کئی برس گزرے، اُستاد رضی عابدی ہمیں چارلس ڈکنز کا ناول
Hard Times پڑھا رہے تھے۔ یہ ناول انیسویں صدی کے انگلستان میں کوئلے کے
کان کنوں کی زندگیاں بیان کرتا ہے۔ ناول میں ایک مزدور میاں بیوی کی گھریلو
توتکار کا تفصیلی بیان پڑھتے ہوئے ایک طالب علم نے کہا کہ ان دو کو لڑنے
جھگڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں؟ عابدی صاحب نے مسکرا کر کہا کہ ’’چھوٹے
گھروں کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ سارا وقت ایک دوسرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بڑے گھروں میں رہنے والے اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں۔‘‘ اس کاٹ دار
مشاہدے سے اچانک بچپن کی ایک یاد روشن ہو گئی۔ ہمارے قصبے کے اکثر مرد،
نوجوان اور بوڑھے، زیادہ وقت گھر سے باہر گلی کے نکڑ یا کسی دکان کے تھڑے
پر بیٹھے نظر آتے تھے۔ معلوم ہوا کہ گھروں میں اتنی جگہ ہی نہیں تھی کہ
غربت سے برآمد ہونے والی تلخی اوجھل ہو سکے۔ انتظار حسین کا افسانہ
’’قیوما کی دکان‘‘ تو اب ہماری اجتماعی یاد داشت کا حصہ بن چکا۔ یہ صرف
چھوٹے گھروں کا المیہ نہیں، قوموں پر بھی ایسا وقت آتا ہے جب والٹیئر کو
تخیلاتی قصبوں اور زمانوں کے قصے سنانا پڑتے ہیں یا میلان کنڈیرا کو پراگ
سے نکل کر پیرس میں پناہ لینا پڑتی ہے۔
بفضل خدا، ہم ایک آزاد اور جمہوری ملک میں رہتے ہیں جہاں دستور اور قانون
کی بالادستی قومی شعار ہے۔ صحافی کسی بھی حکمران کی بدعنوانی بے نقاب کرنے
میں آزاد ہیں۔ سیاسی کارکن بلاخوف جمہوری مکالمے میں حصہ لیتے ہیں۔ ہمیں
افسانوی کرداروں اور فرضی زمینوں سے غرض نہیں۔ ہمیں ٹھوس تاریخی حقائق اور
زمینی حقیقتوں کے بارے میں تحریر و تقریر کی مکمل آزادی ہے۔
کس طرح 1765 ءسے 1858ءتک ایسٹ انڈیا کمپنی نے کس طرح ہندوستان کا معاشی
استحصال کیا اور پھر اگلے نوے برس میں تاج برطانیہ نے اس لوٹ مار میں کیا
اختراعات پیدا کیں۔
حالیہ برسوں میں برطانوی تاریخ دان لکھتے ہیں کہ برطانیہ نے ہندوستان کی
حفاظت اور ترقی کا فرض محض انسانی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کیا۔
1997ء میں لارنس جیمز نے Raj: the Making and Unmaking of British India
لکھی۔
2003 میں نائل فرگوسن کی کتاب Empire: How Britain Made the Modern World
شائع ہوئی۔
2006ء میں شائع ہونے والی اینڈریو رابرٹس کی کتاب A History of the English
Speaking Peoples since 1900 تو مغرب میں دائیں بازو کے سیاست دانوں اور
دانشوروں کی بائبل بن چکی ہے۔
نک لائیڈ نے 2011 میں جلیانوالہ باغ کی خونچکاں داستاں ہی بدل ڈالی۔
اس کے جواب میں بھارتی دانشور ششی تھرور نے 2017ء میں Inglorious Empire:
Wha t the British Did to India کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔ مغربی دانشوروں
پر جانبداری اور یک طرفہ دلائل کا جو اعتراض کیا جاتا ہے، ششی تھرور پر بھی
اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان مصنفین نے اپنا مقدمہ جیتنے کے لئے حقائق کا من
مانا انتخاب کیا ہے۔
تاہم 2018 میں ممتاز ماہر معاشیات اوشا پٹنائیک نے کولمبیا یونیورسٹی سے
ایک زبردست تحقیق شائع کی جس میں 1765 سے 1938 تک ٹیکس اور تجارت کے تفصیلی
اعداد و شمار کی مدد سے ثابت کیا کہ
برطانیہ نے 173 برس کے عرصے میں ہندوستان سے 45 کھرب ڈالر کی لوٹ مار کی۔
یہ رقم برطانیہ کی موجودہ کل داخلی پیداوار سے بھی 17 گنا زیادہ ہے۔ اوشا
پٹنائیک نے سیاسی اور سماجی زاویوں کی بجائے خالص معاشی تجزیے کی مدد سے اس
وسیع پیمانے پر استحصال کے قانونی اور تجارتی ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا۔
اٹھارہویں صدی کے پہلے نصف میں برطانوی تاجر ہندوستانی باشندوں سے چاندی کے
سکوں کے عوض کپاس اور چاول خریدتے تھے۔
1757ء میں جنگ پلاسی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان سے مالیہ اور
محصولات کے نظام کی مدد سے تجارت پر اجارہ داری قائم کر لی۔ طریقہ کار یہ
تھا کہ ہندوستانیوں سے وصول کردہ محصولات کا قریب ایک تہائی ہندوستانی
مصنوعات کی خریداری پر صرف کیا جاتا تھا۔ گویا ہندوستانی محصولات کی صورت
میں جو رقم ادا کرتے تھے، اسی کے ایک تہائی کے بدلے اپنی مصنوعات بیچنے پر
مجبور تھے۔
1858 میں تاج برطانیہ نے ہندوستان پر عمل داری قائم کر کے ایک نیا ہتھکنڈہ
متعارف کروایا۔ ہندوستانیوں کو اپنی مصنوعات غیر برطانوی تاجروں کو بیچنے
کی اجازت دے دی گئی۔ تاہم اس خریداری کے لئے لندن میں خصوصی کرنسی نوٹ جاری
کئے جاتے تھے جنہیں غیر برطانوی تاجر سونے اور چاندی کے عوض خریدتے تھے۔
ہندوستانی تاجر یہ کرنسی نوٹ برطانوی حکومت کو واپس بیچتے تو انہیں
ہندوستانی روپوں میں قیمت ادا کی جاتی۔ یہ روپے ہندوستانی باشندوں کے ادا
کردہ محصولات ہی ہوتے تھے۔ اس طرح ہندوستان کی پوری پیداوار سونے اور چاندی
کی شکل میں لندن سرکار کے پاس پہنچ جاتی تھی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں
ہندوستان زبردست تجارتی منافع کے باوجود کاغذ پر خسارے میں چل رہا تھا
کیونکہ اصل منافع کی رسد تو لندن کے لئے بندھی تھی۔ الٹا یہ کہ اس مصنوعی
خسارے کے باعث ہندوستان کو برطانیہ سے قرض لینا پڑتا تھا۔ اس لوٹ مار سے
برطانیہ نے چین اور دوسرے ممالک میں جنگیں لڑیں جن کے اخراجات بھی
ہندوستانی محصولات سے ادا کئے جاتے تھے۔ ہندوستان سے لوٹی اسی دولت سے
کینیڈا اور آسٹریلیا کی یورپی نوآبادیوں میں سرمایہ کاری کی گئی۔ برطانیہ
بہادر نے محتاط اندازے کے مطابق پونے دو سو برس میں ہندوستان سے 44.6 کھرب
ڈالر کی لوٹ مار کی۔ اس دوران میں ہندوستانیوں کی فی کس آمدنی میں کوئی
اضافہ نہیں ہوا۔ 1920 تک ہندوستانیوں کی متوقع عمر میں 20 فیصد کمی واقع ہو
چکی تھی کیونکہ سامراجی پالیسیوں سے بار بار قحط پیدا ہوتا تھا۔ خدا نہ کرے
کہ کوئی قوم قبضہ گیری اور اجارے کا شکار ہو۔
|