26اگست کو پورے بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔ بلوچ لبریشن آرمی نامی
(بی ایل اے) کالعدم تنظیم نے اِس کی ذمہ داری قبول کرلی۔اِس کے دہشت گرد وں
نے بلوچستان کی سڑکوں پر قبضہ کیا۔ فوجی اور نیم فوجی اداروں کے کیمپوں پر
حملہ کیا۔ بے گناہ لوگوں کوبسوں سے اُتارکر قتل کیا۔ ریلوے کے پُل اور
گاڑیوں کوتباہ کرکے بلوچستان کاباقی ملک سے رابطہ منقطع کردیا۔ 20گھنٹوں کی
اِن دہشت گردانہ کارروائی میں 54سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں سکیورٹی
فورسزکے 14جوان بھی شامل تھے۔ یہ حملے ایک طے شدہ سازش کے تحت بی ایل اے کے
150سے زائد دہشت گردوں نے کیے جسے کم سے کم الفاظ میں پاکستان کی سیکیورٹی
ایجنسیوں کی ناکامی ہی کہاجا سکتاہے۔ کون نہیں جانتا کہ بی ایل اے کے دہشت
گرد بلوچستان کے طویل پہاڑی سلسلوں میں چھپے ہوئے ہیں جہاں سے اُترکر وہ
دہشت گردی کرتے اور پھر پہاڑوں میں چھُپ جاتے ہیں۔ یہ بھی سبھی جانتے ہیں
کہ اِن دہشت گردوں کو بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ اِس
میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاک فوج کے جوان چومُکھی لڑائی لڑتے ہوئے نہ صرف
وطنِ عزیزکی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ بی ایل اے، بی ایل ایف، ٹی ٹی
پی اور اُن جیسی دوسری دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اپنی جانوں کے نذرانے پیش
کرتے رہتے ہیں۔ سوال مگریہ ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں سے کہاں چوک ہوئی جو
26اگست کواِن دہشت گردوں نے بلوچستان کوخونم خون کردیا۔ یقیناََ دہشت گردی
کایہ منصوبہ ایک دن میں تو نہیں بنا ہوگا کیونکہ بلوچستان کی تاریخ میں یہ
پہلا موقع ہے جب پورے بلوچستان کوگھیر لیا گیا۔ آخر ہماری ایجنسیاں اِس
خوفناک منصوبے سے لاعلم کیوں رہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق تمام دہشت گردوں کوواصل جہنم کردیا گیا۔ یہ حملہ
بلوچستان کا باقی ملک سے زمینی اور ریلوے رابطہ ختم کرنے کے لیے کیاگیا۔
لازمہئ انسانیت سے تہی اِن دہشت گردوں نے نہتے شہریوں، خواتین اور بچوں کے
خون سے ہولی کھیلی۔ حیرت یہ ہے کہ انسانی حقوق کی بزعمِ خویش علمبردار
خواتین، ایمان مزاری، ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کواِن معصوموں کے خونِ ناحق پر
مذمت کی توفیق کیوں نہ ہوئی اور نہ ہی لبرلز کی طرف سے افسوس کا اظہار ہوا۔
چاہے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے والی یہ تنظیمیں تو کسی معمولی واقعے
پرتلواریں سونت کرباہر نکل آتی ہیں لیکن اتنے بڑے سانحے پرانہوں نے چُپ
کاروزہ رکھا ہوا ہے۔
اِس دہشت گردی میں تاک تاک کر پنجابیوں کونشانہ بنایا گیا۔ اُنہیں پہلے
بسوں سے اُتارکر اُن کی شناخت کی گئی اور پھر شہید کردیا گیا۔ اِس سے پہلے
بھی بلوچستان میں یہ دہشت گرد تنظیم پنجابیوں کوشہید کرتی رہی ہے۔ اُن
کامقصد صرف پنجابیوں کو طیش دلاکر لسانی آگ کو ہوادینا ہے۔ ہم مگرصبر
کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ ہم صرف پاکستانی ہیں اور پاکستان ہماری
دھرتی ماں۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ معصوم بلوچ اُتنے ہی محبِ وطن ہیں جتناکہ
کوئی اوراِس لیے اِن دہشت گردوں کا لسانی فسادات کایہ مکروہ منصوبہ ان شاء
اللہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ تحریکِ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور بی ایل ایف
سبھی پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیمیں ہیں جنہیں کیفرِکردار تک پہنچانا
ہمارا اولین فرض۔
اِس دہشت گردانہ کارروائی میں خواتین نے بھی حصہ لیا جن میں ماہل بلوچ نامی
تُربت یونیورسٹی کی ایل ایل بی کی 23سالہ خودکُش بمباربھی تھی۔ اِس خودکُش
بمبارکا کیس ہمارے نظامِ عدل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے لمحہئ
