وطن عزیز پاکستان کو خدا تعالیٰ نے بے شمار
نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت ملک کی عوام میں موجود بے پناہ
ذہانت اور ہنر ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر، ڈاکٹر ثمر مبارک مند، حکیم محمد سعید
شہید اور دیگر کا تعلق اسی ارض پاک سے ہے جن کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا
ایک زمانہ متعرف ہے۔ ان تمام افراد کے بارے میں جان کر اندازہ ہوتا ہے کہ
یہاں ذہانت، صلاحیت اور قابلیت کی کمی نہیں۔ اس وقت میں جس عظیم اور قابل
ہستی کا تذکرہ کرنے لگا ہوں ان کا نام مرحوم ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی ہے
اور یہ وہ قابل انسان تھے جنہوں نے نہ صرف پاکستان و ہندوستان بلکہ دنیا
بھر میں اپنے سائنسی تجربات کا لوہا منوایا۔ پاکستان ان ہی کی بدولت سائنسی
اور صنعتی تحقیق کے راستے پر گامزن ہوا۔
ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی 19 اکتوبر1897ء کو بھارت کے قصبے سوبیہا (اتر
پردیش) میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لکھنوء سے حاصل کی۔
ڈاکٹر صدیقی نے 1919ء میں ایم اے او کالج (جو کہ بعد میں علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی بن گئی) سے اردو اور فلسفے میں گریجویشن مکمل کی، 1920ء میں لندن
چلے گئے جہاں ایک سال ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کی۔ 1921ء میں کیمیا کی تعلیم
کے لئے فرینک فرٹ یونیورسٹی چلے گئے۔ 1927ء میں ڈاکٹر صدیقی نے جرمنی میں
پروفیسر جولیس وون بریم کی زیرنگرانی فلسفے کی ڈگری حاصل کی اور پھر واپس
بھارت آگئے اور طبیا کولج دہلی میں آیورویدک اینڈ یونانی طبی ریسرچ
انسٹیٹیوٹ حکیم امجد خان کی زیر سرپرستی کھولا جس میں ڈاکٹر صدیقی نے
ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔
ڈاکٹر صدیقی کی طب کے شعبے میں پہلی تحقیقی کامیابی 1931ء میں ہوئی جب
انہوں نے روولفیاءسپرینٹینا کی جڑ سے ایک اینٹی ارریتھمیک ایجنٹ کو الگ کیا۔
انھوں نے اپنے دریافت کردہ نئے کیمیائی احاطے کا نام اجملین رکھا جو کہ ان
کے استاد حکیم اجمل خان کے نام پر تھا۔ اس اہم کامیابی کے بعد ڈاکٹر صدیقی
نے روولفیاءسپرینٹینا سے دیگر کئی مرکبات جن میںاجملی نائن، اجملی سائن۔
آئی ایس او اجملین، این ای او اجملین، سرپنٹائن اور سرپنٹی نائن جیسے
مرکبات کے گروہ کو نکالا۔ اب بھی دنیا بھر میں ان کے متعدد مرکبات کا
استعمال ذہنی و قلبی بیماریوں کے علاج کے لئے کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صدیقی نے
کیمیات سائنس پر کافی تحقیق کی اور کئی عرصے تک نیم اور دوسرے پودوں کے
منفرد کیمیائی مرکبات کی کلاسی فکیشن میں مصروف رہے جس میں انہیں کامیابی
بھی ملی۔ ڈاکٹر صدیقی وہ پہلے سائنسدان تھے جو این تھملیٹک،اینٹی فینگل،
اینٹی بیکٹیریکل اور وائرس کے خلاف عمل نیم کے مرکباتی اجزاءتیار کرنے میں
کامیاب ہوئے۔ 1942ء میں انھوں نے نیم کے تیل سے تین مرکبات نمبین، نمبنین
اور نمبدین تیار کئے۔ یہ مرکبات مستحکم ہیں اور نیم میں کافی مقدار میں
پائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صدیقی نے پچاس سے زائد مرکبات تجربات کے ذریعے دریافت
کئے۔
حکیم امجد خان کی وفات کے بعد 1940ء میں انھوں نے انڈین کونسل فور سائنٹیفک
اینڈ انڈسٹریل ریسرچ میں کام شروع کیا جوکہ 1951ء تک جاری رہا۔ 1947ء میں
جب پاکستان بنا تو ملک کو سائنسی اور صنعتی اعتبار سے ترقی کی ضروت تھی۔ اس
سلسلے میں 1951ء میں ڈاکٹر صدیقی نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی
خان کی درخواست پر پاکستان ہجرت کی اور پاکستان کونسل اوف سائنٹیفک اینڈ
انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کی بنیاد رکھی اور ادارے کے ڈائریکٹر کی
حیثیت سے کام شروع کیا۔ ڈاکٹر صدیقی کی سربراہی میں پی سی ایس آئی آر نے
سائنسی اور صنعتی تحقیق پر کام شروع کیا۔ اس ادارے کی ضلعی لیبارٹریز مشرقی
