پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بعدیہ بات اب کھل کرسامنے
آگئی ہے کہ کچے کے ڈاکوؤں سے اس دھرتی پراب کوئی محفوظ نہیں۔کچے کے
ڈاکوپہلے صرف عام لوگوں کونشانہ بناتے تھے لیکن اب انہوں نے عام لوگوں کے
ساتھ خاص لوگوں کوبھی نشانہ بناناشروع کردیاہے۔پنجاب پولیس کے بہادرجوانوں
کونشانہ بناکرکچے کے ڈاکوؤں نے ایک طرح سے یہ پیغام دے دیاہے کہ جوبھی قدم
ان کی طرف بڑھیں گے یہ ان قدموں کے ساتھ ایساہی سلوک کریں گے جیساسلوک ان
ظالموں نے پنجاب پولیس کے ساتھ کیا۔مٹھی بھرڈاکوؤں کے ہاتھوں ایک درجن
پولیس جوانوں کی شہادت یہ ہمارے منہ پرکسی طمانچے سے کم نہیں۔سوچنے کی بات
یہ ہے کہ اگرپولیس اہلکاراورقوم کے محافظ ان ڈاکوؤں سے محفوظ نہیں توہمارے
جیسے عام اورنہتے لوگ ان ظالموں اوردرندوں سے کیسے محفوظ ہوں گے۔۔؟عوام کی
جان،مال،عزت اورآبروکی حفاظت یہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن کچے کے
ڈاکوؤں کے معاملے میں ریاست تاحال اپنی یہ ذمہ داری پوری اور اداکرنے میں
ناکام نظرآرہی ہے۔کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے بے گناہ شہریوں کی شہادت
اوراغواء یہ نہ کوئی پہلاواقعہ ہے اورنہ کوئی آخری۔کہ اسے
بھلاکرنظراندازکردیاجائے۔کچے کے ڈاکوایک عرصے سے ریاست کے اندراپنی ریاست
قائم کرکے شہریوں کی جان،مال،عزت اورآبروسے کھیل رہے ہیں لیکن کوئی ان سے
پوچھنے والانہیں۔ان ظالموں اورخونی درندوں کے ہاتھ اورقدم اگرپہلے روک دیئے
جاتے توآج ہمیں یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔پولیس جوانوں کی شہادت والاواقعہ فوری
میڈیاکے ذریعے سامنے آیاتوہمارے حکمرانوں کوکچے والوں کے ان سیاہ وپکے
کرتوتوں کاکچھ پتہ چلاورنہ یہ واقعہ بھی کچے میں کہیں دب
جاناتھا۔میڈیاپراگریہ واقعہ سامنے نہ آتاتوہمارے حکمرانوں کوپھریہ خبربھی
نہ ہوتی کہ اس ریاست میں کچے والوں کی بھی کوئی ریاست ہے۔جدیدہتھیاروں سے
لیس کچے والے بدمعاش وبدقماش مونچھوں کوتاؤدیتے ہوئے ایک عرصے سے حکمرانوں
کی ناک تلے قتل وغارت،لوٹ ماراوراغواء برائے تاوان کی وارداتیں کررہے ہیں
لیکن ہمارے حکمران ٹس سے مس نہیں ہورہے۔پچھلے سال بقرعیدسے کچھ دن پہلے ان
لمبی لمبی مونچھوں والوں نے ہمارے آبائی ضلع بٹگرام کے تین غریب نوجوانوں
کوصادق آبادسے اغواء کیااورپھران کی رہائی کے بدلے ایک کروڑ سے زائدتاوان
کامطالبہ کیا۔ہمیں یادہے ان نوجوانوں کی بازیابی کے لئے جہاں بٹگرام میں
گھرگھردعائیں مانگی گئیں تھیں وہیں تاوان کی رقم پوراکرنے کیلئے کئی علاقوں
کی مساجدمیں چندے بھی کئے گئے تھے۔پھرتاوان کی ایک بھاری رقم لیکران
نوجوانوں کوزنجیروں سے آزادکرکے چھوڑاگیاتھا۔نہ جانے ان ظالموں نے ایسے
کتنے غریب نوجوانوں اوربچوں کے سروں پرغریب لوگوں سے بھاری تاوانیں وصول
