خسارے میں ڈوبا پاکستانی ٹائٹینک پی آئی اے کی بولی صرف دس ارب

اس وقت پاکستان اتحادی حکومت کی جانب سے خسارے میں چلنے والے اداروں کی نج کاری کے زریعے جان جھاڑنے کے لیے حال ہی میں نج کاری کمیشن نے پہلا آپریشن نیلامی کا شروع کیا جس میں پہلے پاکستانی ٹائٹینک پی آئی اے کو منتخب کیا

اس سلسلے میں کافی تگ و دو کے بعد بلیو ورلڈ سٹی نے نیلامی میں اپنا حصہ ڈالا بلیو ورلڈ سٹی کی جانب سے دی جانے والی بولی ریفرنس پرائس سے بہت کم لگائی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی کمپنی نے اس میں حصہ لیا۔

دوسری کمپنیوں کی جانب سے بولی میں حصہ نہ لینے کی وجہ ایک تو کم وقت کا دیا جانا تھا تو دوسری طرف کمپنیوں نے اس بات پر کوئی واضع موقف سامنے نہیں لائے کہ پی آئی اے کے وہ سات ہزار سے زائد ملازمین ہیں، جن کو لینے کے لیے کوئی تیار نہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں کوئی متبادل حل پیش نہ کرسکے جبکہ دوسری طرف سب سے عجیب بات یہ ہے کہ کسی بھی غیر ملکی کمپنی نے اس میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
کہا جاتا ہے کہ پی آئی اے کا ایک ہفتے کا ریوینیو ہی دس ارب روپے بنتا ہے۔

لگتا ایسا ہی ہے کہ نج کاری کمیشن نے اس پر صحیح طریقے سے کام نہیں کیا گیا۔ ’ابھی تک ان شرائط کا نہیں پتا کہ اگر یہ بولی کم ہے تو کیا آ گے جا کر اس میں کوئی اضافہ ہو سکتا ہے یا نہیں۔

پی آئی اے ایسا ادارہ ہے جس پر حکومت کی جانب سے 650 ارب روپے کا قرضہ اپنے ذمے لینے کے باوجود ابھی بھی 200 ارب روپے کا قرض باقی ہے۔ کوئی بھی اتنی بڑی رقم دے کر ایک ایسے اکاؤنٹ سے شروعات نہیں کرے گا جو پہلے ہی منفی میں چل رہا ہو بلکہ اس کی بجائے وہ اتنے پیسوں میں نئی ایئر لائن بنا لے گا۔

بلیو ورلڈ کو اس بولی سے یہ فائدہ ہو گا کہ ان کو نیا سیٹ اپ بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اورانہیں کچھ بھی نہیں لگانا پڑے گا کیونکہ یہ ریئل اسٹیٹ کمپنی ہے اور نئے سرے سے ایئرلائن شروع اور اسے آپریشنل کرتے ہوئے بھی دو سال تو کم از کم لگ جاتے ہیں۔

حال ہی میں بلیو ورلڈ کے چیف ایگزیکٹو کے ایک انٹرویو میں ’انھوں (بلیو ورلڈ سٹی کے سربراہ سعد نذیر) نے کہا تھا کہ وہ پی آئی اے کے تمام معاملات کی ذمہ داری لیں گے لیکن دیکھا جائے تو وہ صرف 10 ارب روپے میں 200 ارب روپے سے زیادہ کی ذمہ داری لینے کی بات کر رہے ہیں۔

جبکہ پی آئی اے انتیظامیہ نے ’صرف پینشن ٹرسٹ فنڈ کی رقم 40 ارب بنتی ہے وہ پی آئی اے کے اپنے روزمرہ کے خرچے پورے کرنے کے لیے استعمال کرلیے گئے ۔ پی آئی اے پر فیول، پینشن فنڈ اور پراویڈنٹ فنڈ (پی ایف) کی مد میں بہت زیادہ ادھار بھی ہے۔‘ اصولُُ تو ( وفاقی کابینہ کو اس بولی کو قبول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آج کے دور میں 10 ارب کچھ بھی نہیں۔)

پی آئی اے میں اس وقت 7200 مستقل ملازمین کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ملازمین بھی اس ہی ایئرلائن کے کھاتے میں.

نجکاری کمیشن سے پی آئی اے کے ملازمین اور اس کے اثاثوں کے بارے میں جس میں اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ ان ملازمین کو ایئرلائن کا نیا خریدار کم از کم کتنے عرصے تک ملازمت پر رکھنے کا پابند ہوگا۔ پی آئی اے کی نجکاری کے بعد ملازمین کو ایک سے تین سال تک ملازمت پر رکھنے کی تجویز زیرِ غور ہے۔تاہم اس کے بعد انھیں ملازمت سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔

اثاثوں کو علیحدہ کرنے کے بعد کچھ تو ہولڈنگ کمپنی کے پاس چلیں جائیں گے اور کچھ پی آئی اے کے ساتھ فروخت کر دیے جائیں گے۔ ان اثاثوں میں پی آئی اے کے دفاتر اور جائیدادیں شامل ہیں۔

پی آئی اے کی سالانہ رپورٹ 2022 کے مطابق اُس برس ایئرلائن کا خسارہ 88 ارب روپے تھا۔ پی آئی اے کی جانب سے سال 2023 کے صرف پہلے چھ مہینوں کے مالیاتی نتائج کا اب تک اعلان کیا گیا اور اس کے مطابق ایئر لائن کا ابتدائی چھ مہینوں کا خسارہ 60 ارب رہا تھا۔

پی آئی اے میں خسارے کا سلسلہ 2004 میں شروع ہوا اور اس کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری سے سب سے پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا سلسلہ تھم جائے گا۔ پی آئی اے کی نجکاری سے حکومت کو سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمایہ حاصل ہوگا جس کی ملک کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔

جب کوئی نجی کمپنی اس کا آپریشن سنبھالے گی تو یقینی طورپر ایئرلائن کی کارکردگی بھی بہتر ہو گی۔

پی آئی اے کی نجکاری کے بعد اس میں سیاسی مداخلت بھی ختم ہوگی، جسے اکثر پی آئی اے کے زوال کی وجہ بتایا جاتا ہے۔

نجکاری کے پس پردہ دو مقاصد ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ کوئی بھی ادارہ ان لوگوں کے پاس جائے جو اس کے کاروبار کو سمجھتا ہو، کوئی ایئر لائن اگر پی آئی اے کو خریدتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ زیادہ بہتر طریقے سے پی آئی اے کو چلائیں گے۔

نجکاری کی صورت میں کم از کم حکومتِ پاکستان پر پڑنے والا مالی بوجھ ختم ہو جائے گا۔

نجکاری کے بعد پی آئی اے کے طیاروں میں اضافہ ہوگا، اس کا انفراسٹرکچر اور آئی ٹی سسٹم بہتر ہوگا اور اس کے ملازمین کی تربیت کا بھی اچھا انتظام ہو گا۔

1987 سے لے کر آج تک پی آئی اے نے صرف مالی سال 07-2006 میں منافع کمایا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی حکومت اس ادارے کو بہتر نہیں کر سکی۔
 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 403 Articles with 207037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.