پرائیویٹائزیشن اور قومی سلامتی – ایک خطرناک فیصلہ؟

پاکستان کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے حکومتیں وقتاً فوقتاً بڑے قومی اداروں کو پرائیویٹائز کرنے پر غور کرتی رہی ہیں۔ ان اداروں میں پی آئی اے، ریلوے، اور سٹیل ملز جیسے بڑے اثاثے شامل ہیں، جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔ پرائیویٹائزیشن کے حامیوں کا موقف ہے کہ ان اداروں کی ناقص کارکردگی اور مالی خسارے کو دور کرنے کا بہترین حل انہیں نجی اداروں کے سپرد کرنا ہے، کیونکہ نجی سیکٹر بہتر منیجمنٹ اور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پرائیویٹائزیشن محض ایک معاشی مسئلہ ہے یا اس کے گہرے سیکیورٹی اور قومی خودمختاری کے خطرات بھی ہیں؟

#### اسٹریٹیجک اثاثے اور قومی سلامتی

پی آئی اے، ریلوے اور دیگر اہم ادارے نہ صرف تجارتی مقاصد کے حامل ہیں بلکہ قومی دفاع اور سلامتی میں بھی ان کا کردار کلیدی ہے۔ پی آئی اے جیسی ایئرلائن اور ریلوے جیسے ادارے ہنگامی حالات میں فوجی نقل و حرکت اور عوامی سروسز کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اگر یہ ادارے کسی غیر ملکی یا نجی کمپنی کو منتقل کیے جاتے ہیں، تو اس بات کا خطرہ ہے کہ قومی سلامتی کے حوالے سے حساس معلومات یا انفراسٹرکچر تک غیر متعلقہ اداروں کی رسائی ہو جائے۔

جب بڑے ادارے نجی سیکٹر کے حوالے کیے جاتے ہیں، تو وہ عموماً منافع کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیا یہ ممکن ہے کہ وہ قومی مفادات کو پس پشت ڈال دیں؟ قومی اثاثے کسی غیر ملکی ادارے کے پاس جائیں تو یہ خطرہ اور بھی بڑھ جاتا ہے، کیونکہ وہ ملک اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کر سکتا ہے، جو پاکستان کی سیکیورٹی اور خودمختاری پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

#### معاشی انحصار اور خودمختاری

معاشی خودمختاری کسی بھی ملک کی آزادی کا لازمی جزو ہوتی ہے۔ جب قومی اثاثے غیر ملکی یا نجی اداروں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں، تو ملک کی معیشت اور فیصلہ سازی پر ان اداروں کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر پی آئی اے جیسے ادارے کو کسی غیر ملکی ملک کے کنٹرول میں دے دیا جائے، تو اس سے ملکی ہوائی سفر کی پالیسی پر بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔

مزید یہ کہ، بڑے اثاثوں کی نجکاری سے مقامی ملازمین کی نوکریاں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ نجی ادارے منافع کی دوڑ میں ملازمین کی تعداد کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

#### فوجی نگرانی – ایک ممکنہ حل؟

ایک تجویز جو اکثر دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ان اہم قومی اثاثوں کو فوج کی نگرانی میں دیا جائے تاکہ ان کو بہتر انداز میں چلایا جا سکے۔ بلاشبہ، پاکستانی فوج کے پاس بہترین منظمیت اور وسائل کی صلاحیت موجود ہے، اور ماضی میں فوج نے کچھ اداروں کو بہتر طریقے سے چلایا بھی ہے۔ لیکن کیا فوج کا ہر شعبے میں مداخلت کرنا ملکی جمہوریت اور سول اداروں کے لیے بہتر ہوگا؟

یہ درست ہے کہ فوج ان اثاثوں کو بہتر طریقے سے چلا سکتی ہے، لیکن طویل المدتی پالیسی کے طور پر فوجی نگرانی ممکنہ مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ فوج کا بنیادی کام قومی دفاع ہے، جبکہ تجارتی اور معاشی اداروں کو چلانے کے لیے پیشہ ورانہ اور تجارتی مہارتیں درکار ہوتی ہیں۔ اگر فوج ہر بڑے ادارے کو اپنے کنٹرول میں لیتی ہے، تو یہ جمہوری اداروں کی طاقت میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔

#### نتیجہ

پرائیویٹائزیشن کا فیصلہ ایک بہت ہی حساس اور اہم مسئلہ ہے، جس پر غور کرنے سے پہلے ملکی مفادات، قومی سلامتی، اور عوامی حقوق کو مد نظر رکھنا لازمی ہے۔ اگرچہ قومی اثاثوں کو بہتر طور پر چلانے کی ضرورت ہے، لیکن پرائیویٹائزیشن کے فیصلے سے پہلے اس کے تمام ممکنہ نتائج کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ معاشی بہتری کی خواہش میں ہمیں قومی خودمختاری اور سلامتی کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے۔

پاکستان کو ایسی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے جس میں قومی اداروں کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سیکیورٹی اور معاشی انحصار کو بھی برقرار رکھا جا سکے۔ پرائیویٹائزیشن ایک آپشن ہو سکتی ہے، لیکن اس کو قومی مفادات کی روشنی میں بہت احتیاط سے بروئے کار لانا چاہیے۔
 acac

Salma Rehman
About the Author: Salma Rehman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.