لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو
خدا یا میری
ہاں، یہ حقیقت ہے کہ اب یہ نظم اور اس نظم کے یہ اشعار ہمارے اسکولوں میں
نہیں سنائے اور پڑھائے جاتے ہیں لیکن اج بھی ہمارے سامنے سے یہ نظم کہیں
پڑھی اور سنائی جاتی ہے تو ہمیں زمانہ طالب علمی یاد اتا ہے کہ جب ہم قومی
ترانے سے پہلے یہ دعائیہ نظم پڑھا کرتے تھے اور اس وقت ہمارے جذبات و
احساسات شدت عروج پر ہوتے تھے اور اس کے بعد پھر قومی ترانے کو جوش و ولولے
سے پڑھتے تھے۔ ہاں ، وقت بہت تیزی سے گذر رہا ہے۔
آج 9 نومبر کا دن ہے اور یہ وہ دن ہے کہ جب 1877 میں پنجاب کے شہر سیالکوٹ
میں وہ شخص پیدا ہوا کہ جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو اک آزاد ملک کو خواب و
نظریہ دیا،
ہاں ، وہ شخصیت کہ جس نے پیدائش کے بعد ابتدائی تعلیم قریبی مکتب میں حاصل
کی اور پھر سیالکوٹ کے مشن اسکول سے میٹرک کیا۔
اس عظیم انسان نے آرٹس میں بیچلر کی ڈگری لاہور کے حکومتی کالج سے اور بعد
ازاں ماسٹر بھی اسی ادارے سے 1897میں کیا۔
اس مفکر وطن کو تاریخ ،فلسفہ اور انگریزی کے اک مدرس کی حیثیت سے لاہور ہی
کے اورینٹل کالج میں ذمہ داریاں سونپی گئیں، جہاں انہوں نے تدریس کے ساتھ
ہی برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں کو برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کے
ساتھ دین کی تعلیم و تاریخ بتاتے ہوئے انگریزوں کی غلامی سے نکلنے اور اک
آزاد ملک کی جانب بڑھنے تعلیم دی اور توجہ دلاتے ہوئے ترجیحات میں انہیں
رکھنے کے ساتھ حاصل کرنے کے لئے کاوشوں پر زور دیا۔
اس عظیم انسان کا نام علامہ اقبال ہے جنہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا اور
اس خواب کی تکمیل کیلئے اپنی شاعری کے ذریعے جہد مسلسل کی۔
ہاں ، وہی علامہ محمد اقبال کہ جو ہمارے قومی شاعر ہیں اور ان کی شاعری میں
اک درد کے ساتھ شعور آگہی ہے، شکوہ جواب شکوہ سمیت ان کی شاعری میں اسلام
کی تبلیغ کے ساتھ احساسات کو اجاگر کرنے کی کوششیں تھیں اور وہ کاوشیں
تاحال ان کی شاعری میں ہیں۔
وہی علامہ اقبال کے جن کی لکھی نظمیں اور ترانے آج بھی جب ہم پڑھتے یا کسی
سے بھی سنتے ہیں تو ہمیں انفرادیت محسوس ہوتی ہے۔
ان کا انداز شاعرانہ کلام موجود دور ہی نہیں اس دور کے شعراء سے بھی منفرد
تھا۔ یہ احساس و جذبات ہمیں اب بھی محسوس ہوتے ہیں۔
زمانہ طالبعلمی میں ہمارے اردو کے اساتذہ کرام ہمیں اقبال کی شاعری جس
انداز میں پڑھاتے تھے ، بسا اوقات ہی نہیں اکثر اوقات وہ خود اقبال میں ،
ان کی اقبالیات میں گم ہو جایا کرتے تھے۔ ان کا انداز تدریس قابل تحسین ہوا
کرتا تھا۔
ہاں ، اسی اقبال ، اسی قومی شاعر علامہ اقبال کا آج یوم پیدائش ہے اور
ہمارے حکمرانوں نے علامہ اقبال کے یوم ولادت کو مدنظر رکھتے ہوئے عام تعطیل
کا اعلان کیا ہے اور آج پوری قوم، قومی شاعر کی یوم تعطیل پر گھروں میں
