درباری، ہمارے حکمران اور افسر شاہی!

مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ اسے ہمیشہ خوشامدیوں چاپلوسوں درباریوں نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا تو دشمن اسلام نے بھی نہیں پہنچایا مغلیہ دور اور دیگر کئی ادوار میں چن چن کر ایسے افراد کو بادشاہ اپنے دربار کی زینت صرف اس لیے بنائے رکھتے تھے تاکہ وہ ان کی خوب مدح سرائی کریں۔

پاکستان بننے کے بعد بدقسمتی سے مغلیہ ادوار کی یہ بیماری ہمارے حکمرانوں سیاستدانوں جرنیلوں افسرشاہی میں بھی سرایت کر گئی اور آئے روز اس میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے یہ درباری لوگ جو امن کمیٹیوں اور دیگر ناموں سے ہمیشہ سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہیں اور اکثر اوقات تعریف کہ وہ القابات استعمال کرتے ہیں کہ سننے والوں کو بھی شرم سی محسوس ہونے لگتی ہے لیکن مدح سرائ کی کیونکہ روزی روٹی اسی سے وابستہ ہے اس لیے اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں اور کیا ماحول بن رہا ہے

ہمارے ملک کا حکمران طبقہ، بیوروکریسی، عوامی نمائندے، سرکاری افسران آج کل ایسے ہی لوگوں کے حصار میں ہیں جس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ عوامی مسائل ارباب اختیار تک پہنچنے سے پہلے ہی دفن ہو جاتے ہیں ۔

ہمارا شہر ڈیرہ اسماعیل خان بھی آج کل ایسے ہی درباریوں کی وجہ سے روز افزوں بد امنی دہشت گردی گرانفروشوں سود خوروں رشوت خوروں کے نرغے میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں پولیس لائن ڈیرہ میں ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں پر پولیس کے اعلیٰ افسران موجود تھے لیکن تمام وقت درباریوں نے صرف اور صرف سب اچھا ہے کی رپورٹ اور تعریفوں کے پل باندھنے میں ضائع کر دئیے جس کے باعث مجھ سے ایک زمیندار نے گلا کیا کہ یہاں چاپلوسی کے سوا کوئی تعمیری بات نہیں ہوتی لوگوں کا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں ۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی ایسے ہی درباریوں کے نرغے میں ہے راقم کو اکثر ایسے اجلاسوں میں یا تو بلایا ہی نہیں جاتا اگر غلطی سے بلالیا جائے تو میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا عوامی مسائل پر بات کرنے کی جس کے باعث اگلے پروگرام میں بلانے سے اعتراز کیا جاتا ہے۔

ایسی صورتحال تقریبا پورے پاکستان خصوصا خیبر پختونخوا میں ہے ہمارے عوامی نمائندے جو اپنے آپ کو عوامی کہتے نہیں تھکتے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ہی ووٹروں اورعوام سے کتراتے ہیں اپنی کرپشن کے باعث عوام کو فیس نہیں کر سکتے۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین خان گنڈاپور جن کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اپنی وزارت اعلیٰ کے دن سے شاذ و نازرہی اپنے حلقے میں تشریف لاتے ہیں گزشتہ دنوں ان کی آمد ہوئی سرکٹ ہاو ¿س میں برائے نام عوامی اجتماع کا اکٹھ کیا گیا جو کہ تمام نوجوان پی ٹی آئی کے کارکن تھے ڈیرہ کے اکثر صحافی تاجر نمائندے اور درد دل رکھنے والے اس سے محروم رہے۔

چاہیے تو یہ تھا کہ وہ کھلی کچہری کا اہتمام کرتے ان کے شہر میں کرپشن بدامنی اقربائ پروری بے روزگاری کا جو حال ہے اس کے بارے میں شکایات سنتے ان کا ازالہ کرتے، گومل یونیورسٹی ان کی سرپرستی بلکہ صوبےکی 23 یونیورسٹیاں مستقل وی سی کی تعیناتی نہ ہونے کے باعث زبوں حالی کا شکار ہیں، گرانٹ نہ ملنے کے باعث پنشنر اور ملازمین تنخواہوں سے مرحوم ہیں اوپر سے عوامی نمائندوں اور حکمرانوں کی آشیر باد سے دھڑا دھڑ ناجائز میرٹ کے خلاف بھرتیاں ہو رہی ہیں تعلیمی معیار کا بیڑا غرق ہے ایسا ہی حال صوبے کی کئی ٹی ایم اوز کا ہے بلدیہ واسا کے ملازمین کئی کئی ماہ کی تنخواہوں سے محروم ہیں۔ان کی فریاد کوئی سننے کو تیار نہیں ہے،