کیں۔اﷲ جانتاہے کہ ان بدبختوں نے بھاری تاوان نہ دینے پرقوم کے کتنے
معصوموں کوزنجیروں کے ساتھ ہی اگلے جہان میں بھیجاہوگا۔معلوم نہیں آج بھی
زنجیروں اوربیڑیوں میں جھکڑے کتنے بدقسمت جوان ان درندوں کی قیدمیں شب
وروزگزاررہے ہوں گے۔ان ظالموں کے سامنے اورسائے میں جوبھی آیاوہ پھران سے
بچ نہ سکا۔کچے کے پورے علاقے کوانہوں نے اس ملک کے اپنے باسیوں کے لئے
نوگوایریابنادیاہے۔جوسلوک یہ درندے کچے کے علاقے میں اس ملک کے شہریوں
اورباسیوں کے ساتھ کررہے ہیں ایساسلوک اورکام توکسی دشمن ملک میں بھی
پاکستانیوں کے ساتھ نہیں ہوتاہوگا۔یہ ظالم نہ امیردیکھتے ہیں نہ غریب،ان کے
ہاں بوڑھے،بچے اورجوان میں بھی کوئی فرق نہیں۔انہیں بس ہروقت شکارکی تلاش
ہوتی ہے وہ چاہے کسی بھی رنگ ونسل میں ہو۔یہ نہ عام لوگوں کومعاف کرتے ہیں
اورنہ یہ خاص لوگوں کوچھوڑتے ہیں۔جوبھی ان کے ہتھے چڑھاوہ پھربیڑیوں
اورزنجیروں تک پہنچا۔ان ظالموں نے جال میں پھنسنے والے غریبوں پروہ وہ
مظالم ڈھائے ہیں کہ جسے دیکھ کرشیطان بھی شرم سے ڈوب مرجائے۔لوگ ان درندوں
کوڈاکوکہتے ہیں لیکن یہ ظالم صرف ڈاکونہیں بلکہ یہ دہشتگرداورانتہاء
پسندبھی ہیں۔ڈاکوصرف ڈاکہ مارتے ہیں لیکن یہ ظالم توڈاکے مارنے کے ساتھ
اچھے بھلے انسان بھی ماردیتے ہیں۔غریب،لاچاراورمجبورانسانوں کوبیڑیوں میں
جھکڑنے اورزنجیروں سے باندھنے والے ڈاکونہیں دہشتگرد،سفاک اورظالم ہوتے
ہیں۔پھرتاوان نہ دینے پرغریب مغویوں کوگولیوں سے بھوننے والوں کی درندگی
اوردہشتگردی میں تو شک کاکوئی شبہ بھی باقی نہیں رہتا۔آج ان ظالموں نے ان
پولیس جوانوں کونشانہ بنایاکل کویہ اورپولیس اہلکاروں کونشانہ بنانے سے
گریزنہیں کریں گے۔ان کچے ڈاکوؤں کاپکاعلاج اب ضروری بہت ضروری ہے۔اب بھی
اگران کواسی طرح چھوڑاگیاتوپھرکل کوان سے کوئی نہیں بچے گا۔ان کے ہاتھوں
جام شہادت نوش کرنے والے پولیس اہلکاربھی آخرکسی کے بھائی ،باپ
،شوہر،چاچے،بھتیجے اوربوڑھی ماؤں کی آنکھوں کی ٹھنڈنک اورنورنظرہوں گے۔ان
کے بھی تومعصوم اورچھوٹے چھوٹے بچے گھروں میں ان کی راہ تک رہے ہوں گے۔ان
ظالموں کی وجہ سے آخرکب تک آبادگھرویران اورماؤں کی گودیں اجڑتی رہیں
گی۔۔؟ہم کب تک تاوانوں پرتاوان دیتے اورجنازے اٹھاتے رہیں گے۔کچے
کاپوراعلاقہ اب ان دہشتگردوں سے آزادکراناہوگا۔ان درندوں کی پشت پرچاہے
جوبھی ہوں۔ان کے سہولت کارجہاں کہیں بھی ہوں۔تاوان کی رقم سے حصے چاہے جن
میں بھی تقسیم ہوتے ہوں۔ان کے پاس جدیداسلحہ اورہتھیارجہاں کہیں سے بھی آتے
ہوں۔ان سب باتوں اورسوالات کے باوجودجلدسے جلدان درندوں کومنطقی انجام تک
پہنچانایہ نہ صرف ریاست کی ذمہ داری ہے بلکہ ہمارے حکمرانوں پرفرض کے ساتھ
قرض بھی ہے۔کچے کے مٹھی بھرمونچھوں والوں نے ریاستی رٹ کوعرصے سے چیلنج
کیاہواہے۔یہ آخرریاست ہے یاکوئی بناناری پبلک کہ گنتی کے چندغنذے بھی ہم سے
کنٹرول نہیں ہورہے۔
|