آرام کرتے ہوئے آج ان کی پیدائش کی خوشی میں آرام فرما رہی ہو گی۔
تعلیمی ادارے بھی آج کے دن بند ہیں اور یقیناً یہ اک قابل غور کے ساتھ قابل
توجہ نقطہ ہے کہ آج قومی شاعر کے یوم پیدائش پر تعلیمی اداروں میں ان کی
شاعری کو مدنظر رکھتے ہوئے خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جانا چاہئے تھا
لیکن مرحوم قومی شاعر کے اعزاز میں ایسا کرنے کے بجائے عام تعطیل کر دی گئی
اور عام تعطیل کے دن ہماری قوم انفرادی و اجتماعی طور پر صرف آرام سے ہی اس
دن کو گذار دیتی ہے۔ اس بات سے بے فکر اور قطع نظر ہو کر کے انہیں آج کی
چھٹی کیوں کر دی گئی ہے۔ یقینا اس اقدام کے آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو
آنے والے وقتوں میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی
شاعر کی یوم ولادت کے روز قوم کو چھٹی دینے کے بجائے قومی شاعر کی خدمات کو
عوام کے سامنے رکھتے ہوئے ان سے مستفید ہونے کے ساتھ سبق حاصل کرنے کی
ترغیب دی جاتی، ایسا کیا جاتا تو اس اقدام کے بہت ہی مثبت اثرات سامنے آتے۔
گوکہ وہ شاعر مشرق وطن عزیز کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی 21 اپریل 1938
میں خالق حقیقی کے پاس چلے گئے لیکن جاتے جاتے وہ ، وہ کچھ دے گئے تھے کہ
اب بھی ان کی دی ہوی شاعری کی ، ان کے پیغام کی صورت میں، ہمیں ان کی یاد
کے ساتھ ان کے پیغام کو بھی یاد دلاتی ہے اور ہمیں ، ہمارے وجود کے مقصد
حیات کو ہمارے اندر اجاگر کرتی ہے۔
وہ چلے گئے اور قیام پاکستان سے پہلے ہی چلے گئے، اللہ رب العالمین سے
علامہ اقبال کے درجات کی بلندی سمیت تمام شہداء و مرحومین کے ایصال ثواب
کیلئے ہم بحیثیت انفرادی و اجتماعی طور پر پوری قوم دعاگو ہیں اور رہیں گے۔
اس کے ساتھ ہی قومی شاعر کے خدمات کو ہم حراج عقیدت اسی صورت میں پہنچا
سکتے ہیں کہ جب ہم ان کی شاعری کو ، ان کے پیغام کو نہ صرف خود پڑھیں بلکہ
اپنی بچوں کو اپنے حلقہ احباب و نئی نسل کو بھی اس حوالے سے آگاہ کریں۔
بحیثیت انفرادی و اجتماعی ہم جس طرح سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی
جناح کہ جنہوں نے وطن عزیز کو حاصل کرکے ہمیں اک آزاد ملک دیا ، اسی طرح
علامہ اقبال کی شاعری اور ان کی نوجوان نسل کو آزاد ملک کے حصول کی جدوجہد
کیلئے تیار کرنے کے عمل و خدمات کو بھی کبھی نہیں بھلا سکتے ہیں، ہمارے ملک
کے حکمرانوں کے ساتھ تعلیمی اداروں کو بھی یہ چاہئے کہ وطن عزیز میں ہم
وطنوں کو ان سابق و بیش بہا مرحومین رہنمائوں کی خدمات کو ہمارے سامنے
رکھتے ہوئے ان کے مقاصد کے حصول کیلئے جدوجہد کرنے کے لئے تیار کریں۔ ایسا
کیا گیا تو یقیناً یہ قوم مقاصد حصول آزادی کو حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھے
گی اور وہ وقت بھی آئے گا کہ جب کامیابی ان کے قدم چومے گی ، انشاء اللہ ۔
۔ ۔ |