"میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں" مشہور غزل
کے خالق
پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری راہی ملک عدم ہو گئے ۔
ایک چراغ اور بجھا اور بڑی تاریکی
ملتان سے تعلق رکھنے والے ممتاز شاعر، ادیب اور محقق ڈاکٹر اسلم انصاری بھی
راہی ملک عدم ہوۓ ۔ آپ اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کرتے ہیں۔ اسلم
انصاری نے سرائیکی ناول اور اردو افسانہ بھی لکھا ہے۔ اسلم انصاری ملتان کے
علاقے پاک گیٹ کے ایک محلے میں پیدا ہوئے .ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی
گھرانے سے ہے۔ اسلم انصاری نے ایمرسن کالج ملتان سے بی اے کا امتحان پاس
کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے اردو اعلیٰ نمبروں کے ساتھ مکمل
کیا۔ ان کا شمار سید عبد اللہ کے پیارے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ یہیں ان کی
ملاقات ناصر کاظمی سے ہوئی۔ اسلم انصاری کے مطابق ناصر کاظمی نے پہلی بارش
کی غزلوں کا آئیڈیا انھی سے لیا۔ اسلم انصاری کی مثال علم ودانش کے ایک
منبع کی تھی ۔ ان کے شعر وفکر اقبال کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔
آئینہ خانہ عالم میں کھڑا سوچتاہو ں میں نہ ہوتا تو یہاں کون سا چہرہ ہوتا
جو سوچیے تو سبھی کارواں میں شامل ہیں
جو دیکھیے تو سفر میں ہر ایک تنہا ہے
ڈاکٹر اسلم انصاری 30 اپریل 1939ء کو بیرون پاک گیٹ ملتان کے علاقے بھیتی
سرائے میں پیدا ہوئے۔
تعلیم
انھوں نے 1962ء میں اورینٹل کالج لاہور سے اردو اور 1985ء میں زکریا
یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا۔ 1998ء میں انھوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری
حاصل کی۔
تدریس
وہ عمر بھرشعبہ تدریس سے وابستہ رہے اور لاہور، بہاولپور، ملتان سمیت مختلف
شہروں میں خدمات انجام دیں۔
ادبی خدمات
ڈاکٹر اسلم انصاری کی تصنیفات میں اردو اورفارسی کے پانچ شعری مجموعوں سمیت
سرائیکی ناول ”بیڑی وچ دریا“ اور مختلف تنقیدی اورتحقیقی مضامین کے مجموعے
شامل ہیں۔ وہ اس سے پہلے خواجہ فرید کی کافیوں کے ترجمے پرنیشنل بینک
ایوارڈ اور اقبالیات پر اقبال ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ان کی نظم ”گوتم
سے مکالمہ“ زبان زد عام ہے جبکہ ”میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی
نہیں“ سمیت ان کی بہت سی غزلیں اوراشعار ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان
کی دونئی کتابیں عنقریب منظرعام پرآرہی ہیں جن میں پاکستان کی جدوجہد آزادی
کی منظوم داستان ”ارمغان پاک“ قابل ذکر ہے جس میں اس موضوع پر ان کی کئی
نظمیں اورمنظوم ڈرامے شامل ہیں۔ یہ کتاب اسی ماہ کے اواخر یا ستمبر کے
اوائل میں شائع ہوجائے گی۔اس کے علاوہ فارسی مثنوی ’‘’فرخ نامہ“بھی زیرطبع
ہے۔ یہ مثنوی علامہ اقبال کی مثنوی”جاوید نامہ“ کی طرزپر ہے۔
تصانیف
خواب و آگہی (شاعری)
نقش عہد وصال کا(کلام)
شب عشق کا ستارہ (کلام)
فیضان اقبال(منظوم اقبالیات)
اقبال عہد آفرین
مطالعات اقبال
شعر و فکر اقبال
اردو شاعری میں المیہ تصورات
ادبیات عالم میں سیر افلاک کی روایت اور دوسرے مضامین
تکلمات
زندگی کا فکری اورفنی مطالعہ
نگار خاطر
چراغ لالہ
غالب کا جہان معنی
مکالمات
فکرو انتقاد
جسے میر کہتے ہیں صاحبو
ارمغان پاک(جدوجہد آزادی کی منظوم داستان)
بیڑی وچ دریا(ناول)
اعزازات
پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری کو 2009ء میں تمغا امتیاز سے نوازاگیاتھا اور 14
اگست 2020ء کو انھیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔
ڈاکٹراسلم انصاری متنوع ادبی جہات کے حامل انسان تھے ۔ان کی شاعری ہو کہ
تنقید و تحقیق، ادبی کالم نگاری ہو یا افسانہ نگاری ہر شعبے میں انھیں ایک
خاص انفرادیت حاصل رہی ہے۔
ڈاکٹر اسلم انصاری طویل عرصہ محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے .کچھ عرصہ ملتان
آرٹس کونسل کے ڈائرکٹر بھی رہے .انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغا امتیاز
اور تمغا حسن کارکردگی بھی عطا کیا گیا۔ اسلم انصاری کی شعری و ادبی تفہیم
کے لیے ڈاکٹر افتخارشفیع اور ڈاکٹر جاوید اصغر کی کتابیں اہم ہیں .۔۔22/
اکتوبر 2024 کو ڈاکٹر اسلم انصاری اپنے مالک حقیقی کے حضور پیش ہو گئے۔۔انا
للہ وانا الیہ راجعون ۔
|