رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آہ! صوبیدار منظور احمد خاں مرحوم۔۔وہ گلوں میں اک گلاب تھا
تحریر : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
میرے تایا زاد بھائی صوبیدار منظور احمد خاں' جن کو ہم سے بچھڑے 25/ سال
بیت چکے ہیں ۔۔۔ بھائی منظور احمد نے 10/اکتوبر 1999ء داعی اجل کو لبیک کہا
تھا ۔لیکن ایسا نہیں کہ ہم انھیں بھول گئے ہوں ۔۔۔۔وہ تو ہر لمحہ ہمارے
دلوں میں مقیم رهتے ہیں۔بھاول پور کینٹ کے "سی ایم ایچ" میں شدید علالت میں
پڑے ہوۓ ان کا خوبصورت چہرہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے ۔جب وہ دنیا و
مافیہا سے بے خبر موت و حیات کی جنگ لڑ رہے تھے ۔۔۔جب ہم سب ان کے دوستوں
حضرت خان و دیگر کے ساتھ بہاول پور کینٹ کی ایک چھوٹی سے مسجد کے احاطہ میں
اللّه پاک سے ان کی زندگی کی خیرات مانگ رہے ہوتے تھے ۔۔۔۔ہر شخص غم و
اندوہ کا مجسمہ دکھائی دیتا ۔۔۔۔۔خاموشی نے ہر طرف ڈیرے جما رکھے تھے ۔۔۔ہم
چپ چاپ کینٹ کے اس ہسپتال جاتے اور وہاں کسی سائے میں پڑاؤ کر لیتے تھے
۔۔پھر باری باری ہر ایک اس کمرے کی کھڑکی سے اس کے چہرے کو چند لمحےتکتا
اور آ جاتا ۔ اور جتنے بھی وہاں رشتے دار جمع تھے سب کا یہی معمول تھا کہ
وہ صبح کو یا جب جب بھی انہیں موقع ملتا ۔کھڑکی سے ٹکٹکی لگا پر اس کے چہرے
پر نظریں مرکوز کر لیتا ۔۔دعا کے الفاظ سے ہونٹ کپکپا رہے ہوتے لیکن وہ
برین ہیمریج کی وجہ سے مسلسل قوما میں مدہوش تھے ۔۔۔آج ان کے "قوما" کو
ساتواں روز تھا جب شاید اسپتال کے ڈاکٹروں نے اتنے دن اس کی ہوش کا انتظار
کرتے کرتے شکست تسلیم کر لی تھی ۔۔وینٹیلیٹر پر پڑا بے جان جسم کب تک
مصنوعی سانسوں کے سہارے جی سکتا تھا ۔۔ساتویں روز اس کی روح نے اس کے جسم
کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ اپنے اللہ تعالی کے حضور پیش ہو گیا ۔۔
(انا للہ وانا الیہ راجعون )
کتنے کرب ناک وہ شب و روز تھے ۔۔۔۔وہ درد بھرا منظر آج بھی میری آنکھوں سے
نہیں نکلتا جب انھوں نے زندگی سے ہار مان لی تھی اور ان کا بہاول پور میں
نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد جسد خاکی ہائی ایکس وین کی چھت پر تابوت میں
باندھ کر آبائی گاؤں لایا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔غم و اندوہ ، درد اور رقت انگیز
منظر جب جب جب بھی میرے تصور میں آتا ہے تو جسم میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔
آنکھیں بے ساختہ نم ہو جاتی ہیں۔ان کی محبّت اور پیار آنکھوں کو نم اور دل
کو بے قرار کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت مشفق اور ہمدرد انسان۔۔بچپن کی کلاسوں
میں ان سے پڑھنے کا بھی موقع ملا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی منظور میرے سامنے مسکراتا
کھڑا دکھائی دے رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔پرانی یادوں کا ایک میلہ سا لگ جاتا ہے اور
اس میلے میں بھائی منظور مجھے ہنستا مسکراتا ہوا ، چھوٹی چھوٹی شرارتیں
کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔۔۔
موت کا سیلِ رواں ہر جان دار کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتا ہے ،یہی
قضا و قدر کا فیصلہ اورفطرت کا اصول ہے لیکن کچھ ابد آشنا انسان ایسے بھی
ہوتے ہیں جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ موت
ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور ان کی نیکیوں،انسانیت کی بے لوث خدمت اور
دردِ دِل کے اعجاز سے لوح ِجہاں پر ان کا دوام ثبت ہو چکا ہے ۔ایسی ہستیاں
جب دائمی مفارقت دے جاتی ہیں تو اُن کے بعد آنے والی نسلیں ان کے نقشِ قدم
دیکھ کر نشانِ منزل پا لیتی ہیں ۔ہمارے رفتگاں کی یادیں جب تک ہمارے دِلوں
میں موجود ہیں۔ وہ زندہ رہیں گے اور موت اُن کی ہمہ گیر مقبولیت اوردائمی
فیض رسانی کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوسکتی۔ ۔۔۔
ان کا بڑا بیٹا عزیزم شہباز احمد اس وقت کوئی دس گیارہ سال کا کمسن ہی تو
تھا جو وہاں میرے قیام کے دوران میرے ساتھ اپنی باسائیکل پر مجھے سی ایم
ایچ لے کر جاتا اور پھر واپس لے کر آتا ۔ابھی اس کو کلاس ششم میں داخل
