وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے 15ویں اجلاس
میں تین میگاپراجیکٹس،اپنی چھت اپناگھر،چیف منسٹر گرین ٹریکٹر اور چلڈرن
ہارٹ سرجری پروگرام کی منظوری دیدی گئی،صوبائی کابینہ نے غیرقانونی اسلحہ
اورپتنگ بازی پر سزائیں اورجرمانے کو بڑھا دیا، پبلک اینڈ پرائیویٹ
سیکٹرمیڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے لئے ایم ڈی کیٹ پالیسی اور صوبے کی پہلی
پنجاب لائف انشورنس کمپنی،پاکستان میں پہلی مرتبہ پلاٹ کے ملکیتی پیپر اور
شناختی کارڈ کی کاپیپرہاسنگ لون جاری کرنے کی منظوری دی۔ 15لاکھ قرض لینے
والے کو 9سال میں 14ہزار روپے ماہانہ قسط ادا کرنی ہوگی، سکیم ریوالونگ فنڈ
میں تبدیل کر دی گئی - اضافی چارجزنہیں لیے جائیں گے، اپنا گھر پراجیکٹ کے
یونیفارم فرنٹ ڈیزائن کی منظوری دی گئی،۔ وزیراعلی نے سکرونٹی کا عمل آسان
کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنا چاہتے
ہیں،پانچ سال میں پانچ لاکھ گھر بنائیں گے۔ وزرا کو ہاسنگ لون کی پہلی قسط
خود جاکر دینے کی ہدایت بھی کی، گرین ٹریکٹر پروگرام کے تحت9500ٹریکٹر دینے
اور 50ایکڑ تک اراضی مالکان کو ہر ٹریکٹر پر 10لاکھ کی سبسڈی دینے کی
منظوری دی،20ستمبر سے آغاز،20اکتوبرکو قرعہ اندازی کی جائے گی۔ وزیر اعلی
نے کہا کہ 30ہزار ٹریکٹر دینا چاہتے ہیں۔اجلاس میں چیف منسٹر چلڈرن ہارٹ
سرجری پروگرام کی منظوری دی گئی۔ وزیراعلی نے بچوں کی زیر التوا12ہزار ہارٹ
سرجری جلدازجلد کرنے اور چلڈرن ہارٹ سرجری کیلئے انٹرنیشنل سرجنز کو مدعو
کرنے اور بچوں کے دماغی امراض کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کا حکم
دیا،کابینہ نے پنجاب آرمز آرڈیننس 1965 میں ترمیم اور جرم ناقابل ضمانت
قرار دیا ہے۔ اجلاس میں غیر قانونی اسلحہ اورمینوفیکچرنگ وغیرہ پر سزا تین
سے پانچ سال اورجرمانہ 5 سے 7 لاکھ کرنے اور کائٹ فلاننگ آرڈیننس2001کے تحت
پتنگوں کا سامان بنانے،ترسیل پر بھی سزائیں مقررکرنے کی منظوری دی گئی،
پتنگ بازی قید کی سزا، 2سے 5سال اور جرمانہ 20سے 50لاکھ تک ہوگا۔ چیف منسٹر
آفس میں اسسٹنٹ کمپٹرولر کی بھرتی کی درخواست اور پبلک ہیلتھ انجینئرنگ
ڈیپارنمنٹ کے کنٹریکٹ ملازمین کی ریگولرائزیشن، یونیورسٹی آف ایگریکلچر
فیصل آباد کے وائس چانسلر کی تعیناتی کیلئے سرچ کمیٹی کے قیام اور لٹریسی
اینڈ نان فارمل بیسک ایجوکیشن کے 583 پراجیکٹ ملازمین کے کنٹریکٹ میں سال
کی توسیع، پنجاب ویگرنسی آرڈیننس 1958 اورپروبیشن آف آفینڈرز آرڈیننس 1960
میں ترمیم، پنجاب ایگریکلچر فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کے ٹیکنیکل ممبر اور وائس
چیئرپرسن کی تقرری، سالانہ ترقیاتی پروگرام میں نئیترقیاتی سکیمیں شامل
کرنے،پنجاب ورکرز ویلفیئر فنڈ کی گورننگ باڈی کی تشکیل نو اور خواجہ محمد
صفدر میڈیکل کالج کے کنٹریکٹ ملازمن کی تنخواہوں کی ادائیگی،میر چاکر خان
