علامہ محمد اقبال، جو کہ شاعرِ مشرق اور مفکرِ ملت کے نام
سے مشہور ہیں، نے اپنی شاعری اور فلسفے کے ذریعے مسلم امت کو جاگنے اور
طاغوتی قوتوں کے خلاف کھڑا ہونے کا پیغام دیا۔ اقبال کی فکر کا مرکزی نکتہ
خودی کی بیداری اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کی ضرورت تھی، جس کے ذریعے مسلمان نہ
صرف اپنی شناخت کو بحال کریں بلکہ عالمی سطح پر طاقتور بن سکیں۔
اقبال طاغوتی قوتوں کو ان طاقتوں کے طور پر دیکھتے ہیں جو دنیا میں ظلم،
جبر اور استحصال کے ذریعے انسانیت کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ یہ قوتیں
اقتصادی، سیاسی اور سماجی طور پر کمزور قوموں کو اپنی گرفت میں رکھتی ہیں،
اور ان کے وسائل کو لوٹ کر اپنی طاقت کو برقرار رکھتی ہیں۔
اقبال نے اپنی شاعری میں ان سامراجی اور استحصالی طاقتوں کی سخت مذمت کی۔
وہ مسلمانوں کو اس بات کا شعور دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ طاغوتی طاقتیں
مسلمانوں کو ان کے ایمان اور خودی سے دور کر رہی ہیں۔ ان کے بقول:
"یہی کائنات ہے تیری، یہی تیرا خد و خال
سر عافیت میں پوشیدہ، اسی میں تیرا جمال"
اقبال کے نزدیک، مسلمانوں کو ان طاغوتی قوتوں کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے
اپنی خودی کو پہچاننا ہوگا۔ خودی، اقبال کے فلسفے میں انسان کی اندرونی
طاقت، اس کی خود اعتمادی اور اپنی روحانی طاقتوں کا ادراک ہے۔ یہ وہ ہتھیار
ہے جو مسلمانوں کو ان ظالم طاقتوں کے خلاف مزاحمت کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
اقبال کے مطابق، طاغوتی قوتوں کا مقابلہ محض سیاسی یا عسکری جنگوں سے نہیں
کیا جا سکتا، بلکہ اس کے لیے سب سے پہلے روحانی بیداری کی ضرورت ہے۔ ان کے
نزدیک، مسلمان قوم کی کمزوری کا اصل سبب ان کی خودی کا زوال ہے۔ وہ کہتے
ہیں کہ جب تک مسلمان اپنے اندر خود اعتمادی اور ایمان کی طاقت کو بیدار
نہیں کریں گے، وہ ان استحصالی قوتوں کا شکار رہیں گے۔
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے"
اقبال کا پیغام یہ ہے کہ مسلمان قوم کو اپنی خودی کو اتنی بلند کرنا چاہیے
کہ وہ سامراجی طاقتوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے۔ ان کے نزدیک، ایمان کی
طاقت ہی وہ واحد چیز ہے جو مسلمانوں کو ان طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں سر
بلند کر سکتی ہے۔
اقبال نے مسلمانوں کو طاغوتی قوتوں سے بچنے کے لیے تین اہم نکات کی جانب
متوجہ کیا:
مسلمانوں کو اپنی خودی کو پہچاننا ہوگا اور اسے بلند کرنا ہوگا تاکہ وہ
اپنی شناخت کو بحال کر سکیں۔اقبال کے نزدیک علم اور شعور ہی وہ ہتھیار ہیں
جن کے ذریعے مسلمان اپنی فکری اور معاشی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔
مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اخوت کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ وہ ایک
مضبوط قوم بن سکیں اور طاغوتی قوتوں کے خلاف ایک متحد محاذ بنا سکیں۔
اقبال کا پیغام طاغوتی قوتوں کے خلاف ایک بیدار اور باوقار قوم بننے کی
تلقین کرتا ہے۔ ان کے نزدیک، جب تک مسلمان اپنی خودی کو بلند نہیں کرتے، وہ
ان قوتوں کے استحصال سے نجات حاصل نہیں کر سکیں گے۔ آج بھی اقبال کی فکر
مسلمانوں کو یہ یاد دلاتی ہے کہ ان کی تقدیر ان کے اپنے ہاتھ میں ہے، اور
انہیں اپنی آزادی، خودمختاری اور ایمان کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔
اقبال کا یہ پیغام طاغوتی قوتوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ مسلمان اگر اپنی
خودی کو بیدار کر لیں، تو وہ کسی بھی ظالم طاقت کے سامنے جھکنے والے نہیں۔
وہ کہتے ہیں:
"ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں"
|