کانوڑ یاترا کی آڑ میں سماج کے اندر نفرت پھیلاکر اپنی
مقبولیت بڑھانے اور مودی سرکار کی بیساکھیوں کو کھوکھلا کرنا یوگی جی کو
مہنگا پڑا۔ عدالتِ عظمیٰ نےیوگی کے حکم بلڈوزر چلا کر اسے زندہ دفن کردیا ۔
مرکزی حکومت کے لیے یہ فیصلہ چونکہ نقصان دہ تھا اس لیے سپریم کورٹ ریاستی
سرکاروں کو نوٹس دے کر ایسی تاریخ دینے کے بجائے کانوڑ یاترا کے راستے
پردھابوں ، دکانوں اور ٹھیلوں کو اپنا نام لکھنے والے یوپی اور اتراکھنڈ
سرکار کے حکمنامہ پر عبوری روک لگا دی کیونکہ اس نے این ڈی اے میں شامل
ساری ہی جماعتوں کو ناراض کردیا تھا۔ اس لیے عدالت کو سگنل مل گیا کہ مسل
ڈالو اور پھر کیا تھا اگلی سماعت تک روک لگ گئی۔ سپریم کورٹ نے ات مداخلت
کرتے ہوئے عبوری روک لگا دی اور اگلی سماعت 26 جولائی تک دوکانوں کے مالکان
اور ملازمین پر نام لکھوانے کے لیے دباؤ نہ ڈالنے کے احکامات جاری کردئیے ۔جماعتِ
اسلامی ہند کی ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کو سپریم کورٹ میں جو
کامیابی ملی اس کے لیے وہ مبارکباد کی مستحق ہے۔
یوگی سرکار کویہ زناٹے دار طمانچہ اس لیے لگا کیونکہ اس مظفر نگر پولیس کے
ذریعہ نافذ کردہ ظالمانہ احکامات کو مخالفت کے بعد واپس لینے کے بجائے پورے
صوبے پر نافذ کردیا ۔ اس کے بعد یہ وبا اتراکھنڈ سے ہوتی ہوئی اجین تک پہنچ
گئی اور احکامات کا دائرۂ کار ہوٹل ، ڈھابوں سے پھیل کر اشیائے خوردنی اور
پھلوں بلکہ پنکچر تک پہنچ گیا ۔ کانوڈ چونکہ پیدل چلتے ہیں اس لیے ان کےلیے
ٹائر کاپنکچر ہونا بے معنی ہے۔ ویسے اگر کسی کے پہیہ میں سوراخ ہوجائے تو
وہ اولین دوکان پر رک کر اسے بنواتا ہے۔ اسےدوکان کے مالک کا نام دیکھ کر
اگلی دوکان پر جانے کی توفیق نہیں ہوتی لیکن جس کے دماغ میں سوراخ ہوجائے
اس کی عقل ہوا ہوجاتی ہے۔ اس حکمنامہ کے پیچھے دو دلائل دئیے گئے ۔ پہلی تو
کانوڈیوں کے مذہبی عقائد کا احترام کرنا اور دوسرے انہیں تحفظ فراہم کرکے
امن و امان کی فضا قائم رکھنا ۔ عدالت عظمیٰ میں جسٹس بھٹی نے بھی کہا کہ
حکم سے پہلے مسافروں کی حفاظت کا بھی خیال رکھا گیا ہوگا۔ان کی مراد
کانوڈیا ہوں گے مگر سماعت ہی کےدن کانوڈیوں کے دنگا فساد نے بتا دیا کہ
خطرہ کس کو کس سے ہے؟
یوگی سرکار اور ضلع پولیس کی تمام تر نازبرداری کے باوجود مظفر نگر ہی میں
کانوڑیوں نے مارپیٹ کرکے اپنے عقائد کے ساتھ اخلاق و کردار کا بھی بہترین
نمونہ پیش کیا ۔ چھپر تھانہ علاقے میں نیشنل ہائی وے-58 پر کانوڑیوں نے یہ
الزام لگاکرکہ ایک کار سے ٹکرانے کی وجہ سے کانوڑ ٹوٹ گیا ہے گاڑی کو توڑ
پھوڑ دیا۔ کانوڑیوں کے مطابق یہ سانحہ ڈیڑھ کلومیٹر پیچھے ہوا۔ اس کے
باوجودیاتر اکا یہ چمتکاردیکھیں کہ پیدل چلنے والوں نے دو کلومیٹر آگے
جاکر گاڑی کو پکڑ لیا۔ اپنی شامتِ اعمال دیکھ کر پر بیچارہ ڈرائیور عبدل کے
ہوٹل میں نہیں لکشمی دھابے میں گھس گیا ۔ اسے امید رہی ہوگی کہ کانوڈ اسے
ہندو کے ڈھابے میں جاتا ہوا دیکھ کرر حم کھائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔
کانوڈیوں کی بھیڑ نے اس بیچارے کو دھر دبوچا اوربے رحمی پٹائی شروع کردی۔
