آئے روز مسائل میں اضافہ عوامی
بے چینی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے اور یہ بے چینی بہت سارے گمبھیر مسائل
کو جنم دے رہی ہے گھریلو سطح سے لے کر معاشرتی سطح تک بگاڑ زور پکڑتا جا
رہا ہے معاشرہ بدنظمی کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے اس بدنظمی کی وجہ سے
ہم بحثیت قوم ذلت اور رسوائی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ اس صورت حال کو
سنبھالنے کی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت کی ہے۔ کہنے کو تو وطن عزیز میں
ایک جمہوری حکومت بھی ہے ادارے بھی ہیں ان اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے
اور انہیں بہتر بنانے کے لئے وزارتیں بھی ہیں اور وزیر بھی! سونے پہ سہاگہ
قائمہ کمیٹیاں بھی قائم دائم ہیں اور ایک ایک قائمہ کمیٹی کئی کئی سینٹروں
اور نیشنل اسمبلی کے کئی ارکان پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود عوام کے
مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ باعث تشویش ہے۔ چند دن پہلے ایسی ہی ایک
قائمہ کمیٹی کا اجلاس دیکھنے کا موقع ملا اور ہم سر دھنتے رہ گئے۔ قائمہ
کمیٹی کے ممبران کے سوالات بے تکے اور انتہائی معمولی نوعیت کے تھے وہ
متعلقہ محکمہ اور اس کے دائرہ اختیار کے متعلق معلومات سے نا بلد تھے ایسی
ہی ایک بات سمجھانے کے لیے محکمہ کے ایک اعلیٰ افسر نے انگریزی میں ایک
پیرا گراف پڑھنا شروع کیا تو وزارت کے سیکرٹری نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے
ساتھ ساتھ ا س کا اردو ترجمہ کرنابھی شروع کر دیا تاکہ کمیٹی کے کچھ معزز
ارکان کو مدعا سمجھنے میں آسانی رہے ۔اس اجلاس کا نتیجہ بے نتیجہ ہی رہا نہ
کسی طرف سے مسائل کے حل کے لئے کوئی تجویز آئی اور نہ ہی کسی ایسی تجویز کے
لئے کوئی تاکید۔ممکن ہے یہ کمیٹی اپنے آخری اجلاس تک کسی مسئلے کے حل تک
پہنچ پائے لیکن ہمارا آج کا موضوع قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم اور وزارت
پٹرولیم ہے، جنہوں نے ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے پٹرول کی قیمتوں
میں اضافے اور اوگرا کو وزارت پٹرولیم کے ماتحت کرنے کی "خشک خبری "سمیت
ملک میں جاری گیس کے بحران کے خاتمے کے لئے مزید دو سال مانگ لئے ہیں۔لیکن
عوام کے مسائل کے حل کے لئے شاید کوئی تجویز پیش نہیں کی جا سکی۔ اوگرا کا
نام ڈوگرا رکھ دیا جائے یا اسے تین چار قسم کی مختلف وزارتوں کی تحویل میں
دے دیا جائے اس سے عوام کے مسائل کا کوئی حل نکلتا نظر نہیں آتا۔ عوام کے
مسائل ہیں کیا ؟ کیا یہ معززین ان سے آگاہ بھی ہیں یا نہیں؟
پورے ملک میں سی این جی کی ہفتہ وار تین تین دن کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے جس
کرب سے عوام گزرتی ہے اس کا اندازہ اس کرب ناک اذیت سے گزرے بغیر نہیں ہو
سکتا۔ ان تین دنوں میں مسافروں سے زائد کرایہ وصول کیا جاتا ہے جہاں کرایہ
ایک سو روپے ہے وہاں ڈیڑھ ڈیڑھ سو تک بغیر کسی جھجک کے وصول کیا جاتا ہے
اور اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سی این جی کی بندش کی وجہ سے گاڑی
پٹرول پر چلے گی اور پٹرول سی این جی سے مہنگا ہے اس لئے زائد کرایہ لینا
