23 ستمبر 2011 کی شام جگجیت سنگھ
، پاکستانی غزل گائیک غلام علی کے ہمراہ، ممبئی کے ایک ہال میں غزل سرا
ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ان دونوں نابغہ روزگار شخصیات کی تصاویر سے مزین
اشتہار چھپ چکے تھے ساری دنیا میں ، غزل کے قدردان اس محفل کے بے چینی سے
منتظر تھے ،غلام علی سے جگجیت سنگھ کی دوستی 1980 سے چلی آرہی تھی جس کا
آغاز برطانیہ میں ہوا تھا۔ محفل سے ایک رات قبل جگجیت سنگھ کہہ چکے تھے کہ
غلام علی جیسے استاد کے ہمراہ گانا، ان کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ ہوگا
اور یہ ان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔
غلام علی کے بارے میں انہوں نے کہا تھا:
” جب وہ بھارت آتے ہیں تو ممبئی میں میرے گھر آتے ہیں۔ہم موسیقی کے بارے
میں بھی گفتگو کرتے ہیں لیکن زیادہ تر وقت گھر اور خاندان کے بارے میں بات
ہوتی ہے۔ہم انیس سو اسی میں لندن میں ایک موسیقی کی محفل کے دوران ملے تھے
اور تب سے ہی یہ دوستی چلی آرہی ہے۔“
تقریب سے ایک رات قبل ان کو برین ہیمبرج ہوا ، ہنگامی طور پر دماغ کی سرجری
کی گئی ۔ ۔ ۔ بلاآخر ریاست راجھستان کے شری گنگا نگر میں سرکاری ملازم امر
سنگھ اور ان کی پتنی بچن کور کے یہاں پیدا ہونے والے جگموہن عرف جگجیت سنگھ
کا 8 فروری 1941 کو شروع ہونے والا سفر 10 اکتوبر 2011 کی صبح آٹھ بجے
ممبئی کے لیلا وتی اسپتال میں تمام ہوگیا!
لوگ کہتے ہیں کہ جگجیت سنگھ کے لہجے سے سماعت کو ایک سکون ملتا ہے اور ان
کی گائی ہوئی غزلوں کا تاثر ایک طویل عرصے تک قائم رہتا ہے، اداسی کا رنگ
رومانوی رنگ میں بدل جاتا ہے، ان کی غزل سنئے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی
پچھلے پہر خالی گھر کی سیڑھیاں اتر رہا ہو۔ ۔ ۔ ۔ وہ زندگی کی راہ میں
خوابوں کے متلاشی افراد کے پسندیدہ گلوگار تھے!
ایک وقت میں وہ اپنی بیگم چترا سنگھ کے ساتھ مل کر گایا کرتے تھے ، دونوں
کی شادی 1970 میں ہوئی تھی ، اپنے وقت کی یہ مقبول جوڑی اس وقت ٹوٹ گئی جب
نوے کی دہائی کے اوائل میں ان کا اکلوتا بیٹا لندن میں ایک حادثے میں چل
بسا۔ چترا سنگھ نے اپنے شوہر کا گھر بھی چھوڑا اور گانا بھی! پھر کئی برس
گزر گئے جب چترا سنگھ کو احساس ہوا کہ وہ جو اب تک اپنے شوہر کو اپنے بیٹے
کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتی تھی، دراصل غلطی پر تھی، تب وہ گھر لوٹ آئی!
