اتر پردیش کے اندر دس اسمبلی حلقوں میں بہت جلد ضمنی
انتخابات ہونے والے ہیں ۔ یوگی کو دو خطرات لاحق ہیں ۔ ایک تو عوام
پارلیمانی انتخابات کی روش کو جاری رکھتے ہوئے انہیں دھول چٹائیں گے اور
دوسرے امیت شاہ پیٹھ میں چھرا گھونپ کر انہیں ہرائیں گے اس لیے مرتا کیا نہ
کرتا کی مجبوری کے پیش نظر انہوں امسال 18 جولائی (2024) کو مظفر نگر پولس
کے ذریعہ ایک احمقانہ فرمان کے ذریعہ نیا تنازعہ کھڑا کر دیا۔ اس طرح کی
حرکت بغیر شور شرابے کے پچھلے سال بھی کی گئی تھی مگر اس بار اس کا سیاسی
فائدہ اٹھانے کی خاطر حکمنامہ کا احاطہ بڑھا کر اسے خوردنی اشیاء کے
اسٹالس، پھلوں کے ٹھیلوں کو بھی ڈھابوں کے ساتھ اس کے دائرے میں لے لیا
گیا۔ یوگی تو اس کے ذریعہ اپنی ڈوبتی نیاّ کو کنارے لگانا چاہتے تھے مگر
حکومت کی اس ہدایت نے اترپردیش کے اندر عنقریب منعقد ہونے والے ضمنی انتخاب
سے قبل حزب اختلاف کو متحد کردیا ۔انہوں نے اسے متعصب اقدام قرار دے
کرمتنازعہ حکم نامہ کو مسترد کرنے کے لیے عدالتی مداخلت کا مطالبہ کردیا۔
سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے اس پرکہا کہ ایسے احکام سے پرامن
ماحول بگڑے گا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اگر گڈو، منا، چھوٹو یافتے نام آویزاں
کئے جائیں تو کوئی کیا سمجھ سکتا ہے؟ سماج وادی پارٹی سربراہ نے اسے ایک
مخصوص برادری یعنی مسلمانوں کے خلاف سازش کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے عدالت سے
از خود اِس حکم نامہ کا نوٹس لینے کی درخواست کی ۔انہوں نے ایکس پر لکھا کہ
معزز عدالت کو چاہئے کہ وہ خود سے اس انتظامی حکم کے پس پردہ حکومت کے
ارادوں کی بابت تحقیقات کرواکے مناسب تادیبی کارروائی کرے۔ اکھلیش کے مطابق
ہم آہنگی کے پرامن ماحول کو تباہ کرنے والے احکام سماجی جرائم ہیں لیکن
مجرمین کو اس پروا کب ہے؟ یہی تو ان کااوڑھنا اور بچھونا ہے۔
کانوڈ یاترا کے اِس امتیازی حکمانہ کے خلاف ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین
اویسی نے برہمی ظاہر کرتے ہوئے اسے جنوبی افریقہ میں سرکاری تعصب اور ہٹلر
کی جرمنی میں ”یہودی بائیکاٹ“ کے مماثل قرار دیا۔موصوف نے مظفر نگر پولیس
کے اقدام کی بابت کہا کہ یہ آئین کی دفع 17 کی خلاف ورزی ہے، یوپی حکومت
تعصب کو فروغ دے رہی ہے۔ اویسی نے کہا، "میں چیلنج کرتا ہوں کہ اگر یوگی
آدتیہ ناتھ میں ہمت ہے تو وہ تحریری حکم جاری کرےتاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے
کہ مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا امتیاز برتا جا رہا ہے۔ اپنے آپ کو رستمِ
زماں سمجھنے والے یوگی بابا میں اس کی جرأت نہیں ہے۔ کورونا کے بعد ایک
مرتبہ کاونڈ یاترا کے معاملے میں یوگی کو پھٹکار پڑ چکی ہے۔ دو سال قبل جب
لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی تھی تو یوگی نے کہہ دیا کہ کاونڈیوں کو روکنا
ناممکن ہے۔ یہ معاملہ جب عدالتِ عظمیٰ میں پہنچا تو یوگی جی ڈر گئے کیونکہ
ان کی اپنی پارٹی کی اتراکھنڈ سرکار نے ہاتھ اٹھا دئیے۔ اب کیا تھا یوگی
سرکار نے سپریم کورٹ میں ناک رگڑ کررجوع کرلیا ۔ اب بھی یوگی کو احساس ہے
کہ یہ معاملہ عدالت میں پہنچے گا تو ایسی پھٹکار پڑے گی کہ دماغ ٹھکانے
آجائے گا اسی لیے وہ پولیس انتظامیہ کی آڑ میں تیر چلا رہے ہیں۔
بیرسٹر اسدالدین اویسی نے قانونی نقطے کے علاوہ ایک معاشی پہلو کی بھی