لکشمی دھابے کا ہندو مالک اور ہندو عملہ بچانے کے لیے آیا تو کانوڈیوں نے
ان پر بھی خوب ہاتھ صاف کیا ۔ پولیس بہت دیر تک خاموش تماشائی بنی رہی لیکن
جب بیچ بچاو کے لیے آگے بڑھی تو ان کی بھی دھلائی کردی گئی۔ یوگی سرکار ان
لوگوں کے تحفظ کی خاطر دبلی ہورہی جو امن و امان کو غارت کررہے ہیں عوام کے
ساتھ خود پولیس کے لیے بھی خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی انکاونٹر کے لیے مشہور یوگی کے پولیس افسران کا
دستہ جائے واردات پر پہنچ گیا ۔ وہ فسادیوں پر کارروائی کرنے کے بجائے ان
کو سمجھانے بجھانے لگا تاکہ معاملہ رفع دفع کیا جاسکے۔ سی او صدر راجو کمار
ساہو کے مطابق کانوڈ یایہ ثابت ہی نہیں کرسکے کہ کوئی گاڑی ان سے ٹکرائی
تھی ۔ پولس افسران نے اس کی تصدیق کی تو دنگائی آگے بڑھ گئے لیکن سوال یہ
ہے جو گاڑی انہوں نے توڑی اور جو دوکان انہوں نے تباہ کی نیز جن لوگوں کو
انہوں نے مارا پیٹا انہیں انصاف کیسے ملے گا ؟ اتفاق سے ان مصیبت زدگان میں
کوئی مسلمان نہیں ہے جو یوگی کو ووٹ نہیں دیتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر کانوڈ
اور عام ہندو کے درمیان میں یہ تفریق امتیاز کون سا راج دھرم ہے؟ یوگی بابا
کی یہی حماقتیں عام ہندووں کو ان سے دور کررہی ہیں اور اس کا خمیازہ انہیں
انتخابات میں بھگتنا پڑ رہا ہے لیکن وہ سدھرنے کا نام نہیں لے رہے ۔
کانوڈیا کے معاملے میں یوگی نے مختلف حلقۂ انتخاب میں بکھرے ہوئے چند رائے
دہندگان کو خوش کرنے کے لیے ایک علاقہ کی اکثریت کو ناراض کردیا ہے۔ اس سے
وہاں کی علاقائی جماعت آر ایل ڈی پریشان ہے اور بعید نہیں کہ اپنا وجود
بچانے کی خاطر وہ بی جے پی سے ناطہ توڑ لے ۔
یہ تو ایک معمولی نقصان ہے مگر شدت پسند ہندوتوا نواز غنڈہ گردی کی بے لگام
حمایت کا آگے چل کر یہ نتیجہ نکلے گا کہ جس طرح بغیر کسی معقول وجہ کہ وہ
آج کسی گاڑی والے پر چڑھ دوڑے اور لکشمی دھابے میں گھس کر پولیس کے سامنے
مار پیٹ کی کل وہی معاملہ یوگی اور ان کے وزراء کے سے بھی ہوگا ۔ بعید نہیں
کہ یوگی جی کو پھر اسی طرح ایوان کے اندر آنسو بہانا پڑے جیسا کہ سومناتھ
چٹرجی کے سامنے بہائے گئے تھے کیونکہ شیر کی سواری کرنے والے ایک نہ ایک دن
اس کا ترنوالہ بن ہی جاتے ہیں ۔ یوگی کے لیے سپریم کورٹ کی رسوائی پہلی قسط
ہے۔کانوڈیوں کے معاملے میں جسٹس ہرشی کیش رائے اور جسٹس ایس وی این بھٹی کی
بینچ کے سامنے جو کچھ ہوا وہ خاصہ دلچسپ ہے۔ اے پی سی آر کے وکیل سی یو
سنگھ نے عدالت میں کہا کہ یوپی انتظامیہ دکانداروں پر اپنے نام اور موبائل
نمبر ظاہر کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ کوئی قانون پولیس کو ایسا کرنے کا
حق نہیں دیتا۔ پولیس کو صرف یہ جانچنے کا اختیار ہے کہ کس قسم کا کھانا پیش
کیا جا رہا ہے۔ ملازم یا مالک کا نام لازمی نہیں بنایا جا سکتا۔
مہوا موئترا کے وکیل ابھیشیک سنگھوی نے نیم پلیٹ لگانے کے حکم کا حوالہ
دیتے ہوئے پہلا اعتراض یہ کیا کہ بلدیہ کے بجائے پولیس کارروائی کر رہی ہے۔
اس کے ذریعہ اقلیتوں اور دلتوں کو الگ تھلگ کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد جب