رند یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ڈیرہ غازی خان اور پنجاب یونیورسٹی آف
ٹیکنالوجی رسول منڈی بہاوالدین کے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لئے سرچ
کمیٹیوں اور پنجاب بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی
تعیناتی کے لئے سفارشات،پنجاب پنشن فنڈکے جنرل منیجر کی تعیناتی، پنجاب
آرٹیریل روڈز امپرومنٹس پروگرام اور سی ای او لاہور نالج پارک کمپنی کے
استعفے، چیئرمین ڈرگز کورٹس پنجاب کے لئے سیٹلمنٹ ٹرمز اور 4 ٹیکنیکل
ایکسپرٹ کی بطور ممبر انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب کی تعیناتی کی
بھی منظوری دی گئی،وزیر اعلیٰ نے پبلک سکولز ری آرگنائزیشن پروگرام کا بھی
افتتاح کر دیا، جس سے 40ارب روپے کی بچت، 70ہزار تعلیم یافتہ نوجوانوں کے
لئے روزگارمیسر آئے گا،لاہور کے بعد دیگر اضلاع میں کنڈرگارٹن سکول بنانے
کا اعلان بھی کیا اور پروگرام کے لائسنس تقسیم کیے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے
مریم نواز نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وزیر نے نصابی کتب کے پیپر کا سائز چھوٹا
کرکے ایک ارب روپے کی کرپشن کی، نیب کیس بنانا چاہیے۔ پانچ سال تک پنجاب
میں کرپشن کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ ٹرانسفر پوسٹنگ اقرباء پروری کی بنیادو ں
پر کی جاتی تھی۔پانچ سال عقل مندوں کی حکومت رہی ہوتا کچھ نہیں تھا سوائے
کرپشن کے۔ آؤٹ سورس سکولوں میں نصاب حکومت پنجاب کا ہوگا اور مانیٹرنگ بھی
حکومت پنجاب کرے گی، تمام سکول فائیو سے آٹھ کلاس اپ گریڈ ہوجائیں گے،
پرائیویٹ سکولوں جیسی سہولتیں ملیں تو ہمارے بچے کہاں پہنچ جائیں۔ 49 ہزار
میں سے 14 ہزار اسکولز پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے چلائے جائیں گے پروگرام
کے خلاف مافیا نے سازشی بیانیہ بنایا کہ ٹھیکیداروں کو سکول دے رہیں، اب
بھی کچھ ایسے سکول ہیں، جہاں 200 بچے اور دو اساتذہ ہیں۔ لیپ ٹاپ سکیم
نومبر سے شروع کر رہے ہیں، تاریخ میں پہلی مرتبہ25 ارب روپے سے سکالر شپ
پروگرام شروع کر رہے ہیں جو بچہ فیس ادانہیں کر سکتا تو اس کی فیس ہم ادا
کریں گے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے چین کی وہیکل کمپنی چونگ اوئنگ سی آر
آر سی ہینگ ٹونگ کے چیئرمین لیو جونہوا کی قیادت میں وفدنے ملاقات کی،جس
میں گرین ٹرانسپورٹ سسٹم پراجیکٹ کے بارے میں تبادلہ خیال کیاگیا۔پنجاب بھر
میں پانچ ہزار الیکٹرک بسیں چلانے کے پراجیکٹ کا جائزہ لیاگیا،پہلے مرحلے
میں ایک ہزارالیکٹرک بسوں سے پراجیکٹ شروع کیا جائے گا۔پانچ سال میں بڑے
شہروں میں ’’اینڈ ٹو اینڈ‘‘گرین ٹرانسپورٹ سسٹم لانچ کیا جائے گا۔وزیراعلیٰ
نے الیکٹر ک وہیکلز کی مینوفیکچرنگ کیلئے بھر پور تعاون کی یقین دہانی