نشاندہی کی ہے۔ ان کے مطابق اس حکم کے بعد مسلم ملازمین کو مظفر نگر کے
ڈھابوں سے نکال دیا گیا ہے۔اس دعویٰ کی تصدیق دی کوئنٹ کی تفصیلی رپورٹ بھی
کرتی ہے۔ اس میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ پچھلے سال کی پابندی کے سبب کتنے
لوگوں کا روزگار چھن گیا اور کتنوں کے کاروبار تباہ ہوگئے۔ ریڈ مائک نے ایک
ہندو دھابے کے مالک سے بات چیت کی تو اس نے اعتراف کیا کہ اس نے دوہفتوں کے
لیے اپنے مسلمان عملہ کو چھٹی دے دی ۔ وہ اپنے مسلمان منیجر کے حق میں رطب
السان تھا۔ اس نے کہا کہ وہ منیجرپچھلے بارہ سال سے ہوٹل چلا رہا تھا اور
کاونڈیوں کو کبھی کبھار مفت بھی کھانا کھلا دیتا تھا۔ وہ سادھو سنت اور
سیاستداں جو سرکاری خرچ پر کانوڈیوں کو بیوقوف بنارہے ہں انہوں نے کبھی
اپنی جیب سے ان پر ایک روپیہ خرچ نہیں کیا ہوگا۔ ہندوتوانوازوں کی منافقت
کا یہ عالم ہے کہ اس راستے پر میک ڈونلڈز، کے ای ایف سی اور پیزا ہٹ جیسے
بڑے برانڈز موجودہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ رہا ہے۔بیر سٹر اویسی کی
بات صد فیصد درست ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے اس حکم کو دیکھ کر ایسا
لگتا ہے کہ ہٹلر کی روح ان میں سما گئی ہے۔ جس طرح ہٹلر یہودیوں کا بائیکاٹ
کرتا تھا، اتر پردیش کی حکومت بھی وہی کر رہی ہے۔
کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے ایسے فرمان پر مظفرنگر پولیس کو نشانۂ تنقید
بنایا اور اسے سرکاری زیرسرپرستی انتہا پسندی قرار دیا۔ پون کھیڑا نے ایکس
پر لکھا ”نہ صرف سیاسی جماعتوں کو بلکہ صحیح سوچ رکھنے والے تمام افراد اور
میڈیا کو اِس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔ ہم بی جے پی کو یہ اجازت نہیں
دے سکتے کہ وہ ملک کو تاریک دور میں ڈھکیل دے۔ اس معاملے میں بی جے پی کی
ہمدرد سمجھی جانے والی بی ایس پی سپریمو مایاوتی بھی خاموش نہیں رہ سکیں ۔
انہوں نے کہا، "مغربی یوپی اور مظفر نگر ضلع کے کانوڑ یاترا کے راستے پر
آنے والے تمام ہوٹلوں، ڈھابوں، اسٹالوں وغیرہ کے مالکان کا پورا نام نمایاں
طور پر ظاہر کرنے کا حکومت کا نیا حکم ایک غلط روایت ہے جو ہم آہنگی کو
خراب کرتا ہے۔ عوامی مفاد میں حکومت اسے فوری طور پر واپس لے‘‘۔
حزب اختلاف کے خیمہ سے نکل کر یہ مصیبت خود این ڈی اے کے پالے میں بھی
آگئی۔ ایل جے پی سے لے کر جے ڈی یو تک سبھی نے کھلے عام اس حکمنامہ کے
خلاف اعتراض کیا ۔ مغربی اترپردیش کے طاقتور حلیف جس کے سہارے کسی قدر عزت
بچی تھی نے بھی اس کی مخالفت کردی ۔ راشٹریہ لوک دل کے سربراہ اور مرکزی
وزیر جینت چودھری نے کہا کہ ہر کوئی کانوڑ یاتریوں کی خدمت کرتا ہے اور
کوئی کسی کو نہیں پہچانتا۔ان کے مطابق کانوڑ یاتری ذات اور مذہب کی شناخت
کر کے خدمت نہیں لیتے اس لیے اسے مذہب سے نہ جوڑا جائے۔ بی جے پی نے سمجھ
بوجھ کے بعد فیصلہ نہیں کیاہے اس لیے حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ
فیصلہ واپس لے۔انہوں نے سوال کیا کہ اب میں اپنا نام کہاں لکھوں؟ کیا آپ
اپنے کرتے پر بھی اپنا نام لکھیں گے؟ کیا آپ میرا نام دیکھ کر مجھ سے ہاتھ
ملائیں گے؟
اپوزیشن رہنما وں کے جارحانہ بیانات کو سن کر کمبھ کرن کی نیند سوئےہوے
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور سابق مرکزی وزیر مختار عباس نقوی بھی جاگ