ممبئی سے راقم کے شناسا ایک انگریزی رسالہ لیتے آئے تھے، رسالے میں چترا
سنگھ کا انٹرویو شائع ہوا تھا، یہ انٹرویو وہ اپنے بیٹے کی موت کے ایک طویل
عرصے بعد دینے پر رضا مند ہوئی تھی، چتر ا سنگھ کے مطابق اس سانحے کے بعد
جیسے اس کا گلا ہی بند ہوگیا تھا اور یہ کیفیت چودہ برس تک قائم رہی، اس نے
لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا اور عملی طور پر گوشہ نشین ہوگئی تھی۔ اس
نے کہا: ” چودہ برس تک یہ کیفیت رہی، پھر ایک صبح میں اپنے بیٹے کی تصویر
کو دیکھ رہی تھی کہ اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں خدا کے دیے ہوئے تحفے
(آواز) سے ناانصافی برت رہی ہوں،ہمارا بیٹا ویویک بھی تو ہماری آوازوں کا
مداح تھا،پھر میں نے تہیا کیا کہ میں اپنے بیٹے کے لیے گاؤں گی لیکن ریاض
چھوڑے مدتوں بیت چکی تھی اور اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد میری آواز نے
میرا ساتھ نہ دیا۔“
سن 2005 میں چترا سنگھ اپنے شوہر کے ہمراہ آسٹریلیا گئی ، مداحوں کا خیال
تھا کہ وہ گائے گی لیکن وہ حاضرین کی پہلی رو میں بیٹھی رہی اور اپنے شوہر
کی حوصلہ افزائی کرتی رہی۔جگجیت نے اس محفل کا آغاز اپنی اس غزل سے کیا، ’
’کچھ نہ کچھ تو ضرور ہونا تھا، سامنا آج ان سے ہونا تھا“۔ جگجیت کی دوسری
غزل تھی ” جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں“، اور حاضرین موقع کی
مناسبت سے گائی گئی ان غزلوں پر داد دیتے رہے۔
جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی چند مشہور غزلیں و گیت یہ ہیں:
۔اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے
۔اپنے ہونٹوں پر سجانا چاہتا ہوں
۔آدمی، آدمی کو کیا دے گا
۔ہر طرف ہر جگہ بے شمار آدمی
۔چراغ و آفتاب گم، بڑی حسین رات تھی
۔اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
۔چاک جگر کے سی لیتے ہیں
۔پتھر کے خدا، پتھر کے صنم، پتھر ہی کے انساں پائے ہیں
۔تو نہیں غم نہیں شراب نہیں، ایسی تہنائی کا جواب نہیں
۔یہ دولت بھی لے لو، یہ شہرت بھی لے لو
۔تیرے خوشبو میں بسے خط میں جلاتا کیسے
۔تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
۔جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
۔آپ کو دیکھ کر دیکھتا رہ گیا
۔وہ خط کے پرزے اڑا رہا تھا
۔ہم تو ہیں پردیس میں، دیس میں نکلا ہو گا چاند
۔کل چودھویں کی رات تھی
۔گلزار کی ٹیلی فلم مرزا غالب کی غزلیں
۔میری زندگی کسی اور کسی
۔دن گزر گیا انتظار میں (چترا سنگھ کے ساتھ)
۔اللہ جانتا ہے (لتا منگیشکر کے ساتھ)
۔عشق کی داستان ہے پیارے
۔غم کا خزانہ تیرا بھی ہے میرا بھی (لتا منگیشکر کے ساتھ)
۔عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا (چترا سنگھ کے ساتھ )
۔ڈھل گیا آفتاب اے ساقی
۔اپنی مرضی کے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
سن 1976 میں جگجیت سنگھ نے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا جب ان کی پہلی البم
ریلیز ہوئی، ان کی غزلوں اور گیتوں پر مشتمل 80 کیسٹس منظر عام پر آئیں،