کرائی۔پنجاب میں الیکٹرک ٹو وہیلر،تھری وہیلر کی مینوفیکچرنگ کیلئے تمام تر
سہولتوں اورتعاون پر اتفاق کیاگیا۔چینی وفد نے ای ٹرانسپورٹ کے لئے
یونیفائیڈ چارجنگ سسٹم کے بارے میں آگاہ کیا۔
صوبائی وزیرِ تعلیم رانا سکندر حیات نے بتایا ہے کہ پنجاب کے 5863 سرکاری
اسکول اب پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت چلیں گے۔رانا سکندر حیات نے ایک
نیوزچینل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پبلک پرائیوٹ اسکول پارٹنرشپ کا
انتخاب ایک ہزار قابل طالب علموں کی مشاورت سے کیا گیا۔
اُنہوں نے کہا کہ جن اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد کم تھی وہ بھی پارٹنر شپ
کا حصّہ ہیں وہاں اب منیجمنٹ اور اساتذہ نئے ہوں گے اور ان اسکولوں کے
اساتذہ کو دیگر اسکولوں کی خالی سیٹوں پر ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔صوبائی
وزیرِ تعلیم نے بتایا کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ 3 سال کے لیے ہو رہی ہے،
اس منصوبے سے 18 لاکھ سے زائد بچوں کو اسکولوں میں لایا جائے گا۔اُنہوں نے
مزید بتایا کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے پہلے مرحلے میں 3650 سکولوں کے لیے
دستخط ہوئے۔
صوبائی کابینہ کا اجلاس وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیرِ صدارت
ہوا۔مریم نواز نے کہا کہ کرپشن گھاٹے کا سودا ہے، کرپشن کا پیسہ جیسے آتا
ہے ویسے ہی واپس چلا جاتا ہے، شفافیت مسلم لیگ ن کی حکومت کا طرہ امتیاز
ہے۔انہوں نے ای ٹینڈرنگ کے ذریعے 10 ارب کی بچت پر وزیر اور سیکریٹری
تعمیرات و مواصلات کو شاباشی دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب کی تاریخ میں شفافیت
کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، ہر ادارے میں کرپشن ہیجس کا خاتمہ ہماری ذمے
داری ہے ۔ صوبائی کابینہ نے پنجاب بیت المال ایکٹ 1991ء کے تحت موجودہ
پنجاب بیت المال کونسل تحلیل کر کے نئی بیت المال کونسل قائم کرنے کی
منظوری بھی دی۔کابینہ نے پنجاب کی پہلی جامع کلائمیٹ ریزیلیئنٹ پنجاب ویژن
اینڈ ایکشن پلان 2024ء کی منظوری بھی دی۔اس حوالے سے اجلاس کو بریفنگ میں
آگاہ کیا گیا کہ کلائمیٹ ریزیلیئنٹ پنجاب ویژن اینڈ ایکشن پلان قومی و بین
الاقوامی معاہدوں کے عین مطابق ہے۔بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ فلڈ
مینجمنٹ، ایکو سسٹم انفرااسٹرکچر، فوڈ سیکیورٹی، زراعت، ہیٹ ویو پر بھی
ایکشن پلان مرتب کیا گیا ہے، گرین کور، بائیو ڈیورسٹی، ویسٹ مینجمنٹ، گرین
ٹرانسپورٹ، آبی تحفظ اور ڈپارٹمنٹل ایکشن بھی اس پلان میں شامل ہیں۔صوبائی
کابینہ نے پنجاب زکوٰۃ و عشر کونسل کی تشکیل، لاہور میں آنکھوں کے علاج و
معالجے کے لیے نجی اسپتال کو سرکاری اراضی لیز پر دینے کی منظوری دی۔کابینہ
اجلاس میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی سالانہ رپورٹ برائے 2023ء اور صوبے کی
