امریکہ میں ٹرمپ کی چال سے بادشاہ ، بیگم اور غلام بے حال

لوگ نہیں جانتے تھے کہ تاش کے کھیل میں تُرپ کے پتے یعنی ٹرمپ کارڈ کو جوکر کیوں کہا جاتا ہے؟ امریکہ کے سابق صدر نے دوبارہ انتخابی عمل کی دوڑ میں شامل ہوکر اس راز کو فاش کردیا۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران آئے دن اس کے شواہد منظر عام پر آرہے ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ان کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ امریکی عوام اور ذرائع ابلاغ کےاندر نفرت و تمسخر کے تئیں جنونی کشش نے ٹرمپ کا حوصلہ بڑھا دیا ہے اور وہ اپنے تباہ کن راستے پر بگ ٹٹ دوڑے چلے جارہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خود کو دنیا کی سب سے زیادہ مہذب قوم کہہ کر دوسروں کو حقیر سمجھنے والے کس اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کے نسل پرستانہ بیانات اور ان کی پذیرائی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ فرنگیوں کے اندر تفریق و امتیاز کا درندہ اب بھی چھپا بیٹھا ہے اور جب موقع ملتا ہے بے ساختہ باہر آکر پنجے جھاڑنے لگتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی ’چور چور موسیرے بھائی ‘ کی مصداق ایک دوسرے چہیتے دوست ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی انتخابی مہم کے دوران پہلے امریکہ میں ’ہاوڈی مودی ‘ کے نام سے خطاب عام ہوا اور پھر احمد آباد کے اندر ’نمستے ٹرمپ ‘کا تماشہ کیاگیا اس کے باوجود ٹرمپ کارڈ پٹ گیا ۔ اب ٹرمپ کا مقابلہ ہند نژاد کملا ہیرس سے متوقع ہے اس لیے مودی جی کے لیے دھرم سنکٹ کھڑا ہوگیا ۔ایک طرف دیش دوسری طرف دوست ’میں اِدھر جاوں یا اُدھر جاوں ، بڑی مشکل میں ہوں میں کدھر جاوں ؟‘ دنیا کی وسیع ترین جمہوریت میں فی الحال ایوان سے لے کر سپریم کورٹ تک ذات پات کا مسئلہ زیر بحث ہے۔’گولی مارو سالوں کو‘ کا نعرہ لگا کر شہرت پانے والے انوراگ ٹھاکر کووزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی وزارت سے لات مار کر نکال دیا تو وہ پھر سے وزیر بننے کی خاطر راہل گاندھی سے ان کی ذات پوچھ رہے ہیں۔ اسی طرز پر امریکہ میں ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے نائب صدر اور ڈیموکریٹک متوقع امیدوار کاملا ہیرس کی نسل سے متعلق عداوتی انداز میں سوال اٹھا دیا ہے۔

سابق صدر ٹرمپ نے اخلاق و آداب کی ساری حدود پھلانگتے ہوئے الزام لگایا کہ کاملا ہیرس ماضی میں صرف اپنےہندوستانی ورثے کو فروغ دیتی تھیں۔ٹرمپ نے کہا، مجھے یہ علم نہیں تھا کہ وہ سیاہ فام ہیں، یہاں تک کہ کئی سال قبل وہ سیاہ فام بن گئیں اور اب چاہتی ہیں کہ انہیں سیاہ فام کے طور پر جانا جائے۔ اپنی اس بکواس کے بعد سابق صدر نے حیران کن انداز میں کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ کاملا ہیرس ہندوستانی ہیں یا سیاہ فام؟ ایسی ہی خراب زبان خود مودی بھی سونیا گاندھی کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں ۔ کبھی ان کو بار بالا، کبھی کانگریس کی بیوہ اور کبھی جرسی گائے تک کہہ دیا اور اسی حوالے سے راہل گاندھی کو ’ہابرڈ بچھڑا ‘کہنے سے بھی نہیں چوکے۔ ویسے کاملا ہیرس کوپہلی سیاہ فام خاتون اور ایشیائی امریکی نائب صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ امریکی سینیٹ میں سیاہ فام کاکس کی رکن تھیں نیزان کی سیاہ فام گروپ 'الفا کاپا الفا' کے ساتھ بھی وابستگی تھی لیکن فی الحال ہاورڈ یونیورسٹی کی یہ سابق طالبہ امریکی شہری اور نائب صدر ہیں اس لیے ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ویسے ٹرمپ تواپنی ہی ری پبلکن پارٹی میں ہندوستان سے آئے تارکینِ وطن کی بیٹی اور سابق امریکی سفیر نکی ہیلی کی "نمبرا" کہہ کر توہین کرچکے ہیں اس لیے بیچاری کاملا کی کیا بساط؟

