ننکانہ کے کسی کارخانہ میں اچانک ایک مرکزی مشین بندہونے
سے پیدوارمیں عارضی طورپررکاوٹ پیدا گئی ،اس صورتحال سے پریشان مالکان اس
کی مرمت کے دوران مزید ہلکان ہوجاتے ہیں لیکن مقامی ہنرمندافراد کوآزمانے
اورمختلف جگاڑ لگانے کے باوجود انہیں کامیابی نصیب نہیں ہوتی جس
پرباامرمجبوری ایک پروفیشنل انجینئر کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیاجاتا
ہے ۔اگلے روز انجینئر آتااور اپنے کام کی فیس بتاتا ہے، سیٹھ کے ساتھ ڈیل
طے ہوجانے کے بعد انجینئر نے وہاں پڑی ایک ہتھوڑی سے بندمشین کے مخصوص مقام
پرایک ہلکی ضرب لگا ئی تو وہ چل پڑی ۔اس کاروائی میں محض چندسیکنڈ کاوقت
لگا ہوگا لیکن بھاری بل دیکھنے کے بعد مالکان کے اوسان خطاء ہوگئے جس پربڑا
سیٹھ اُس انجینئر سے کہتا ہے ایک ضرب لگانے کیلئے یہ رقم کچھ زیادہ نہیں
توانجینئر نے جواب دیا یہ ضرب لگانے کانہیں بلکہ کہاں اور کس شدت کے ساتھ
ضرب لگانی تھی اُس کابل ہے ۔ ہماری قومی سیاست میں کئی سیاستدان نظام
پرکاری ضرب لگانے کیلئے جارحانہ بیانات اوردھرنے دیتے ہیں لیکن آصف علی
زرداری کے سوادوسراکوئی نہیں جانتا نظام کی لگام کھینچنے اور مقتدراشرافیہ
کازورآوری کاپہیہ جام کرنے کیلئے ضرب کس وقت ، کتنی شدت کے ساتھ اورکہاں
لگانی ہے ۔عہدحاضر میں کوئی حکمران یازیرک سیاستدان "ڈھیل "اور"ڈیل" کے
بغیراپنے سیاسی رقیب کاراستہ بند اور اپناکوئی اہم ہدف حاصل نہیں کرسکتا
۔وطن عزیز کے دوسرے سیاسی قائدین کی طرح صدر مملکت آصف علی زرداری بھی
خوبیوں اورخامیوں کامجموعہ ہیں لیکن قومی سیاست میں ان کاکوئی جوڑ اورکوئی
توڑ نہیں،ان کے" راج" میں ان کے حاکمانہ" مزاج" کابڑا ہاتھ ہے۔بحیثیت انسان
آصف علی زرداری کی اعلیٰ ظرفی ،نبض شناسی اورمردم شناسی نے انہیں اس مقام
تک پہنچادیا۔صدر مملکت اورپاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی
زرداری کے پاس "زر"اور"زور" بھی ہے لیکن وہ اپنے سیاسی "داؤ" سے مدمقابل
کوایساگہرا "گھاؤ"لگاتے ہیں جس سے وہ چاروں شانے چت ہوجاتا ہے ۔ آصف علی
زرداری کے طرز سیاست کوآپ ناپسنداوران پرتنقیدبھی کرسکتے ہیں لیکن جس طرح
پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت قومی سیاست کی نبض پرہاتھ اور جمہوریت کے
زخموں پرمرہم رکھتی ہے اس طرح دوسری پارٹیاں نہیں رکھتیں۔
ہماری قومی سیاست میں کئی قدآورسیاسی کرداربہت پراسرار ہیں لیکن اپنی
زبردست سیاسی بصیرت اورفہم وفراست کی بنیاد پر آصف علی زرداری اپنی ہم عصر
سیاسی قیادت میں سب سے منفرد اور ان سب سے مختلف ہیں۔انہیں دوسری بار صدر
مملکت منتخب ہونے کاقابل فخراعزاز حاصل ہے۔ایک طرف آصف علی زرداری کامنصب
صدارت وفاق کی "علامت "ہے جبکہ دوسری طرف سیاسی پنڈت انہیں مسلم لیگ (ن) کے
ناتواں اقتدار کی بقاء کی" ضمانت" قراردے ر ہے ہیں۔وہ مرکز اورپنجاب میں