گئے۔ سوشل میڈیا پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئےانہوں نے لکھا کہ یہ
آرڈر اچھوت کی بیماری کو فروغ دے سکتا ہے۔ عقیدے کا احترام ضرور ہونا
چاہیے لیکن چھوت چھات کو بڑھاوا نہیں دیا جانا چاہیے۔ جس پارٹی نے خودنقوی
کو سیاسی اچھوت بنادیا اس کو بھلا کسی اور کے ساتھ تفریق و امتیاز سے گریز
کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ ان کی اپنی اہلیہ ایک بڑے سنگھی رہنما کی بیٹی ہے۔
کانوڑ یاترا کے حوالے سے اتر پردیش پولیس کے اس ظالمانہ حکمنامہ کے بعد
تنازعہ بڑھ گیا اور حزب اختلاف کی پارٹیوں کے حملے سے حکمراں پارٹی ڈر گئی
تو مظفر نگر کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) سے یہ مضحکہ خیز
اعلان کروا دیا کہ دوکان مالکین اِس پر رضاکارانہ طور پر عمل کررہے ہیں۔ یہ
سراسر جھوٹ ہے جبکہ سچائی تو یہ ہے کہ اس احمقانہ فرمان سے ہندو مسلمان سب
پریشان ہیں ۔ عوام کی پریشانی سے بے نیاز بی جے پی ایودھیا اور ہری دوار
میں منہ کی کھاچکی ہے ۔ یہی مزہ ان کو مظفر نگر اور اس کے اطراف میں ملے
گا۔
بی جے پی والے اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ کانوڈیا یاترا کی مدد سے
71نشستیں جیت لیں گے مگر ۳۳ پر اکتفاء کرنا پڑا پھر بھی نہیں سدھرے کیونکہ
انہیں نفرت کی سیاست کے سوا کچھ بھی نہیں آتا۔ اب مظفر نگر پولس نے کہا ہے
کہ کانوڑ راستوں پر ہوٹلوں، ڈھابوں اور کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے
والے دکانداروں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے مالکان
اور ملازمین کے نام ظاہر کریں یعنی یہ لازم نہیں ہے ۔ پولیس اب یہ صفائی
پیش کررہی ہے کہ اس حکم کا مقصد کسی قسم کا مذہبی امتیاز پیدا کرنا نہیں
بلکہ امن و امان کی صورتحال کو بچانا ہے۔اس طرح سماج وادی پارٹی کے سربراہ
اکھلیش یادو کو کریڈٹ لینے کا نادر موقع مل گیا۔ انہوں نے ایکس پر لکھاکہ
’’مظفر نگر پولیس نے عوامی بھائی چارے اور اپوزیشن کے دباؤ میں آکر ہوٹلوں،
پھل فروشوں اور گلیوں میں دکانداروں کے نام لکھنے اور ظاہر کرنے کے انتظامی
حکم کو رضاکارانہ بنا کر بالآخر اپنی پیٹھ تھپتھپا لی ہے۔اتنے سے ہی امن و
اماں پسند کرنے والے عوام ماننے والے نہیں ہیں ایسے احکامات کو یکسر مسترد
کیا جائے‘‘۔
اکھلیش یادو نے عدالت سے مثبت مداخلت کرکے حکومت کے ذریعہ اس بات کو یقینی
بنانے پر زور دیا کہ سرکار اور انتظامیہ آئندہ ایسا کوئی تفرقہ انگیز کام
نہیں کرے گی۔ انہوں نے انتظامیہ کے قدم پیچھے ہٹانے کو محبت اور ہم آہنگی
سے پیدا ہونے والے اتحاد کی جیت قرار دیا۔ اترپردیش کے دس حلقوں میں جو
ضمنی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں اس کے حوالے سے جہاں کانگریس اور
سماجوادی پارٹی کے درمیان مفاہمت ہوچکی ہے وہیں بی جے پی والے آپس میں
کتوں کی مانند لڑ رہے ہیں ۔ اس مہابھارت کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر یہ
تنازع کھڑا کیا گیا تاکہ کچھ وقت کے سہی ان کی آپسی سر پھٹول سے دھیان ہٹے
لیکن اس طرح کے تماشوں سے ہیڈلائن تو مینیج ہوجاتی ہے، انتخاب نہیں جیتے
جاتے۔ یوگی اپنی ساکھ بچانے کی خاطر این ڈی اے میں تفرقہ ڈال کر مرکزکی
مودی سرکار کو کمزور کررہے ہیں مگر اب انڈیا محاذ کی زبان پر جیت کا خون لگ
چکا ہے اور اب یہ سبزی خور ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ ان کا خاتمہ قریب
ہے۔
|