پبلک سیکٹر انٹر پرائزز کی سالانہ آڈٹ رپورٹ 24-2023ء، صوبائی حکومت اور
ضلعی حکومتوں کے اکاؤنٹس کی سپیشل آڈٹ رپورٹ کی منظوری بھی دی گئی۔
پنجاب کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے لیجسلیٹو بزنس(قانون سازی) نے انسداد
گداگری کے قانون (The Punjab Vagrancy Ordinance 1958)میں اہم تر امیم کی
منظوری دے دی ہے۔ایک قومی اخبارکو ملنے والی دستاویزات کے مطابق قانون میں
پہلے ایسے بھیک مانگنے والے بچے کا ذکر تھا جس کی عمر 14سال سے کم ہو۔ نئی
ترامیم کے مطابق اب قانون میں منظم طور پر بھیک مانگنے اور منگوانے والے
آرگنائزر اور اس رسہ گیری دھندے کے سرغنہ کے خلاف بھی کاروائی اور سخت سزا
ہوگی۔ The Punjab Vagrancy Ordinance 1958قانون کے مطابق گداگری کی سزا
زیادہ سے زیادہ تین سال تھی لیکن نئی ترامیم کے مطابق سزا تین سال ہی ہے
لیکن زیادہ سے زیادہ کی مقررہ حد ختم کر دی گئی ہے۔ نئی ترامیم میں بھیک
مانگنے کی ملازمت دینے کی تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگی جبکہ
جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 6ماہ قید بھگتنا ہوگی۔ پنجاب کابینہ
کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے لیجسلیٹو بزنس کی طرف سے منظور کی جانے والی ترامیم
کے مطابق ایسا شخص جو نمائش کے ذریعے اور بھیک مانگنے کے مقصد سے پانچ
لوگوں کو ملازمت دے گا ناقابل ضمانت جرم ہوگا جس کی کم از کم 3سال اور
زیادہ سے زیادہ 5سال قید جبکہ کم از کم تین لاکھ اور زیادہ سے زیادہ پانچ
لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید 6ماہ قید میں
گذارنے ہونگے۔ دوبارہ جرم کرنے کی صورت میں بھی یہی سزا دہرائی جائیگی۔ نئی
ترامیم کے مطابق ایسا شخص جو نمائش کے ذریعے اور بھیک مانگنے کے مقصد سے
پانچ سے زیادہ افراد کو ملازمت دے گا کو کم از کم 5 اور 7سال تک سزا ہوگی
جبکہ جرمانہ کم از کم 3لاکھ اور زیادہ سے زیادہ 5لاکھ ہوگا۔ جرمانہ ادا نہ
کرنے کی صورت میں ایک سال مزید قید بھگتنا ہوگی۔ پنجاب کابینہ کی سٹینڈنگ
کمیٹی برائے لیجسلیٹو بزنس کی طرف سے کی جانیوالی ترامیم کے مطابق منظم طور
پر بھیک مانگنے اور منگوانے والے دھندے کے آرگنائزر کو کم ازکم 7 اور زیادہ
سے زیادہ 10 سال قید ہوگی جبکہ کم از کم 10لاکھ اور زیادہ سے زیادہ 20لاکھ
روپے جرمانہ ہوگا۔ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں 2سال مزید قید بھگتنا
ہوگی۔ مزکورہ جرم کے اعادہ کی صورت میں بھی یہی سزا دوبارہ دی جائیگی۔
پنجاب کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے لیجسلیٹو بزنس نے The Punjab Vagrancy
Ordinance 1958کے تمام قابل ضمانت جرائم کو ناقابل ضمانت قرار دینے کی بھی
منظوری دی ہے۔
پنجاب حکومت کے ان فیصلوں سے یہ توثابت ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کتنی لگن
