یہ حقیقت ہے کہ آج کل ”پش بٹن
کلچر“ کی وجہ سے جسمانی کام اور ورزش زوال پذیر ہوچکے ہیں۔ اس وقت مٹھی بھر
لوگ ہی چل پھر کر کام کرتے ہیں۔ بڑے شہروں میں دیکھا جاتا ہے کہ لوگ لمبی
قطاروں میں گھنٹوں پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے انتظار کرتے رہتے تھے کیونکہ آج کل
جھوٹی شان کی وجہ سے پیدل چلنا وقار کے منافی خیال کیا جاتا ہے۔
ایک زمانے میں انسان سائیکل چلا کر بہترین انداز میں اپنا وقت کاٹتا تھا
لیکن اب یہ عادت فنا ہوچکی ہے اور اس کی جگہ مشینی سائیکل نے لے لی ہے جو
گھر کے ایک کونے میں کھڑی رہتی ہے۔ ہمارے دوست چینی باشندوں نے سائیکل کو
مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مغرب میں بھی اب لوگ سائیکل پسند
کرنے لگے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں مجموعی طور پر گاڑیوں کی تعداد
میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے انسان سست ہورہے ہیں اور ماحول مزید آلود
ہورہا ہے۔ ورزش نہ کرنے کی وجہ سے دل کے امراض میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔
ان گاڑیوں نے حادثات کے علاوہ دل کے امراض کے ذریعے انسانوں کو نقصان
پہنچایا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ آج فیکٹری میں مزدور بھی جسمانی طور پر کام کرتے ہیں لیکن
اس صدی کے آغاز میں فیکٹری کا مزدور زیادہ کام کرتا تھا۔ آج کے مزدور کی
جسمانی محنت بہت کم ہوچکی ہے۔ آج کل انسان کا زیادہ فارغ وقت ایسی سرگرمیوں
میں صرف ہوتا ہے جن سے وقت گزرتا ہے مگر توانائی خرچ نہیں ہوتی ہے۔ کھیلوں
میں دلچسپی بھی کم ہوچکی ہے۔ ریڈیو ٹی وی اور سی ڈیز کے حملے نے پہلے تباہی
مچا رکھی تھی اور ساتھ سنوکر اور کمپیوٹر گیمز کی وباءنے تمام کام کردیا ہے
اس وقت ہم کھلاڑی کے بجائے تماشائی بن گئے ہیں اور گھنٹوں ٹی وی پر سپورٹس
پروگرام دیکھتے رہتے ہیں اس دوران ہم مختصر چہل قدمی کیلئے بھی آمادہ نہیں
ہوتے ہیں۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ نوجوانی میں ایتھلیٹ یا کھلاڑی ہوتے ہیں وہ شادی
یا پیشہ ورانہ زندگی میں داخل ہونے کے بعد اپنی سرگرمیاں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس
قسم کے لوگ سب سے زیادہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ وہ موٹاپے اور اس سے متعلق امراض
کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جن علاقوں میں موسم عموماً خوشگوار رہتا ہے
وہاں کے لوگ بھی کسی قسم کے کھیل میں حصہ نہیں لیتے ہیں۔
اس سست اور غیرمتحرک زندگی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وزن بڑھ جاتا ہے‘ صحت
خراب رہنے لگتی ہے اور سگریٹ و شراب نوشی کی طرف رجحان ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت
ہے کہ جو لوگ غیرمتحرک زندگی گزارتے ہیں وہ ہمہ اقسام کے امراض میں مبتلا
ہوجاتے ہیں۔ روزانہ جسمانی ورزش کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ دل باقاعدگی
