تفتیشی ادارے اور عوام

میں اس دن لاہور کے مضافات میں ایک گاؤں میں موجود تھا۔ ایک درمیانی عمر کے بندے کو چار پانچ لڑکے بری طرح زدوکوب کر رہے تھے، میں جس کے پاس بیٹھا تھا، اسے کہا کہ بھائی اسے کوئی بچا نہیں سکتا۔ کہنے لگا یہ سارے لڑکے بدمعاش ہیں ۔ جو مدد کوسامنے آیا وہ ان کی مار پیٹ کا شکار ہو جائے گا۔اتنے میں ایک بچہ کوئی تیرہ یا چورہ سال کا ہو گا، بھاگتا ہوا آیااور زور زور سے چلایا۔ اب بھاگنانہیں، میں نے پولیس کو فون کر دیا ہے۔ابھی پولیس والے آرہے ہیں۔ اب تم بھاگنا نہیں۔ مارنے والوں نے پولیس والوں کے بارے کچھ غلط باتیں کیں۔ اس لڑکے کو پکڑ کر چند تھپڑ لگائے اور جس گاڑی میں آئے تھے اسی میں دھمکیاں دیتے واپس چلے گئے۔تھوڑی دیر میں پولیس وہاں موجود تھی۔ ایک سپاہی نیچے اترا، پوچھا کس نے 15 پر کال کی تھی۔ وہ نوجوان بچہ آگے بڑھا کہ میں نے کی تھی۔ یہ میرے والد ہیں دیکھیں انہیں کس قدر مارا ہے۔پولیس والے نے اس کے باپ کو دیکھا اور کہنے لگا ، ایسے چھوٹے موٹے جھگڑے تو ہر جگہ روز ہوتے ہیں۔ 15کو کال کرنے کی کیا خاص وجہ تھی۔ لڑکے نے کہا کہ میں نے کال کرنے کے بعد انہیں بتایا تو وہ میرے والد کو چھوڑ کر بھاگ گئے ورنہ انہوں نے ان کو مار دینا تھا۔پولیس والے نے اس لڑکے کو گھورااور پھر تین چار تھپڑ جڑ دئیے۔مار دینا تھا، کوئی مذاق ہے اور تمہیں پتہ ہے کہ 15 کیا ہوتی ہے ۔ منہ اٹھا کے فون کر دینا تمہارا تو کھیل ہو گیا اور ہم بڑے ضروری کام چھوڑ کر آئے ہیں۔15 کوئی عام سروس نہیں کہ منہ اٹھایا اور فون کر دیا۔ آئندہ فون کیا تو ایک ہفتہ تھانے میں بند رکھوں گا۔دونوں باپ بیٹا غریب لوگ نظر آ رہے تھے۔ کچھ نہیں بولے، پولیس مدد کرنے کی بجائے الٹا انہیں گالیاں دیتی واپس چلی گئی۔مجھے اندازہ ہو گیا کہ پولیس مدد تب کرتی ہے جب اسے اس کی خدمت کاصلہ ملے یا کوئی بااثر سفارش کرے۔وگرنہ 15 بھی غریب کے لئے ممنوع ہے۔

ایف آئی اے سنا ہے بڑا فعال ادارہ ہے مگر اس کی فعالیت وزیر اعظم اور ان کے رفقا کے کہنے کی محتاج ہے۔روز لوگوں کو فون آتے ہیں کہ میں پولیس کے فلاں تھانے سے بول رہا ہوں۔ آپ کا بیٹا یا آپ کا بھائی یا آپ کا کوئی عزیزہمارے پاس ہے ۔ اسے ہم نے یہ جرم کرتے ہوئے پکڑا ہے۔ ہم کیس درج کرنے جا رہے تھے مگر اس نے کہا ہے کہ آپ سے بات کرا دیں۔پھر روتے ہوئے کسی نوجوان کی آواز آتی ہے کہ یہ کیس درج کر رہے ہیں۔ مگر میں نے منت کی ہے کہ ہماری عزت بچا لیں۔ یہ لاکھ روپے مانگ رہے ہیں۔ مہربانی کرکے اسے فوری پیسے بھیج کر میری جان اور خاندان کی عزت بچا لیں۔عزت اور بے عزتی کے معاملات اتنے جذباتی ہوتے ہیں کہ لوگ فوراًپیسے بھیج دیتے ہیں ۔ بعد میں پتہ چلتا کہ وہ عزیز جسے پکڑا گیا تھا گھر میں سو رہا ہے۔ مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ جنہیں پیسے وصول کرنا تھے وہ وصول کرکے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہیں اب ان کا فون آپ کو بند ملے گا۔ ایسے یا ملتے جلتے ہزاروں کیس ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ میں درج ہیں۔ میری ایک عزیز کے ساتھ بھی یہ دھوکا ہوا۔ میں نے FIA کو ان فون نمبروں کی تفصیل بھی فراہم کر دی۔ مگر کافی دفعہ گلبرگ ان کے دفتر جانے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔ جب میں ان کے رویوں کے سبب مایوس ہو گیا تواس کے بعد دوبارہ وہاں نہیں گیا۔ کبھی کوئی حکومتی ذمہ دار اس دفتر جا کر دیکھے ہزاروں لوگ وہاں مایوس بیٹھے ملیں گے۔ ان سب سے کسی نہ کسی نے دھوکے سے کچھ پیسے وصول کئے ہیں ۔ سارے ثٍبوت ہونے کے باوجود کوئی پرسان حال نہیں۔ ٹیلی فون کی کمپنیاں بھی کسی حد تک اس میں قصور وار ہیں۔ انہوں نے جعلی کارڈوں پر اتنی سمیں جاری کی ہوئی ہیں کہ جن کا سراغ ہی نہیں ملتا۔ بعض سمیں جاری تو کسی ایک کے نام ہوتی ہیں مگر وہ کئی ہاتھ بک چکی ہوتی ہیں ۔ ایسی صورت میں اصل مجرم ڈھونڈھنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔

پنجاب میں ایک انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ بھی ہے۔ مجھے ایک کیس کے سلسلے میں آج کل ان کے پاس جانا پڑتا ہے۔ دس دفعہ جائیں تو ڈائریکٹر صاحب شاید ایک دفعہ دفتر میں پائے جاتے ہیں مگر وہ مل نہیں سکتے۔ تفتیش کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ کیس درج کرانا چائیں تو کلرک پہلے ہی مجرم کے بارے کہہ دیتے کہ وہ تو شریف آدمی ہے۔ وہ ہر کرپٹ آدمی کو شرافت کا سرٹیفیکیٹ دیکر آپ کو ٹرخاتے ہیں۔ کوئی کاروائی کرنے کی بجائے مجرموں کا ساتھ دیتے ہیں۔اس ملک کے تفتیشی اداروں کی صورت حال بڑی عجیب ہے۔تفتیشی افسروں اور کرپٹ عناصر کی ملی بھگت سے لوٹ مار کا سماں ہے۔آپ کوئی شکایت کریں، کیس درج نہیں ہوتا۔ ملزم آپ سے پہلے اس ادارے کے ذمہ داروں سے ساز باز کر لیتے ہیں۔ آپ کسی کیس کا کب تک پیچھا کریں گے۔روز روز ادارے کے دفتر جانا اور مایوس لوٹ آنا بڑا کٹھن کام ہے۔ ادارے کے لوگ اگر آپ کی بات سننانہیں چاہیں گے تو آپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ملزموں کا نیٹ ورک اتنا فعال ہوتا ہے کہ جب تک آپ کو ئی بہت بڑی سفارش نہ لائیں کوئی آپ کو سننا پسند ہی نہیں کرتا۔

حکومت آج کل نیب کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے۔اقتدار کے ایوانوں میں یہ سب کو کھٹکتی ہے، سچی بات تو یہ ہے کہ اب اس ملک پر راج کرنے کے لئے نیب زدہ ہونا بنیادی وصف ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ نیب کی ساخت میں کچھ خامیاں بھی ہیں لیکن اس کا علاج یہ ہے کہ اسے آزاد کر دیا جائے۔آزاد نیب میں یہ تو نہ ہو کہ جو اقتدار میں آئے اس کے کیس راتوں را ت ختم ہو جائیں اور اپوزیشن کے خلاف کیسوں کے انبار لگ جائیں۔ مگر یہ سب ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے۔نیب واحد محکمہ ہے کہ جہاں اگر حکومتی مداخلت نہ ہو تو کسی حد تک سائل کی بات سنی جاتی ہے اور جہاں ملزم صحیح معنوں میں قابو آتے ہیں اور انہیں ڈر بھی محسوس ہوتا ہے۔ صرف سیاسی دباؤ ختم کرنے کی دیر ہے ۔ نیب کی کارکردگی بہت بہتر ہو جائے گی۔مگر اس جان بوجھ کر غیر فعال کیا گیا ہے۔ رقم کی حد مقرر کر دی گئی ہے اور کئی قدغن لگائے گئے ہیں۔ نیب کو فقط آزادی چائیے۔اس کی حدود اور قیود متعین کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ لیکن کیا کریں کہ حکومتو ں کی اپنی دلچسپیاں ہوتی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک اچھا ادارہ حکومت کا دست راست بن کر صرف حکومت مخالفوں کے خلاف کام کرتا ہے۔ لوگ کسی بھی ادارے کی کارکردگی سے خوش نہیں۔ ایک اچھی حکومت کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ روٹی کے بعد سب سے ضروری چیز انصاف ہے جو ہماری حکومتیں جو زیادہ تر انصاف کا گلا کاٹنے والوں پر مشتمل ہیں، لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں ہر طرح ناکام ہیں۔ میں تو سمجھتا ہو کہ انصاف حاصل کرنے کے لئے یا تو آپ کے پاس کثیر سرمایہ ہو یا پھر کوئی بہت با اثر آدمی کی سفارش، ورنہ مایوسی آپ کا مقدر ہو گی۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 578 Articles with 472258 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More