مظفر نگر پولیس کا حکم پڑھا گیا تو جسٹس ہرشی کیش رائے نے پوچھا کہ یہ حکم
ہے یا پریس ریلیز؟ جج نے یہ بھی کہا کہ اس میں تو رضاکارانہ لکھا ہے۔ اس پر
ابھیشیک منو سنگھوی بولے یہ رضاکارانہ نہیں بلکہ لازمی ہے۔ ایڈوکیٹ سی یو
سنگھ نے ہری دوار پولس کا حکمنامہ بتایا جس میں سخت کارروائی کی دھمکی دی
گئی تھی ۔ وکیلوں کو دوکاندار کا نام لکھنے پر اعتراض تھا۔ ان کا کہنا تھا
سبزی، خالص سبزی، جین فوڈ وغیرہ لکھ سکتے ہیں مگر بیچنے والے یا دوکاندار
کا نام لکھنا کیوں ضروری ہے؟ ابھیشیک منو سنگھوی نےاس سے ذریعہ معاش سے جوڑ
کر کہا کہ شناخت کا مقصد بائیکاٹ ہے۔نام نہ لکھو تو کاروبار بند، نام لکھو
تو فروخت ختم۔ اس کے ذریعے معاشی بائیکاٹ کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چھوت چھات
کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔
ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے اجین میں بھی انتظامیہ کے ذریعہ دکانداروں کے لیے
ایسی ہدایات جاری کرنے کا حوالہ دیا۔ اس پر جسٹس رائے نے کہا کہ کیا
کانوڑیئے اس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ کھانا کسی خاص برادری کی دوکان کا
ہو اور اناج کسی خاص برادری کا ہی پیدا کردہ ہو؟ اس پر سنگھوی نے کہا کہ
یہی ہماری دلیل ہے۔یہ سن کر جسٹس بھٹی بولے کہ کیرالہ کے ایک شہر میں 2
مشہور ویجیٹیرین ریسٹورنٹ ہیں۔ ایک ہندو کا اور ایک مسلمان کا ہے۔ مجھے
ذاتی طور پر مسلمان کے ریسٹورنٹ میں جانا پسند تھا کیونکہ وہاں صفائی زیادہ
نظر آتی تھی۔ اس پر سنگھوی نے کہا کہ فوڈ سیکورٹی ایکٹ بھی صرف
ویجیٹیرین-نان ویجیٹیرین اور کیلوریز لکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ مینوفیکچرنگ
کمپنی کے مالک کا نام لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سنگھوی نے کہا کہ کانوڑ
یاترا 6 اگست کو ختم ہوگی۔ اس لیے ان احکامات کو ایک دن کے لیے بھی جاری
رکھنا غلط ہے۔
سماعت کے بعد جج نےاپنا فیصلہ سنایا کہ اس طرح کے حکم کی کوئی قانونی بنیاد
نہیں ہے۔ اس سے ملک کے اس سیکولر کردار کو نقصان پہنچتا ہے، جو آئین کے
تمہید کا حصہ ہے۔ججوں نے یہ نوٹ کیا کہ کئی ملازمین کو کام سے ہٹا دیا گیا
ہے۔ ان مباحث اور دلائل کے بعد عدالت نے کھانے پینے کی ہوٹلوں اور ٹھیلوں
وغیرہ پر نیم پلیٹ لگانے کے یوگی حکومت کے فیصلے پر روک لگادی۔ عدالت نے
کہا کہ کھانے پینے کی دوکانوں پر کھانے کی اقسام لکھی جائیں، دکاندار کا
نام لکھنا ضروری نہیں۔شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ سنجے راؤت نے کانوڑ روٹ پر
نام کی تختی لگائے جانے کے یوگی حکومت کے فیصلے کو پھوٹ ڈالنے والی حرکت
بتایا ۔ آزادی سے قبل انگریزوں نےا ٓزاد ہند فوج کے قیدیوں کےساتھ یہی کیا
تھا ۔ جیل کے اندر الگ الگ ہندو چائے اور مسلمان چائے تقسیم ہوا کرتی تھی
مگر ہندومسلم مجاہدین آزادی انہیں ملا کر آپس میں تقسیم کرلیتے تھے۔ اس
حکمت عملی نے انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور اسی طرح فرنگیوں
کے تلوے چاٹنے والے سنگھ پریوار کو بھی اقتدار سے بے دخل کیا جاسکتا ہے۔
|