سے اپنا کام کرتا ہے اور تندرست رہتا ہے جب باقاعدگی سے ورزش کرنے والا شخص
ذہنی دبائو کا شکار ہوتا ہے تو اس کے دل پر کم دبائو پڑتا ہے اور وہ زیادہ
متاثر نہیں ہوتا ہے جبکہ ورزش نہ کرنے والوں کے ساتھ صورتحال برعکس ہوتی
ہے۔
جدید امریکی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ صحت مند دل کیلئے سخت
ورزش ضروری نہیں ہے تیز چہل قدمی اور سائیکلنگ بھی دل کو صحت مند رکھتی
ہیں‘ وزن کم ہوجاتا ہے اور امراض کوسوں دور رہتے ہیں۔ اسی لیے مغرب کے
ماہرین کا خیال ہے کہ ہر عمر کے انسان کو اپنی سرگرمیوں میں چہل قدمی اور
سائیکلنگ ضرور شامل رکھنی چاہیے۔
ورزش کے بہت سے فوائد ہیں مثلاً ٭ جو لوگ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں شدید
سے شدید کام کے دوران ان کے دل کی دھڑکن آہستہ رہتی ہے اور خون کا دبائو
بھی نیچے رہتا ہے۔ ٭ چکنائی کم رہتی ہے ٭ وہ زیادہ خوش باش اور صحت مند
رہتے ہیں۔
جو نوجوان روزانہ 30تا 40 منٹ کی تیز چہل قدمی کرلیتا ہے اور ورزش سے پہلے
اور بعد پانچ منٹ رکتا ہے اس کی اچھی صحت برقرار رہتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو
تازہ دم اور کارآمد محسوس کرتا ہے اور بیسیوں امراض کو پرے بھگا دیتا ہے۔
حتیٰ کہ ہفتے میں تین یا پانچ دنوں کی ورزش بھی مفید ثابت ہوتی ہے۔ ورزش کی
شدت اتنی زیادہ ضرور ہونی چاہیے کہ سانس چڑھ جائے اور معمولی سا پسینہ بھی
نکل آئے۔ وہ لوگ جو ورزش کے عادی نہیں ہیں دو چار سے چھ ہفتوں میں بتدریج
ورزش کے عادی ہوسکتے ہیں۔ ورزش خالی پیٹ کرنی چاہیے اور اگر صبح کی جائے تو
اچھا ہے۔ کھانے کے بعد چہل قدمی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ نقصان دہ ثابت
ہوسکتی ہے۔ اس لیے رات کے کھانے کے بعد ایک میل کی چہل قدمی والا نظریہ
درست نہیں ہے۔
چہل قدمی اورپیراکی بہترین ورزشیں ہیں کیونکہ ان میں جسم کے بڑے عضلات کام
کرتے ہیں۔ سخت ورزش مثلاً ویٹ لفٹنگ‘ پریس اپ وغیرہ مفید نہیں ہیں اور دل
کے مریضوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ کمزور لوگوں کو بھی اس قسم کی سخت ورزش
نہیں کرنی چاہیے۔
لوگوں کی اکثریت میڈیکل چیک اپ کے بغیر آہستہ آہستہ نرم مزاجی سے ورزش شروع
کرسکتی ہے لیکن وہ لوگ جو دل کے مریض ہیں یا وہ اپنی صحت کے متعلق شکوک میں
گرفتار ہیں وہ ورزش شروع کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں اسی طرح
اگر کوئی ورزش کرنے کے بعد درد محسوس کرے تو اسے بھی ڈاکٹر سے رجوع کرلینا
چاہیے۔
جو لوگ بائی پاس سرجری کرواتے ہیں انہیں کم از کم ایک گھنٹہ چہل قدمی ضرور
کرنی چاہیے۔ لیکن میری عرض ہے کہ آخر ایسا موقع آنے ہی کیوں دیاجائے؟ آپ آج
سے ہی چلنا شروع کردیں اور اتنی تیزی کے ساتھ کہ دوسروں کو یہ ہی لگے کہ
کوئی آپ کا پیچھا کررہا ہے۔ چند ہفتوں کے بعد آپ خوشگوار تبدیلی محسوس کرنے
لگیں گے۔ |