ٹرمپ اور مودی کی دوستی نے امریکی و ہندوستانی انتخابی مہم کے درمیان بہت ساری یکسانیت پیدا کردی ہے۔ یعنی ہندوستان کی جمہوریت کو امریکہ اپنے جیسا نہیں بناسکا تو خود ہندوستانی بن گیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کاملا ہیرس کی آڑ میں ہو بہو مودی کی مانند فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں ۔ یہاں برہمنوں اور نام نہاد اونچی ذات کےلوگوں کی خشنودی حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے یا ہندووں کوان سے ڈرایا جاتا ہے وہاں سفید فام طبقہ کی منہ بھرائی کے لیے تارکین وطن کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ یہاں پاکستان کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہاں غزہ کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے۔ اسرائیل کو خوش کرکے یہودی سرمایہ داروں سے روپیہ بٹورا جاتا ہے ۔ مسلمان دشمنی بھی دونوں مقامات پر مشترک ہے۔ امریکہ کا میڈیا پوری طرح بنٹا ہوا ہے اور اپنے اپنے خیمہ کی بات کرتا ہے۔ ہمدردی بٹورنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اوپر گولی چلوا کر ایک یہودی نوجوان کو مروا دیا تاکہ یہ راز کبھی نہ کھلے کہ کروک اسمتھ نے کس کے بہکاوے میں آکر یا اکسانے پر گولی چلائی تھی ؟

ری پبلکن پارٹی کے قومی کنونشن میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کا اسی طرح سیاسی فائدہ اٹھایا جیسے وزیر اعظم نریندر مودی نے پلوامہ دھماکے اور اس کے بعد جعلی سرجیکل اسٹرائیک کا اٹھایا تھا ۔ پلوامہ دھماکے کی تفتیش کا نہ ہونا جس طرح اُس حملے کو شکوک کے دائرے میں لے جاتا اسی طرح حملہ آور کا ہلاک کردیا جانا بھی ٹرمپ پر شوٹنگ کو مشکوک کردیتا ہے۔ قومی اجلاس کے اندر شرکاء کی ہمدردی سمیٹنے کے لیے ٹرمپ نے کہا کہ:’ حملے کے وقت اگر آخری لمحے پر میں اپنا سر نہ ہلاتا تو گولی سر پر لگتی اور آج میں یہاں نہیں ہوتا، مجھے جو گولی لگی اگر ایک انچ کا فاصلہ باقی نہ رہتا تو زندگی جاسکتی تھی‘۔ قومی کنونشن سے دون قبل ٹرمپ نے حفاظتی دستوں سے پوچھا تھا کہ کوئی شخص چھت پر چڑھا کیسے؟ اور اس کی اطلاع کیوں نہیں دی گئی؟ٹرمپ کے مطابق اگر انہیں پیشگی اطلاع دی گئی ہوتی تو وہ 15 سے 20 منٹ انتظار کر لیتے۔

