سی ووٹر جائزہ : گلدستے کے اندر کیا ہے سچ بولو

بھارتیہ جنتا پارٹی نے سی ووٹر کے یشونت دیشمکھ جیسے کئی گرُگے پال رکھے ہیں جن کا کام اپنے آقاوں کے حق میں فضا ہموار کرنا اور اندھ بھگتوں کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔ یہ لوگ بڑی صفائی سے اپنا کام کرتے ہیں اور ان کے جائزوں کا مقصد سانپ نما حزب اختلاف کو مارنا اور بی جے پی کی لاٹھی کو ٹوٹنے سے بچانا ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی مہربانی سے ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ اس غلط فہمی کا شکار کر دیا گیا تھا کہ ’مودی ناقابلِ تسخیر ہیں‘۔ لیکن پچھلے انتخاب میں یہ طلسم ٹوٹ گیا۔ یہ لوگ کہتے تھے چاہے جو بھی ہوجائے ’آئے گا تو مودی ہی‘ ۔ پچھلے سال اسی ماہ موڈ آف نیشن میں پیشنگوئی کی گئی تھی کہ 52 فیصد عوام مودی جی کو پھر سے وزیر اعظم دیکھنا چاہتی ہے مگر یہ نہیں کہا گیا تھا کہ اگلی بار تھکے ماندے وزیر اعظم کو بیساکھیوں کے سہارے لنگڑتے ہوئے آنا پڑے گا ۔

حالیہ انتخابی نتائج کے بعد وہ لوگ ہوش میں آگئے ہیں کہ جویہ سمجھ کر بی جے پی کی حمایت کرتے تھے کہ اس کے خلاف ووٹ دینا اسے ضائع کرنے جیساہے۔بی جے پی کے ان بھاگنے والے ووٹرس کو واپس لانے کےلیے موڈ آف نیشن جائزے میں بی جے پی کےلیے اب بھی چار عدد نشستوں کا تعجب خیز اضافہ کردیا حالانکہ اسی سروے کے ددسرے اعدادو شمار اس کی تردید کرتے ہیں ۔ یہ جائزہ اعتراف کرتا ہے کہ بی جے پی کے ووٹ کا تناسب 37.7 فیصد سے گھٹ کر 36.56 فیصد پر آگیا پھر بھی نشستوں میں اضافہ ناقابلِ فہم ہے ۔ یہ سروے بتاتا ہے کہ اگر ابھی الیکشن ہوجائے تو کانگریس کے ووٹ کا تناسب 25.4 فیصد پر پہنچ جائے گا جو دو ماہ کے اندر4.2فیصد کا اضافہ ہے اس کے باوجود اس کی صرف ۶؍ نشستیں بڑھیں گی یعنی بی جے پی کی کمی کے باوجود 4 ؍کا اضافہ اورکانگریس کی بڑھوتری کے باوجود صرف 6؍ زیادہ؟ عجیب منطق ہے مگر سوال یہ ہے کہ اگر بی جے پی کی اگر حالت بہتر ہورہی ہے تو اترپردیش میں ضمنی انتخاب سے وہ کیوں منہ چرا رہی ہے؟

این ڈی اے کے حق میں نشستوں کے اضافہ کی پیشنگوئی کرنے والے یشونت دیشمکھ بھول گئے کہ ان کے اپنے جائزے کے مطابق 4 میں 3 صوبوں میں بی جے پی کی شکست کا مژدہ سنایا گیا ہے؟ اور چوتھے یعنی جھارکھنڈ کے بارے میں بھی وہ تذبذب کا شکار ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی ہریانہ کے ساتھ مہاراشٹر کا انتخاب منعقد کرنے کی ہمت نہیں دکھا سکی ؟ اور اب ہریانہ میں اسے ملتوی کرانے کی خاطر الیکشن کمیشن سے لولے لنگڑے بہانے کرکے فریاد کررہی ہے۔ وزیر اعظم کے یہ وفادار گودی صحافی حسبِ ضرورت مقبولیت کا کھیل تماشا کرتے ہیں۔ 2019کے پارلیمانی انتخاب سے قبل مودی کو آسمان پر پہنچانے والوں نے اگست 2020 میں بتایا کہ 66 فیصد عوام کے نزدیک مودی ہی پی ایم کے لیے پہلی پسند ہیں مگر 6؍ ماہ بعد جنوری 2021 میں مقبولیت کا گراف گھٹ کر 38 فیصد پر آگیا کیونکہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی ۔

