زندگی کو ایک سفر سے تشبیہ دینا کوئی نئی بات نہیں۔ یہ
ایک ایسا سفر ہے جس کی ابتدا تو واضح ہوتی ہے، لیکن انتہا اکثر دھندلی اور
غیر یقینی۔ زندگی کے اس سفر میں انسان منزل کے تعین کی جستجو کرتا ہے، لیکن
بہت سے مسافر اپنی منزل سے بھٹک جاتے ہیں۔ وہ راہ کھو دیتے ہیں، اور یوں
راستے کی پیچیدگیاں ان کے قدموں کو الجھا دیتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ
منزل سے بھٹکنے کا مطلب کیا ہے؟ کیا یہ محض راستہ گم کردینا ہے، یا یہ ایک
گہری علامت ہے انسان کی زندگی کی معنویت کی تلاش کی؟
منزل سے بھٹکنا صرف جغرافیائی معنوں میں نہیں، بلکہ روحانی اور فکری معنوں
میں بھی ہوتا ہے۔ ایک شخص جب زندگی میں مقصد سے محروم ہو جائے، یا اس کی
اقدار، خواہشات اور ارادے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں، تو وہ دراصل اپنی اصل
منزل سے دور ہو رہا ہوتا ہے۔ اس دوری کا ادراک اکثر بہت دیر سے ہوتا ہے،
اور جب ہوتا ہے تو افسوس کی کیفیت انسان کے دل و دماغ کو جکڑ لیتی ہے۔
منزل سے بھٹکنے والے مسافر کے لیے سب سے بڑی آزمائش اس کی اندرونی کشمکش
ہوتی ہے۔ ایک طرف اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ راستہ کھو چکا ہے، اور دوسری طرف
اسے یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ کہیں واپسی ممکن نہ ہو۔ یہ کیفیت ایک گہرے
اضطراب کو جنم دیتی ہے، جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ سوال یہ
ہے کہ ایسے مسافر کو کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ اپنی بھٹکی ہوئی راہ پر چلتا
رہے، یا واپس لوٹنے کی کوشش کرے؟
فلسفیانہ طور پر، بھٹکنا ہمیشہ منفی نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات بھٹکنا انسان کو
اپنے وجود کی گہرائیوں میں جھانکنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ بھٹکاؤ انسان کو
اپنی کمزوریوں، خوفوں اور خواہشات کا سامنا کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اگر کوئی
شخص اس بھٹکاؤ کو ایک موقع سمجھے، تو یہ اس کی خودشناسی کا ذریعہ بن سکتا
ہے۔ مشہور فلسفی سقراط کا قول ہے کہ "غیرمحاسبہ شدہ زندگی گزارنے کے قابل
نہیں ہے"۔ منزل سے بھٹکنے والے مسافر کے لیے یہ قول ایک رہنمائی بن سکتا
ہے۔ وہ اپنی زندگی کا محاسبہ کرے، اپنے مقاصد کو دوبارہ ترتیب دے، اور یہ
سوچے کہ آیا وہ جس راستے پر تھا، وہی درست تھا یا نہیں۔
اس بھٹکاؤ کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو سکھاتا ہے کہ زندگی میں
کبھی بھی ہر چیز کو حتمی طور پر متعین نہ سمجھا جائے۔ کوئی بھی راستہ ہمیشہ
سیدھا اور صاف نہیں ہوتا۔ زندگی میں پیچ و خم، اتار چڑھاؤ، اور غیر متوقع
حالات ہمیشہ آتے رہتے ہیں۔ بھٹکنے والے مسافر کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا
بھٹکنا بھی زندگی کا ایک حصہ ہے، اور یہ اس کی آزمائش کا حصہ ہے کہ وہ کیسے
ان مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔
جب ہم "منزل سے بھٹکے ہوئے مسافر" کی بات کرتے ہیں، تو یہ تصور صرف افراد
تک محدود نہیں رہتا۔ پورے معاشرے بھی بعض اوقات اپنی اجتماعی منزل سے بھٹک
جاتے ہیں۔ جب کسی معاشرے کے افراد اپنی اخلاقیات، اقدار، اور اصولوں سے دور
ہو جائیں، تو وہ بھی ایک بھٹکے ہوئے مسافر کی مانند ہو جاتا ہے۔ ایسے
معاشرے میں افراد اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کے پیچھے بھاگتے ہیں، جبکہ
اجتماعی بھلائی نظرانداز ہو جاتی ہے۔ اس بھٹکاؤ کا نتیجہ عدم استحکام، عدم
برداشت، اور نفرت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
آخر میں، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بھٹکنا انسانی فطرت کا حصہ ہے، لیکن
اصل کامیابی اس میں ہے کہ ہم اپنے بھٹکنے کا ادراک کریں اور پھر دوبارہ
اپنی اصل منزل کی طرف لوٹنے کی کوشش کریں۔ منزل کی طرف لوٹنا ہمیشہ آسان
نہیں ہوتا، لیکن یہ وہ سفر ہے جو ہمیں مضبوط بناتا ہے۔ ہر بھٹکا ہوا مسافر
اس وقت تک ناکام نہیں ہوتا جب تک وہ واپس اپنی راہ تلاش کرنے کی کوشش کرتا
رہے۔
لہٰذا، زندگی کے اس سفر میں جب بھی ہم خود کو بھٹکا ہوا پائیں، تو اسے ایک
موقع سمجھیں۔ یہ موقع ہے خود کو بہتر بنانے کا، اپنی زندگی کے مقاصد پر غور
کرنے کا، اور ایک نئے عزم کے ساتھ دوبارہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے کا۔
کیونکہ اصل منزل صرف وہی ہے جو ہم دل سے تلاش کریں، اور جس کا راستہ ہماری
ذات کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہو۔
|