اورمحنت سے کام کررہی ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت کے مندرجہ بالاتمام فیصلوں
کے یقینا دوررس نتائج مرتب ہوں گے۔ کم آمدنی والے بے گھرافرادکواپنی چھت
فراہم کرنے کے لیے اس سے پہلے بھی منصوبے جاری کیے گئے۔ اپنی چھت
اپناگھرسکیم ماضی کی چھت فراہمی کی سکیموں سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔چلڈرن
ہارٹ سرجری پروگرام بچوں کی صحت کے حوالے سے بہترین پروگرام ہے۔غیرقانونی
اسلحہ رکھنے اورپتنگ بازی کی سزاؤں میں بھی اضافہ کیاگیاہے۔ اس سے ان جرائم
کوکم کرنے میں مددملے گی۔ اس میں ایک اوراضافہ بھی کردیاجائے توبہترہوگا کہ
جس دکان یامکان میں پتنگ بنائے یابیچے جارہے ہوں اس کوپہلی بارایک ماہ
دوسری بارچھ ماہ اورتیسری بارڈیڑھ سال کے لیے سیل کردیاجائے۔ پنجاب کابینہ
کی قائمہ کمیٹی نے انسدادگراگری قانون میں اہم ترامیم کی منظوری دی ہے۔بھیک
منگوانے والوں سے توکوئی بھی رعائت نہیں ہونی چاہیے ۔ بھیک مانگنے والوں کی
تحقیقات ہونی چاہییں۔ ان میں جوکسی مجبوری کی وجہ سے ایساکررہے ہوں ان کی
کفالت کااہتمام ہونا چاہیے اورجوبھکاری پیشہ ورہوں ان کے خلاف کارروائی کی
جانی چاہیے۔منشیات کے عادی افرادبھی بھیک مانگتے ہیں ایسے بھکاریوں کے خلاف
بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ اس حوالہ سے عوام میں بھی آگاہی مہم چلانی چاہیے
کہ وہ پیشہ وربھکاریوں کوخیرات میں پیسے ہرگزنہ دیں۔ اکثرلوگ بھکاریوں کو
توبھیک دے دیتے ہیں لیکن مسجدکے لیے چندہ مانگنے والوں کوچندہ نہیں دیتے۔
جس کونہیں دیناچاہیے تھا اس کودے دیتے ہیں اورجس کودیناضروری تھا اس کونہیں
دیتے۔ لوگوں کوآگاہی دی جائے کہ وہ پیشہ وربھکاریوں کونہیں بلکہ مسجد کے
لیے چندہ مانگنے والوں کودیاکریں۔ دکاندارحضرات جتنے پیسے ایک دن میں پیشہ
وربھکاریوں کودیتے ہیں وہ اپنی قریبی مسجدکے چندہ بکس میں ڈال دیں یااپنے
امام مسجدکودے دیاکریں توبہترہوگا ۔تمام دکاندارمل کرایسی مساجد کے ساتھ
بھی خصوصی تعاون کریں جن مساجدکی آمدنی نہ ہونے کے برابرہے ۔
اگردکاندارحضرات پیشہ وربھکاریوں کودینے کی بجائے مساجداورآئمہ مساجد کے
ساتھ تعاون کرناشروع کردیں توکسی بھی مسجدکے متولی یاانتظامیہ کوچندہ
مانگنے کی ضرورت نہ رہے گی۔تحقیقات کے بعدایسے تمام لوگوں کے خلاف کارروائی
کی جانی چاہیے جن کی کم ازکم ماہانہ آمدنی تیس ہزاریااس سے زیادہ ہواوروہ
ہرماہ مسجدیاامام مسجدکے ساتھ تعاون نہ کرتاہو۔ جس کی ماہانہ آمدنی تیس
ہزارروپے ہو اس کوہرماہ دوسوروپے مسجداورتین سوروپے امام مسجدکے ساتھ تعاون
کرناچاہیے۔ جس کی آمدنی اس سے زیادہ ہو اس کواسی تناسب سے مسجد اورامام
مسجدکے ساتھ تعاون کرناچاہیے۔بجلی سے چلنے والی بسوں کے روڈ پرآجانے سے ایک
طرف تیل کی بچت ہوگی اوردوسری طرف ماحولیاتی آلودگی اورسموگ کوکم کرنے میں
بھی مددملے گی۔
|