ان کا حق ہے ۔ وفاقی ٹریفک پولیس ہو یا پنجابی ، کسی مسافر کی کوئی مدد
نہیں کی جاتی اور مسافر یا تو لڑتے جھگڑتے رہ جاتے ہیں یا دن دھاڑے لٹتے
رہتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ٹرانسپورٹر حضرات مسافروں کی
کھال ادھیڑنے کے لئے گاڑیوں کی کمی کا بہانا بھی بناتے ہیں۔ غرض سی این جی
کی لوڈشیڈنگ کے تین دن انتہائی کرب کی حالت میں گزرتے ہیں۔
اس سلسلے میں حکومتوں کی بے اعتنائی کی حد یہ ہے کہ نہ انہوں نے ان دنوں کے
لئے کوئی علیحدہ کرایہ نامہ جاری کیا اور نہ ہی جاری شدہ کرایہ نامہ پر عمل
درآمد کرایا جاتا ہے۔یار لوگوں کا کہنا ہے کہ اس ساری سکیم کے پیچھے سیاسی
گماشتے ہیں جو ہفتے میں ان تین دنوں کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور ساری
حکومتی مشینری ان کے سامنے بے بس ہے کیونکہ حکومت بھی تو سیاسی ہی ہے نا۔
ہمارا حکومت وقت کواس عوامی مسئلے کے خاتمے کے لئے ایک مشورہ ہے ہمیں امید
ہے کہ اگر حکومت اس پر عمل کر لے تو پورے ملک میں نہ صرف مسافروں کے لئے
بلکہ اس پورے شعبے میں مساوات قائم ہو جائے گی اور اس کے فوائد بہت جلد
سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔جیسے آج کے نرخ پٹرول 88.95روپے فی لٹر، ڈیزل
94.16روپے فی لٹر اور سی این جی 66.49روپے فی کلو ہے اگر ان تینوں کے نرخوں
کو جمع کر لیا جائے تو یہ 249.60روپے بنتے ہیں ، ان تینوں کا اوسط نرخ حاصل
کرنے کے لئے اسے تین پر تقسیم کر لیا جائے تو فی کس 83.20روپے نرخ بنتا ہے۔
مطلب یہ کہ ڈیزل، پٹرول اور سی این جی کا ایک ریٹ فکس کر دیا جائے اس سے
کسی کی حق تلفی بھی نہیں ہو گی اور پٹرول اور سی این جی کا فرق بھی مٹ جائے
گا اور کوئی کم نرخ کے چکر میں لائن میں نہیں لگے گا بلکہ پاکستان کے تمام
شہری یکساں فوائد حاصل کر سکیں گے۔ سی این جی کی لوڈشیڈنگ کی ضرورت باقی
نہیں رہے گی اور اس طرح لاکھوں مسافر ٹرانسپورٹ مافیا کی لوٹ مار سے بچ
سکیں گے۔پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں واضح کمی ہو گی جس سے اشیاءخردونوش
کی قیمتیں نہ صرف کم ہوں گی بلکہ انہیں موجودہ سطح تک پہنچے میں مزید کم از
کم چھ ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ڈیزل سے چلنے والی مشینوں سے حاصل ہونے والے
فوائد اور پٹرول یا سی این جی سے چلنے والی مشینوں چاہے وہ ملیں ، فیکٹریاں
اور چھوٹی نوعیت کی صنعتیں ہوں یا ٹیوب ویل اور زرعی آلات گھریلو استعمال
کی سواریاں ہوں یا پبلک ٹرانسپورٹ سب ایک جیسے فائدے اور نقصان کے حق دار
ٹھہریں گے۔گیس کی بندش سے پہلے اور بعد میں سی این جی سٹیشنوں پر لگے والی
لمبی لمبی لائنوں اور قوم کے بہترین وقت کے ضیاع سے بھی چھٹکارا حاصل ہو
جائے گا۔ہفتے میں دو بار کرایوں میں ردوبدل بھی نہیں ہو گا اور عوام ایک
بہت بڑی پریشانی سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے اور عوام حکومت کو گالیوں کے
بجائے دعاوؤں میں یاد رکھے گی۔
شاید ہماری یہ تجویز کسی قائمہ کمیٹی یا متعلقہ وزارت کے کسی اجلاس میں زیر
غور نہ آئے لیکن ہماری حکومت وقت سے درخواست ہے کہ وہ ایسی تجاویز کو قابل
عمل بنانے کا کام ان کمیٹیوں اور وزارتوں کے ذمے لگائے اور مخصوص وقت میں
ان کا جواب طلب کرے تاکہ ان اجلاسوں کا بروقت فائدہ عوام کو پہنچ سکے۔ |