حکمران جماعت کے اتحادی ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی ناکامی اوربدترین بدنامی
کابوجھ اٹھانے کیلئے ہرگز تیار نہیں۔ صدر مملکت آصف علی '' زرداری '' کے
طرز سیاست اورفلسفہ مفاہمت کو سمجھنا ہو تو '' رازداری '' کے رموز اور اس
میں پنہاں رازوں پر غور کرنا ہوگا،وہ اپنے ارادوں کواداروں سمیت ہرکسی
پرظاہر نہیں کرتے ،وہ جانتے ہیں اگر بولنا ہے توپھرتولنا ہوگاکیونکہ
جوزیادہ بولتا ہے وہ زیادہ ڈولتا ہے۔وہ اس راز"کہاں کیابولنا ہے"سے بخوبی
آگاہ اورسیاست کی درسگاہ ہیں ۔قومی سیاست میں مفاہمت کے روح رواں آصف علی"
زرداری" کی کامیابی کاراز "رازداری" میں پنہاں ہے ۔صدر مملکت آصف علی
زرداری کا سیاسی فلسفہ اہل سیاست اور اہل صحافت کیلئے آج بھی ایک معمہ
بناہواہے۔آصف علی زرداری کا زندان سے پارلیمان اور ایوان صدر تک پہنچنا ان
کی سیاسی لیاقت اوراستقامت کا طرہّ امتیاز ہے، آج وہ بادشاہ اور بادشاہ گر
بھی ہیں۔ جاوید ہاشمی نے بھی ایک بار آصف علی زرداری کے طرز سیاست پر تبصرہ
کرتے ہوئے کہا تھا جس نے زرداری کی سیاست کوسمجھنا ہواسے پی ایچ ڈی کرنا
ہوگی، میں سمجھتا ہوں عہد حاضر کے سیاستدانوں کو سائیں سے سیاسی گر سیکھنے
کی ضرورت ہے۔
آصف علی زرداری کو ماضی میں کئی بار قیدوبنداورزندان میں زبان کاٹے جانے
سمیت تشدد کا بھی سامنا کرناپڑا ،انہوں نے بحیثیت سیاستدان نشیب وفراز بھی
دیکھے لیکن وہ جس روز سے میدان سیاست میں اترے ہیں اس دن سے آج تک انہوں نے
پیچھے مڑکرنہیں دیکھا ۔شدیدترین تنقید برداشت کرنے کاجو ظرف اورحوصلہ آصف
علی زرداری میں ہے وہ کسی دوسرے سیاستدان میں نہیں۔وہ "حاکم" علی زرداری کے
فرزندارجمندہیں اسلئے "حاکمیت "اور"حکمت "ان کے ڈی این اے میں ہے اورانہیں
حکومت تک رسائی کاراستہ تلاش نہیں کرناپڑتا ۔ انہیں سیاست میں راستے اور
جمہوری قوتوں کے درمیان پل بنانے کا فن خوب آتا ہے۔ صدرمملکت آصف علی
زرداری اعتدال، استدلال اور استقلال سے اپنے سیاسی اہداف حاصل کرتے چلے
جارہے ہیں۔ وہ منتقم مزاج نہیں مستقل مزاج ہیں، انہیں سیاست میں انانیت اور
جذباتیت ہرگز پسند نہیں۔آصف علی زرداری کی ذات پر زوردار سیاسی حملے اور
انتہائی منفی جملے ایک طرف لیکن وہ بجا طورپروضع داری ، رازداری، رواداری
اور بردباری کے بل پر آج ایوان صدر میں براجمان ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اپنے
طویل سیاسی سفر میں ہمیشہ اپنے دامن کو نفاق کے داغ سے بچایا اور اپنے
ہاتھوں میں ہمیشہ وفاق کا پرچم اٹھایا۔ کئی سیاستدانوں کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ
کی آڑ میں اینٹی اسٹیٹ سیاست کرتے ہوئے دیکھا گیا لیکن بینظیر بھٹو کی
بینظیر شہادت کے بعد ملک بھر میں بھڑکنے والی آگ کوبجھانے کیلئے آصف علی
زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اورفیڈریشن کی مضبوطی کا روڈ میپ
دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی شروع سے مرکز کی سیاست کو اپنا محور و مرکز بنائے
ہوئے ہے،مرکز گریز سیاست کرنیوالے سیاسی بونوں نے ہمیشہ پیپلزپارٹی
کواپنامدمقابل پایا۔صدر مملکت آصف علی زرداری بظاہربہت زیادہ مقبول نہیں
لیکن وہ پاکستان کی مقتدراورجمہوری قوتوں کیلئے قابل قبول اور مسند صدارت
کیلئے نہایت موزوں اور معقول ہیں۔سیاست میں کامیابی وکا مرانی اورنیک نامی
کیلئے رواداری کی انگلی تھام کر رازداری کاراز سمجھنا ہوگا ۔سیاست میں
ہربات کاایک مخصوص وقت اورمقام ہوتا ہے۔امام علی علیہ السلام نے فرمایا تھا
،جوانسان اپنے اندر دوعادتیں پیداکرے گااسے کامیابی نصیب ہوگی۔ایک چپ رہنا
اوردوسرا درگزر کرنا کیونکہ خاموش رہنے سے بڑا کوئی جواب نہیں اور معاف
کردینے سے بڑا کوئی انتقام نہیں۔پیپلزپارٹی کی قیادت بھی ذوالفقارعلی بھٹو
اوربینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد خود کوانتقامی سیاست کی آگ میں جھونک سکتی
تھی لیکن ان کے نزدیک جمہوریت بہترین انتقام ہے ۔صدر مملکت آصف علی زرداری
آئینی اختیارات کے باوصف انتقامی نہیں انتظامی سیاست کااستعارہ ہیں۔
پیپلزپارٹی کے فاؤنڈر چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے مادروطن پاکستان
کو1973ء کامتفقہ آئین اورایٹمی پروگرام دیا جبکہ ملعون اورپلید قادیانیوں
کودائرہ اسلام سے ہمیشہ کیلئے نکال باہرکیا لہٰذاء اس جماعت میں آئین
اورامورِایوان کے متعدد ماہرین میاں رضاربانی ،فاروق ایچ نائیک ، شیری رحمن
،سلیم مانڈی والا،ممتازقانون دان سینیٹرشہادت اعوان اورنیئر حسین بخاری
اپنی قیادت کے ویژن اورپیپلزپارٹی کے فلسفہ جمہوریت کی روشنی میں ملک میں
پیداہونیوالے بحرانوں کازورتوڑنے اورسیاسی طوفانوں کارخ موڑنے کیلئے اپنا
تعمیری اورکلیدی کرداراداکرتے ہیں۔پاکستان کے دو شہیدوزرائے اعظم
ذوالفقارعلی بھٹو اوربینظیر بھٹو کے خون سے سیراب ہونیوالی پیپلزپارٹی
کوسمیٹ کررکھنا جبکہ ذہین وفطین بینظیر بھٹو کے معیار کودیکھتے ہوئے ان کے
جانشین بلاول بھٹو زرداری سمیت ان کے تینوں بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور بہترین
سیاسی تربیت کرنا آصف علی زرداری کا بہت بڑا کریڈٹ ہے۔بلاول بھٹو زرداری کی
شخصیت اورسیاست میں ان کے ماں باپ کی خوبیوں کے رنگ نمایاں ہیں ۔پیپلزپارٹی
کے چیئرمین بلاول بھٹو کی قائدانہ صلاحیت یقینا بینظیر بھٹو شہید کی نصیحت
اور سیاسی وصیت جبکہ آصف علی زرداری کی سیاسی تربیت کانتیجہ ہے۔
پیپلزپارٹی نے بھٹو خاندان سے باہر اپنے دوباوفااورباصفا رہنماؤں سیّد یوسف
رضاگیلانی اور عوامی سیاستدان راجا پرویزاشرف کووزیراعظم منتخب کیا جبکہ
مسلم لیگ (ن) نے باامرمجبوری شریف خاندان سے باہر شاہدخاقان عباسی کووزارت
عظمیٰ کامنصب دیاکیونکہ اس وقت میاں شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے اور