گزشتہ دنوں ڈیرہ بلدیہ کے ملازمین نے احتجاج کیا تو ان کے خلاف ایف ائی آر درج کر لی گئیں۔بے قاعدگیوں اقربائ پروری لوٹ مار کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہے لیکن کس کو دہائی دی جائے آوے کا آوا ہی خراب ہو چکا ہے ہمارا ملک جب تک احتسابی ایماندارانہ نظام کے تحت نہیں آتا درباریوں اور خوشامدیوں کے نرغے میں ہی رہتا ہے تو ترقی اور کرپشن کے خاتمے کی باتیں کرنے سے حالات بہتر نہیں ہوں گے صرف چور چور کے نعرے لگانے سے چوری ختم نہیں ہوگی بلکہ سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ میں بحیثیت سرکاری افسر نمائندے کے کتنی کرپشن چوری میں ملوث ہوں آج ملک میں جتنی مایوسی افراتفری ہے اتنی تاریخ میں نہیں ملتی لیکن ہمارے حکمران سب اچھا کا راگ الاپتے رہتے ہیں کیونکہ ہمارے درباری اور ایجنسیاں انہیں ایسی ہی رپورٹ دیتی ہیں،

اس ناگفتہ بہہ صورتحال کے باعث ہمارے مرکزی و صوبائی ادارے تباہی کے دہانے پر ہیں ہماری اسمبلیوں میں عوامی حقوق کے لیے ان کے مسائل مہنگائی کے خاتمے کے لیے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے اگر کوئی شیر نوجوان یا جماعت تنظیم مسائل کے حل اور ارباب اختیار تک اپنی فریاد پہنچانے کے لیے کوئی مظاہرہ تحریک اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے منعقد کرتی ہے تو ڈنڈے کے زور پر ایسی کاروائی کی جاتی ہے کہ اللہ کی پناہ ،

جان بوجھ کر شاید ملک میں کینیا ، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے حالات پیداکیے جارہےہیں تلاش ہے تو صرف اس مرد جوان مجاہد کی جو صرف اور صرف ظلم اور ظالم کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے کے لیے میدان عمل میں آئے مظلوموں مہنگائی اقرباء پروری بے روزگاری کرپشن کی چکی میں پسی ہوئی 25 کروڑ عوام میں سے ایک تہائی اس کا ساتھ دینے کو تیار ہے۔

درباریوں اور خوشامدیوں میں اہل قلم حضرات بھی اپناحصہ ڈالنے میں مصروف ہیں پہلے صرف شعرائ حضرات کثیدے اور مدح سرائی میں مصروف تھے لیکن اب الیکٹرانک پرنٹ میڈیا،کالم نگاروں اور شوشل میڈیانے بھی یہ کام سنبھال رکھا ہے،پورے پورے چینل اخبارات کے مالکان ،کالم نگاروں کو خرید کراپنی مدح سرائی کے لئے استعمال کیا جاتاہے۔خاص کر الیکٹرنک میڈیا کے کئی چینلز پر مختلف سیاسی جماعتوں کی چھاپ لگ چکی ہےکہ فلاں چینل پی ٹی آئی کا ہے فلاں مسلم لیگ اور فلاں پیپلز پارٹی کا ہے،پرنٹ اور سوشل میڈیا کے مالکان اور صحافیوں کا یہی حال ہے اس کٹھن کے ماحول میں جب داد رسی اور مظلوم کی فریاد سننے والا کوئی نہ ہوتوپھر خدا ظالم کا ہاتھ روکنے کے لئے ہر دور میں مجاہد پیدا کرتاہے جو کلمہ حق بلند کرنے میں اپنی تمام تر توانائیوں اور قربانی کو استعمال کرتا ہے۔
 

Sohail Aazmi
About the Author: Sohail Aazmi Read More Articles by Sohail Aazmi: 183 Articles with 156807 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.