کروائے ہوئے چند ماہ ہوئے تھے۔کہ یہ صدمہ سر پر آن پڑا ۔ اسے کیا خبر تھی
کہ آنے والے دنوں میں اس کے اوپر کون سے پہاڑ ٹوٹ پڑنے کو تیار ہیں ۔۔۔ایک
دن پھر شہباز احمد نے کینٹ میں مجھے اپنا وہ سکول بھی دکھایا جس میں وہ
داخل ہو چکا تھا۔۔پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔۔سورج سوا نیزے پر آ گیا تھا
اور شہباز احمد معصوم بچہ باپ کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گیا تھا
۔۔۔نہ صرف شہباز احمد بلکہ اس کی تین کمسن بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی بھی
آن واحد میں پدری شفقت سے محروم ہو گئے تھے ۔۔۔
پھر شہباز احمد کی والدہ نے مردانہ حوصلوں جیسے دل کے ساتھ ان کی تربیت کی
۔ اپنے خاوند کی جدائی کے بعد وہ دکھوں سے اس قدر نبرد آزما ہوئی کہ خود
بیماریوں میں جکڑی گئی ۔۔ایک بار پھر شہباز احمد کے گھر پر قیامت ٹوٹ پڑی
جب وہ باپ کی شفقت کے بعد ماں کی محبت سے بھی محرومی کا شکار ہو گیا
۔۔۔شہباز احمد تو پہلے ہی دکھوں سے لڑتا ہوا جوان ہو رہا تھا کہ والدین کی
جدائی نے اسے اپنی عمر سے بڑا انسان بنا دیا ۔۔اس کے عادات و خصائل میں کم
سنی کی بجائے سنجیدگی اور متانت ٹپکنے لگ پڑی ۔۔قہقہے اور مسکراہٹیں اس سے
کوسوں دور چلے گئے ۔۔۔اس نے پھر سے اپنے آپ کو سنبھالا دیا اور مردانہ وار
اپنے دکھوں سے مقابلہ کرنے کے لیے میدان عمل میں اتر آیا ۔۔۔ اس نے اپنی
محنت ، لگن ، خلوص، وفا ، ہمت اور نیک نیتی سے اپنی زندگی کا سفر دوبارہ سے
شروع کر دیا ۔۔اور اس کرب ناک سفر میں راستے میں آتے والی ہر رکاوٹ کو اس
نے دور پھینکنا شروع کر دیا ۔۔۔اپنے علاوہ اپنی تین بہنوں اور ایک چھوٹے
بھائی کی کفالت اپنے کندھوں پر لے لی ۔۔اللہ تعالی نے اس کو ہمت اور حوصلہ
دیا اور وہ سب بہن بھائیوں کو پڑھانے میں اور ان کی تعلیم و تربیت کرنے میں
کامیاب ہو گیا ۔تعلیم و تربیت کے بعد اگلا مرحلہ ان کی شادیوں کا آ گیا
۔۔یہ مرحلہ بھی بہت پریشانیوں سے دو چار کرنے والا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔لیکن وارے
وارے جائیں ہم اس نوجوان کے ، جس نے اپنی تین بہنوں کے لیے اچھے رشتے
ڈھونڈے، ان کی اچھے گھروں میں شادیاں کیں ۔ اپنے چھوٹے بھائی کو پڑھایا اور
اسے ملازمت دلوائی پھر اسی طرح اپنی شادی بھی کروا کر اپنے گھر کو آباد کیا
۔۔۔۔۔۔۔شہباز احمد ایک پہاڑ جیسے دل کا مالک نوجوان ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تین چار کہانیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں ۔۔شہباز احمد کے والد کا کم سنی
میں داغ مفارقت دے جانا ۔۔پھر چند سالوں کے بعد اس کی والدہ کا بھی سایہ سر
سے اٹھ جانا ۔۔پھر کم سن تین بہنوں اور ایک بھائی کی پرورش اور تعلیم و
تربیت کا مرحلہ ، پھر ان کی شادیوں اور ان کے سسرالیوں سے روابط کو اگے
بڑھانا ۔۔۔۔ان تمام معاملات کو دیکھ کر مجھے شہباز احمد ایک قوی، بہادر ،
صابر، شاکر اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے والا نوجوان نظر اتا ہے ۔۔مجھے وہ
ہر محاذ پر ایک کامیاب انسان کے روپ میں نظر آیا ۔۔۔اس کے اندر بہت سے
اوصاف ہیں ۔جن کو کسی وقت میں تفصیل سے بیان کروں گا۔۔۔۔شہباز احمد خان آپ
کی درازی عمر کے لیے میں ہمہ وقت دعاگو رہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی منظور احمد ایک درویش صفت انسان تھے ۔۔۔ عاجزی انکساری ان میں کوٹ
کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔۔لوگوں کے کام آنے کی دھن ہر وقت اس کے سر پر سوار
رہتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اللّه پاک نے جنّت کے اعلی محلات میں اس کو گھر دے دیا ہے
۔۔۔۔جوانی کی شہادت نے اسے جنّت مکانی کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔
بھائی منظور احمد جنتی ہے ۔۔ اللہ تعالی ان کے درجات مزید بلند فرمائے اور
روز محشر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے بہرہ ور کرے
۔۔۔۔آمین
بقول شاعر:
احباب ہی نہیں تو کیا زندگی حفیظ
دنیا چلی گئی مری دنیا لیے ہوئے
💥 خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
تحریر: ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
|