان خود جھوٹ بول رہے تھے۔

ایم ایس پی نہ سارے ملک میں دی جاتی ہے اور نہ ساری پیداوار پر ادا کی جاتی ہے۔ چند فصلوں پر بھی رنگناتھ کمیشن کی سفارش کے مطابق نہیں دی جاتی ۔ ایسا ہوتا تو کسان اپنی پیداوار ضائع کرکے ویڈیو نہ بناتے ۔ راہل نے پوچھا کہ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ کیوں کم ہوگیا تو اس کا کوئی جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔اپنے خطاب میں راہل گاندھی نے جب کہا کہ یہ حکومت کسانوں کو ملک کا دشمن سمجھتی ہے تو پھر ایک بار وزیر داخلہ کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا ۔ انہوں نے کھڑے ہوکر بڑی لاچاری سے کہا کہ صدرِ ایوان یہ تہمت بازی ہے ۔ آپ بیجا ڈھیل دے کر اس کی ہمت افزائی کررہے ہیں ۔ برائے کرم ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس دلچسپ منظر میں ایک خونخوار شیر اپنی ہی بکری سے تحفظ کی بھیک مانگ رہا تھا ۔ وزیر داخلہ کی اس گہار نے ان کے سارے رعب اور دبدبے کی مٹی پلید کردی ۔ ایک مبصر نے ٹیلی ویژن مباحثے میں کہا کہ ایسا لگ رہا تھا گویا گلی کا غنڈہ کسی لاٹھی بردار حوالدار کے تحفظ کی بھیک مانگ رہا ہے۔

اس موقع پر ایوان کے اسپیکر کو ایسا لگا ہوگا کہ وہ سرکار کا نہیں بلکہ حزب اختلاف کے حامی ہیں۔ راہل گاندھی کی یلغار سے اسپیکر اوم برلا بھی محفوظ نہیں رہے ۔ راہل نے جب کہا کہ وہ بھید بھاو کرتے ہیں۔ وزیر اعظم سے جھک کرملتے اور ان سے نہیں تو اسپیکر نے موقع غنیمت جان کر جواب دیا کہ ہندوستانی تہذیب میں بڑے سے جھک کر ملتے ہیں اور چھوٹاپیر چھوتا ہے۔ اوم برلا کو نہیں پتہ تھا اس سوال کا بھی منہ توڑ جواب راہل کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا ایوان میں تو سب سے بڑے آپ ہیں یعنی وزیر اعظم نریندر مودی کو ان سے جھک کر ملنا چاہیے۔ اس جواب کو سن کر اوم برلا کو خیال آیا ہوگا کہ اب جھولا اٹھا کر چل دینا ہی بہتر ہے۔ یہ ایک سچائی کہ پہلے اسپیکر ماولنکر کو جب پنڈت نہرو نے اپنے دفتر میں بلوایا تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ایوان کے حفظ مراتب کے مطابق وہ نہیں آسکتے۔

راہل نے شیو کی تصویر نکالی تو برلا منع کرکے پھنس گئے ۔ اس پر کیمرا ہٹ گیا تو راہل نے کہا یہ جادو دیکھو کیمرا ہٹ گیا ۔ اس کے بعد راہل کو ساری تصاویر دکھانے کا موقع مل گیا اور انہوں نے دیگر مذاہب کے ساتھ بلاخوف ہونے کی قرآنی تعلیم بھی پیش کی۔ راہل نے دراصل وزیر اعظم بنے بغیر عوام کے دل سے بی جے پی کا خوف نکال دیا اور خود اسے ڈرا دیا ۔ دس سالوں تک ایوانِ پارلیمان میں حزب اختلاف کا رہنما نہیں تھا ۔ پچھلی بار کانگریس چار ارکان سے چوک گئی تو بی جے پی نے ڈر کے مارے عہدہ بحال کرنے کی ہمت نہیں کی ۔ اب پتہ چلا کہ راہل گاندھی کو سپریم کورٹ میں جانے سے قبل ایوان سے نکال باہرکرکے بے گھر کیوں کیا گیا؟ راہل گاندھی نے اپنے خطاب سے ثابت کردیا بی جے پی کے اندر پایا جانے والا کا خوف درست تھا۔مودی نے حقارت سے کہا تھا کون راہل؟ اب انہیں پتہ چل گیا کہ کون ہےراہل ؟ وزیر اعظم نے خود اپنے بارے میں کہا تھا ایک اکیلا سب پر بھاری لیکن اب دنیا کہہ رہی ہے کہ تنہا راہل پوری بی جے پی پر حاوی ہے ۔ حزب اختلاف کے رہنما کو وزیر اعظم کا سایہ (شیڈوپی ایم)کہا جاتا ہے مگر اب تو سایہ فرد سے بڑا ہوگیا اورمودی پر شہر یار کا یہ شعر صادق آگیا کہ؎
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450912 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.