فکریہ ہے۔ فوجی کیمپ کونشانہ بنانے والی ماہل بلوچ کو 2023ء میں ہمارے
سیکیورٹی اداروں نے گرفتار کیاتھا۔ اُس پرالزام تھا کہ وہ خودکُش بمبارہے
اور اُس سے خودکُش جیکٹ بھی برآمد ہوئی ہے۔ تب انسانی حقوق کی تنظیمیں ماہل
بلوچ کے حق میں احتجاج کرتی ہوئی باہر نکل آئیں۔ اُس کی گرفتاری پرعالمی
سطح پربھی مظاہرے کیے گئے لیکن سیکیورٹی ادارے اپنے مؤقف پرڈٹے رہے کیونکہ
اُن کے پاس ثبوت موجود تھے۔ یہ ہمارا نظامِ انصاف ہی تھاجس نے اُس خودکُش
بمبارکو باعزت بَری کردیا۔ آج اُس خودکُش بمبارکو باعزت بری کرنے والے قوم
کوکیا جواب دیں گے۔ پوری قوم کے لیے یہ بھی لمحہئ فکریہ ہے کہ سیکیورٹی
فورسزکی مختلف کارروائیوں میں ایسے دہشت گردبھی مارے گئے جنہیں ”مِسنگ
پرسنز“ کالبادہ اوڑھایا گیا تھا۔ ہم خوداِس امرکے قائل ہیں کہ اگرکوئی شخص
ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہے تواُسے غائب کرنے کی بجائے قانون کے کٹہرے
میں لایا جائے۔ سوال مگریہ ہے کہ ایک طرف تووہ لوگ اپنا گھربار چھوڑ کربی
ایل اے میں شامل ہوگئے جبکہ دوسری طرف اُن کے عزیزواقرباء اُنہیں مسنگ پرسن
قرار دے کر سڑکوں پربیٹھ گئے، اُن کی شناخت کیسے ہوگی کہ کون دہشت گردہے
اور کون معصوم؟۔ اب ہمارے ریاستی ادارے یہ ہوشربا حقائق سامنے لارہے ہیں کہ
ملک دشمن بی ایل اے دراصل سی پیک کے ترقیاتی منصوبوں کو ثبوتاژ کرنا چاہتے
ہیں۔ وہ سڑکوں اور شاہراہوں کوتباہ کرکے صوبے کی ترقی کو بربادیوں میں
دھکیلنا چاہتے ہیں۔ یہ بالکل درست ہے کہ بی ایل اے علیحدگی پسندوں کی ایک
ایسی تنظیم ہے جوکبھی بھی متحدہ پاکستان کے حق میں نہیں رہی۔ یہ تنظیم 70کی
دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹوکے پہلے دَورِحکومت میں وجود میں آئی اورتب سے
پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد کررہی ہے۔ صرف جنرل ضیاء الحق کے دَورمیں
مذاکرات کے نتیجے میں کچھ عرصے تک یہ تنظیم پس منظرمیں چلی گئی۔ 2006ء میں
حکومتِ پاکستان نے اسے کا لعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ بعدازاں
امریکہ نے بھی اسے عالمی دہشت گرد تنظیم قراردے دیا۔ اب یہ تنظیم بھارت سے
نہ صرف فنڈز حاصل کرتی ہے بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ سے تربیت بھی حاصل
کرتی ہے۔ بھارت کوسی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ کسی صورت قبول نہیں، بھارت
سمیت دنیا کی نظریں اُس گوادر پر ٹکی ہوئی ہیں جسے 8ستمبر 1958ء کو اُس وقت
کے وزیرِاعظم فیروزخاں نون نے 5ارب 50کروڑ روپے (جواُس وقت کے 2ارب ڈالر
تھے) کے عوض سلطنتِ اومان سے خرید کر پاکستان میں شامل کیا تھا۔ اب بی ایل
اے ایک سازش کے تحت خصوصی طورپر چینی انجینئرز کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اگست
2018ء میں بلوچستان میں چینی انجینئرز پرحملے ہوئے، نومبر 18ء میں کراچی
میں چینی قونصلیٹ پرحملہ ہوااور مئی 2019ء میں پرل کانٹیننٹل پر حملوں کی
ذمہ داری اِسی تنظیم نے قبول کی۔ 26مارچ 2024ء کوخودکُش بمبار نے بارود سے
بھری گاڑی قراقرم کی مرکزی شاہراہ پرداسوڈیم پر کام کرنے والے چینی
انجینئرز کی گاڑیوں کے قافلے سے ٹکرادیا جس سے 5چینی انجینئر اور اُن کے
ڈرائیور کی موت ہوگئی۔ اِس سے پہلے 20مارچ کو گوادرپورٹ اتھارٹی کمپلیکس
میں بی ایل اے کے دہشت گردوں نے داخل ہونے کی ناکام کوشش کی۔ اِس کمپلیکس
میں چینی شہریوں اور انجینئرز کی رہائش گاہیں ہیں۔ اِس ناکام حملے کے بعد
ہی داسوڈیم پرکام کرنے والے چینی انجینئرز کی گاڑی پرخودکش حملہ ہوا۔ یہ
بھی لمحہئ فکریہ کہ جہنم واصل ہوئے دہشت گردوں سے جواسلحہ برآمد ہوا وہ وہی
ہے جوامریکی افواج افغانستان میں چھوڑ گئی تھیں۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ بی
ایل اے کے ٹی ٹی پی سے بھی رابطے ہیں۔
|