اپنے سابقہ سوالات کو بھول کر کنونشن میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے سے متعلق سکیورٹی اداروں کو کلین چٹ دیتے ہوئے وہ بولے :’ سیکریٹ سروس نے خود کو خطرے میں ڈال کر مجھے بچایا، میں خدا کے فضل سے آج آپ کے سامنے کھڑا ہوں، میں نے حملے کے بعد اپنا دایاں بازو لہراتے ہوئے فائٹ، فائٹ کا نعرہ لگایا لیکن اس افسوسناک واقعہ میں ایک محب وطن امریکی ماراگیا‘۔ ٹرمپ نے جوش میں یہ اعلان بھی کیا کہ اس سنگین سانحہ کے بعد امریکہ کے لوگ پہلے سے زیادہ متحد اورپرعزم ہیں اور ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی کیونکہ و ہ جھکنے والے نہیں ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے حریف ڈیموکریٹس کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر وہ امریکہ کو متحد کرنا چاہتے ہیں تو انہیں عصبیت ترک کرنی ہوگی۔ اس نصیحت کو سن کر ’راون کے منہ سے رامائن‘ والا محاورہ یاد آگیا کیونکہ امریکہ کے اندر نفرت انگیزی اور عوام کو تقسیم کرنے میں وہ مودی سے بھی دو قدم آگے ہیں۔ ۔ٹرمپ نے ڈیموکریٹ سے عدلیہ کو ہتھیاربنانےاورسیاسی مخالف کو جمہوریت کا دشمن قراردینے سے اجتناب کرنے کی تلقین کی حالانکہ انہوں نے خود اپنے لیے مخالفین کی تضحیک و استہزاء کے سارے حقوق محفوظ کر رکھے ہیں ۔

سابق صدر ٹرمپ نے مودی جی کا پرانا نعرہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کےطرزپر دعویٰ کیا کہ وہ تمام امریکیوں کےلیے صدارتی انتخاب لڑرے ہیں ۔ ان کی جیت نصف امریکہ کیلئے نہیں ہوگی بلکہ وہ مل جل کر ترقی اور آزادی کے نئے دور کا آغاز کریں گے ۔ ویسے ان کے رفیق خاص نے سرزمین ہند پر اس نعرے پر جو عمل در آمد کیا وہ ساری دنیا دیکھ چکی ہے۔ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ورنہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر جس طرح ٹرمپ نے گوروں اورتارکین وطن کے درمیان نفرت کا زہر گھولا ہے اس کی مثال نہیں ملتی اور ہنوز وہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ جمہوری نظام سیاست کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ ملوکیت اور آمریت کے برعکس یہاں عوام کے رائے مشورے سے بہترین شخص کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور سونپی جاتی ہے۔ اس کی روشنی میں اگر دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کا جائزہ لیا جائے تو بہت ہی مایوس کن صورتحال نظر آتی ہے۔

مشی گن شہر کے اندر صدارتی نامزدگی کو قبول کرتے ہوئے خطاب عام میں ٹرمپ نے اپنے مخالفین پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹ پارٹی چونکہ ووٹ لینے والے کو امیدوار نہیں بنانا چاہتی اس لیے جمہوری جماعت نہیں بلکہ جمہوریت کی دشمن ہے۔اس کے برعکس چونکہ انہوں نے جمہوریت کے لیے گولی کھائی ہے اس لیے وہ جمہوریت کے لیے خطرہ نہیں ہوسکتے ؟ یہ اس حقیقت کا بلاواسطہ اعتراف ہے کہ جس طرح ہندوستان میں مودی کو آئین کا دشمن سمجھاجاتاہے اسی طرح امریکہ کے اندر ٹرمپ بھی جمہوریت کے لیے خطرہ سمجھے جاتےہیں ورنہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ امریکہ کو ویسے تو دنیا سب سے بڑی جمہوریت کہاجاتا ہے مگر وہاں کے روشن خیال دانشور اعتراف کرتے ہیں کہ اس نظام ِ فاسد کے بطن سےجنم لینے والی فسطائیت نے امریکہ کو اپنے خونیں پنجے میں جکڑ لیا ہے۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی یہ پیشنگوئی درست ثابت ہوچکی ہے کہ ’ایک وقت آئے گا جب کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی اور سرمایہ دارانہ نظام واشنگٹن اور نیو یارک میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہوگا‘‘ ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2103 Articles with 1331296 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.