کورونا کی دوسری لہر اور مغربی بنگال کی شکست کے بعد مودی جی مقبولیت میں کمی کا احساس کرکے سنگھ پریوار نے وزیر اعظم کی شبیہ کوسدھارنے کی خاطر زبردست مہم چلائی گئی مگر میڈیا میں خوب ملمع سازی کے باوجود اگست 2021؍ میں اسے 24؍ فیصد تک آنے سے نہیں روکا جا سکا۔ اس وقت چونکہ کوئی انتخاب پیش نظر نہیں تھا اس لیے یہ اعداد و شمار بے ضرر تھے۔پچھلے سال جب انتخابی ماحول سازی شروع ہوئی تو اسی ماہ ہونے والے جائزے میں بتایا گیا تھا کہ 63 فیصد افراد بحیثیت وزیراعظم نریندر مودی کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔اس سے چند مہینے پہلے ایک اور سروے نے انکشاف کیا تھا وزیراعظم کی کارکردگی سے مطمئن افراد کی تعداد 72 فیصد ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں نے بی جے پی کو 400پار کیوں نہیں کرایا؟ جبکہ سروے میں حصہ لینے والے 44 فیصد لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ 2024 میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کو صرف نریندر مودی کی وجہ سے ووٹ دیں گےاور زیادہ تر افراد کے خیال میں بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے صرف وزیراعظم کا چہرہ ہی کافی تھا ۔ 52 فیصدانہیں اچھا امیدوار سمجھتے تھے تو بھلا بیساکھیوں پر مجبور کرکے ان کے ساتھ اتنا برا سلوک کیوں کیا گیا؟

قومی انتخاب کے بعد ایوانِ پارلیمان کے دونوں اجلاس میں راہل گاندھی اور اکھلیش یادو یا ابھشیک بنرجی کی غیر معمولی کارکردگی نے بی جے پی غیر بھگت ووٹرس کو اپنی غلطی پر پچھتا وے کا شکارکیا ہے۔ یوٹیوب اور سماجی رابطے کے ذرائع ابلاغ پر مودی اور راہل کی پسندیدگی ان کی مقبولیت کا مظہر ہے۔ ایوان میں حزب اختلاف رہنما کے طور پر راہل گاندھی کی تقریر کو لوک سبھا چینل پر دو دن بعد 8.34؍ لاکھ لوگ دیکھ چکے تھےمگر اس کےایک دن بعد وزیر اعظم نریندرمودی کی تقریر کو صرف 73؍ ہزار لوگوں نے دیکھا تھا ۔ اس کے علاوہ راہل گاندھی کے اپنے چینل پر دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے تقریرکو دیکھا اس کے برعکس مودی جی کے چینل پر ناظرین کی تعداد صرف ایک لاکھ 45 ہزار ہی تھی۔ کانگریس کے چینل پر سوا لاکھ لوگوں نے راہل کی تقریر کو سنا تھا جبکہ بی جے پی کے چینل پر مودی دیکھنے والوں کی تعداد72 ہزار تھی ۔ اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر موڈ آف نیشن کا دعویٰ ہے کہ مودی کی مقبولیت 49 فیصد پر بنی ہوئی ہے۔