مسلم لیگ (ن) کے پاس ضمنی الیکشن میں جانے کاوقت نہیں تھا ۔پاکستان
پیپلزپارٹی کے ساتھ شروع دن سے وابستہ اور ملک میں جمہوریت کی آبیاری
اورپائیداری کیلئے کمربستہ عمائدین سندھ سے سیّدخورشید شاہ،لالہ موسیٰ
گجرات سے اجلے دامن والے سلجھے ہوئے سیاستدان اورقومی سیاست میں استدلال
اوراستقلال کے علمبردار قمر زمان کائرہ ، جنوبی پنجاب سے مخدوم
احمدمحمود،چیئرمین سینیٹ مخدوم سیّدیوسف رضاگیلانی،ایوانوں اورمیدانوں میں
پیپلزپارٹی کاپرچم لہرانے والی سنجیدہ اورفہمیدہ سیاسی شخصیت راجاپرویز
اشرف، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ،گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان،سینیٹر
شہادت اعوان ، پیپلزپارٹی پنجاب کے صوبائی جنرل سیکرٹری،نظریاتی اورنبض
شناس سیاستدان سیّد حسن مرتضیٰ،سیاسی جوڑتوڑ کے ماہرسابقہ وزیراعلیٰ پنجاب
میاں منظوراحمدوٹو اور نوید چوہدری ہرفورم پراپنی جماعت اور قیادت کے طرز
سیاست کابھرپوردفاع کر تے ہیں۔جہلم سے سابقہ ممبر پنجاب اسمبلی چوہدری
تسلیم ناصراقبال،ندیم افضل چن ، شہزادسعیدچیمہ ،منور انجم ،چوہدری اسلم گل
،عزیز الرحمن چن،جہانگیربدر کے فرزند ارجمند ذوالفقارعلی بدر ، رائیونڈ سے
چوہدری عبدالغفور خاں میو،مانچسٹر سے خواجہ کلیم ،کینیڈا سے چوہدری
تنویراحمد ، شہرقائدؒ سے شرجیل انعام میمن ،مرتضیٰ وہاب جبکہ صدر مملکت آصف
علی زرداری کی ازعزیز جاں باوقار ہمشیر اوربااعتمادمشیر بیگم فریال
تالپور،بینظیر بھٹو شہید کی تصویرآصفہ بھٹو زرداری،پراعتماد حنا ربانی کھر،
صدر مملکت آصف علی زرداری کی معتمد سیکرٹری برائے سیاسی اموربیگم رخسانہ
بنگش، قلم کاراورباکردار جہاں آراء وٹو ، پیپلزپارٹی کی مخلص و متحرک ممبر
پنجاب اسمبلی نرگس فیض ملک، سندھ سے باصلاحیت شازیہ مری اورفرزانہ راجا
سمیت چاروں صوبوں میں سرگرم بھٹو شہید کے سیاسی وارث مادروطن پاکستان،1973ء
کے متفقہ آئین ،ایوان ،جمہوریت اورپاکستانیوں کوبے وارث نہیں ہونے دیں
گے۔پاکستان میں جب جب جمہوریت پرشب خون مارا گیا توپیپلزپارٹی نے فوجی
آمروں کوللکارتے اورپچھاڑتے ہوئے ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے ناقابل
فراموش قربانیاں دیں جبکہ بھٹو شہید کے جانثار جیالے ضیائی آمریت اورپرویز
ی آمریت کے پرآشوب ایام میں کوڑوں اورقیدوبندکاسامنا کرتے رہے، پاکستان میں
جس جماعت اوراس کی قیادت نے دوسروں کے مقابلے میں" جمہوریت" کیلئے سب سے
زیادہ قربانیاں دیں وقت آنے پر اس کیلئے "جمہور"بھی اپنا بہت کچھ قربان کر
دیں گے ۔عقیدہ ختم نبوت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کاکوئی سچا محافظ قادیانیت
پرکاری ضرب لگانیوالے ذوالفقارعلی بھٹو شہید کے ساتھ بیوفائی نہیں کرسکتا
لہٰذاء پاکستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کاسیاسی مستقبل روشن ہے۔
|