دنیا بھر میں گھومے اور داد سمیٹی، 2003 میں بھارتی حکومت نے انہیں تیسرے
بڑے اعزاز پدم بھوشن سے نوازا۔
لتا منگیشکر، آشا بھونسلے، جاوید اختر، شبانہ اعظمی،مہیش بھٹ،پنکج ادھاس
اور من موہن سنگھ نے جگجیت سنگھ کی موت پر اظہار افسوس کیا۔
پاکستان کے دنیا ٹی وی چینل پر آج 10 اکتوبر 2011 کی رات 8 سے 9 کے درمیان
مبشر لقمان کا پروگرام جگجیت سنگھ پر تھا، پروگرام میں لتا منگیشکر، رضا
مراد، پنکج ادھاس، دیپک گٹانی، جاوید صدیقی (جگجیت سنگھ کے دوست اور کہانی
کار: دل والے دلہنیا لے جائیں گے)، دلیر مہدی اور گلزار کے تاثرات سنوائے
گئے، یہ تمام لوگ پروگرام کے میزبان کے ہمراہ ہندوستان سے آن لائن تھے۔
گلزار کہہ رہے تھے کہ
"غم ابھی تازہ ہے، گلے سے اترا نہیں، مردہ خانے میں ان کی میت رکھی ہے، ان
کے بھائی کے پہنچنے پر کل آخری رسومات ادا کی جائیں گی، میں ابھی ابھی وہیں
سے لوٹآ ہوں، کل صبح دوبارہ جاؤں گا، مٹی ابھی تازہ ہے، ٹھنڈی نہیں ہوئی
(یہاں گلزار کی آواز بھرا گئی)۔۔۔ مہدی حسن وہاں غزل کے شہنشاہ بیٹھے ہیں،
وہ (جگجیت سنگھ ) ان کے لیے دعا کیا کرتا تھا اور دعا کرتے کرتے خود چلا
گیا، وہ بہت بڑا مداح تھا مہدی حسن کا، ہم بھی عبادت کی طرح مہدی حسن صاحب
کا نام لیتے ہیں"
ٹیلی فلم مرزا غالب کے تعلق سے گلزارنے کہا کہ
"" دیکھئے میں تو جگجیت سنگھ کو مرزا جگجیت سنگھ کہتا تھا""
یاد رہے کہ جگجیت سنگھ چند برس پیشتر مہدی حسن صاحب سے ملاقات کی غرض سے
کراچی آئے تھے اور علاج کے لیے پانچ ہزار ڈالر دے گئے تھے۔
مبشر لقمان، جگجیت سنگھ کی حس مزاح کا ذکر کرتے ہوئے دیپک گٹانی سے کہہ رہے
تھے کہ جگجیت سنگھ لاہور آئے تو میں انہیں ویلج ریستوران میں رات کے کھانے
پر لے گیا، وہاں ایک فنکار گارہا تھا، جگجیت سنگھ کو دیکھ کر وہ ان کے
احترام میں انہی کی ایک غزل گانے لگا، جگجیت سنگھ سنتے رہے اور پھر چپکے سے
میرے (مبشر لقمان) کان میں کہا:
"" اینوں پچھو، پوری تے نیں سنائے گا ؟""
مبشر لقمان کہہ رہے تھے کہ جگجیت سنگھ پاکستان میں کئی خیراتی اداروں کو
پیسے دیا کرتے تھے، اس شرط پر کہ ان کا نام کہیں نہ آئے۔
جاوید صدیقی کہہ رہے ہیں کہ جگجیت سنگھ ایک عمدہ انسان تھے، ان کا خمیر
خلوص اور محب سے گندھا تھا، جس کو ملے اس کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ان کا سب
سے بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں غزل کے ذریعے اردو کو زندہ
رکھا۔
دیپک گٹانی نے کہا کہ ان کا آخری وقت تکلیف میں گزرا، وہ ایک خوش لباس
انسان تھے، ہم نے ان کو ہمیشہ ہنستے بولتے ہی دیکھا تھا، جب یہ خبر سن کر
ہم لیلا وتی اسپتال پہنچے تو ان کو اس حالت میں دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔
جاوید اختر اور شبانہ اعظمی، جگجیت سنگھ کی رہائش گاہ پر پہنچے ہوئے تھے
اور مختلف ٹی وی چینلز کو اپنے تاثرات ریکارڈ کروا رہے تھے۔
ان کی گائی ہوئی ایک مشہور غزل ’ ٹھکراؤ اب کہ پیار کرو، میں نشے میں ہوں‘
کا مصرع ہے:
گرنے دو تم مجھے میرا ساغر سنبھال لو
اب یہ ساغر کون سنبھالے گا ؟ |