یشونت دیشمکھ جیسے لوگوں کو بھگتوں کی خوشنودی کے علاوہ دیگر لوگوں میں اپنا اعتماد بھی بحال رکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے جھوٹ کے ساتھ تھوڑا بہت سچ بولنے کی مجبوی ہوتی ہے۔ اس بار انہیں مودی جی کی مقبولیت میں کمی اور راہل گاندھی کے قبول عام میں اضافے کا اعتراف کرنا پڑا لیکن اس میں بھی ڈنڈی ماری گئی یعنی پچھلے 6؍ ماہ میں جہاں راہل کی مقبولیت 8؍ فیصد بڑھ کر 22.4 فیصد پر پہنچی وہیں مودی کی مقبولیت میں صرف 6؍ فیصد کی کمی واقع کمائی دکھائی گئی یعنی دیگر رہنماوں سے کاٹ کر راہل کی 2؍فیصد مقبولیت بڑھانا پڑا۔ پچھلے دس سال میں گھمنڈ سے اکڑی ہوئی سرکار کو گزشتہ دس ہفتوں میں ۶؍ بار جھکنا پڑا۔ وقف بل پر منہ کی کھانے کے بعد لیٹرل انٹری کا اشتہار واپس لینا پڑا۔ براڈکاسٹنگ بل کی واپسی کے بعد جائیداد کی فروخت پر ٹیکس کی ترمیم پر جھکنا پڑا اورپینشن اسکیم میں یو ٹرن کے بعد اب لائف انشورنس کے اوپر سے جی ایس ٹی ہٹایا جائے گا۔ پرسنل لا کو فرقہ وارانہ سوِل کو ڈ کہنے والی سرکار نے پھر ایک بار دلتوں کو ناراض کیا ہے اور ون نیشن ون الیکشن کا نعرہ اس کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔

وزیر اعظم کی فی الحال یہ حالت ہے کہ وہ بجٹ سیشن کے دوران ایوان پارلیمان کے اندر داخل ہونے کی ہمت نہیں کرسکے اور بیرین سنگھ کی ٹیپ نے ان کے لیے نئی مشکلات کھڑی کردی ہیں ۔ ایسے میں اگر کوئی سروے یہ انکشاف کرتا ہے بی جے پی اور این ڈی اے طاقتور ہورہا ہے تو ہنسی آتی ہے۔مذکورہ بالا سروے کی بابت ستیہ ہندی پر اشوتوش سے بات کرتے ہوئے یشونت دیشمکھ نے اپنی تمام تر مودی بھگتی کے باوجود چند چشم کشا اعترافات کیے جو قابلِ تعریف ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ انتخابی نتائج کے اثرات کوئی عارضی لہر نہیں تھے بلکہ ہنوز قائم ہیں ۔ ۔ اس کا مطلب ہے کہ اب مودی جی اینڈ کمپنی کے اچھے دن لد چکے ہیں اور ان کا لوٹ کر آنا مشکل ہے۔ ا نہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں جب کانگریس اور اس کے رہنما کمزور ہوئے تھے تودیگر علاقائی جماعتوں اور رہنماوں کا دبدبہ بڑھا تھا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ۔ حزب اختلاف میں کانگریس اور راہل کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور دوسری جماعتوں پر وہ حاوی ہورہی ہے۔

یشونت دیشمکھ کا تعلق چونکہ مہاراشٹر سے ہے اس لیے انہوں وہاں کی مثال دے کر برانڈ کانگریس کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک ایسی مٹی ہے جو دوچار بوند پانی سے لہلہا اٹھتی ہے۔ اس کے لیے اسے اچھے بیج یا کھاد یعنی لیڈر اور حکمت عملی کی حاجت نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق مہاراشٹر کی سیاست کے حوالے سے گفتگو میں شردپوار، ادھو ٹھاکرے ، اجیت پوار، دیویندر فڈنویس اور ایکناتھ شندے خبروں میں چھائے رہتے ہیں ۔ کانگریس کا کوئی مقبول چہرہ بظاہر نظر نہیں آتا اس کے باوجود ِ اس نے ودربھ اور مراٹھواڑہ میں زبردست کامیابی درج کرائی جہاں اس کا سیدھا مقابلہ بی جے پی سے تھا۔ یشونت دیشمکھ کے مطابق جب لوگ سرکار سے ناراض یا بیزار ہوتے ہیں تو ازخود کانگریس کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں اس میں امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ سی ووٹر کے اعدادو شمار سے قطع نظر ان مشاہدات کا انکار ممکن نہیں ہے۔ بظاہر یہ جائزہ سچ اور جھوٹ کا ملغوبہ ہے اسے دیکھ کر راحت اندوری کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
گلدستے پر یکجہتی لکھ رکھا ہے
گلدستے کے اندر کیا ہے سچ بولو

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2109 Articles with 1352408 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.