پاکستان کے ڈھاکہ، راج شاہی اور چٹاگانگ جبکہ مغربی پاکستان کے لاہور اور
پشاور میں کھولیں۔ پھر 1953ء میں انھوں نے ذاتی طور پر ملکی سائنسدانوں کے
لئے پاکستان اکیڈمی اوف سائنسز قائم کی اور دیگر اداروں پر توجہ دینے کے
ساتھ ساتھ اس اکیڈمی میں بھی تحقیقاتی سرگرمیوں کو فروغ دیتے رہے۔ 1956 ء
میں جب پاکستان میں جوہری تحقیق کے لئے (پی اے ای سی) پاکستان اٹومک انرجی
کمیشن کا قیام کیا گیا تو ڈاکٹر صدیقی کو ادارے کا تکنیکی رکن مقرر کیا گیا۔
1958ء میں ڈاکٹر صدیقی کو ان کی سائنسی قیادت کے اعتراف میں فرینکفرٹ
یونیورسٹی نے ڈی میڈ ہونورس کوسا کی ڈگری دی اور اسی سال گورنمنٹ اوف
پاکستان نے بھی انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ 1960 ء میں ڈاکٹر سلیم الزمان
پاک انڈین اوشن سائنس ایسوسی ایشن کے صدر اوررویل سوسائٹی کے فیلومنتخب
ہوئے۔ 1962ء میں ان کو سائنس اور طب کے شعبے میں بہترین کارکردگی کے اعتراف
میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ 1966ء میں ڈاکٹر صدیقی کو ریٹائرمنٹ کے وقت
ان کی قابلانہ خدمات کے اعتراف میں صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ اوف
پرفورمنس میڈل عطا کیا گیا جب وہ صرف پی سی ایس آئی آر کے ڈائریکٹر اور
چیئرمین کی حیثیت سے ہی کام کر رہے تھے۔ ہمارے ملک میں ایسے بہت کم لوگ ہیں
جنہوں نے اپنی کارکردگی کے اعتراف میں سات سے زائد ایوارڈز حاصل کئے
ہوں۔1967ء میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر صدیقی کو کیمسٹری کے پوسٹ گریجویٹ
انسٹیٹیوٹ کو قائم کرنے کے لئے مدعو کیا اور ان کو ادارے کے بانی و
ڈائریکٹر کا عہدہ دیا جبکہ ادارے کے لئے دیگر تحقیقی اسٹاف پی سی ایس آئی
آر کی طرف سے فراہم کیا گیا۔ بعد میں ڈاکٹر صدیقی نے اس ادارے کو کیمیا اور
قدرتی اجزاءکی تحقیق کے ایک بڑے ادارے میں بدل دیا اور یہ ادارہ حسین
ابراھیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ اوف کیمسٹری کے نام سے مشہور ہوا۔ 1975ء میں
ڈاکٹر صدیقی کی تحقیقاتی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں نیشنل کمیشن فور
انڈی جینس میڈیسن کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 1980ء میں گورنمنٹ اوف پاکستان نے
ڈاکٹر صدیقی کو سائنس و ٹیکنولوجی کے فروغ کے لئے انتھک محنت اور کاوشوں کی
بدولت ہلال امتیاز کا تمغہ دیا۔ 1983ء میں ڈاکٹر صدیقی نے دنیا کی تیسری
سائنس اکیڈمی بنانے کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر صدیقی نے 1990ء سے لے
کر اپنی زندگی کے آخری ایام تک حسین ابراھیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ اوف
کیمسٹری میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے اپنی تحقیقاتی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
ان تمام سرگرمیوں کے علاوہ ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی بہترین شاعر، موسیقی کے
ماہر اور مصور بھی تھے۔ ان کی مصوری کی نمائش پاکستان، جرمنی اور بھارت میں
کی گئی۔ ڈاکٹر صدیقی نے اپنے جرمنی کے دورے کے دوران جرمن شاعر رائنر ماریہ
رلکیز کی شاعری کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ ڈاکٹر صدیقی کی وفات طویل علالت
کے باعث 14 اپریل 1994ء کو کراچی میں ہوئی۔ ڈاکٹر صدیقی نے اپنی ساری زندگی
صرف ملکی تحقیقی خدمات میں صَرف کی اور وہ پاکستان کی تحقیق ترقی کے فروغ
میں لگے رہے۔
گورنمنٹ اوف پاکستان نے 14 اپریل 1999ء کو ڈاکٹر صدیقی کی یاد میں پی سی
ایس آئی آر کراچی سے منسلک سڑک کا نام شاہراہ ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی رکھا
جبکہ پاکستان پوسٹ نے بھی اسی سال ڈاکٹر صدیقی کی یاد میں خصوصی پوسٹ ٹکٹس
کا اجراءکیا۔ اس کے علاوہ ان کے چاہنے والے دوست اور طالب علم بھی ان کے
نام سے اداریے اور تحقیقی مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر صدیقی ہمارے ملک کی قابل شخصیت تھے اور انھوں نے ملک کی ترقی کے لئے
دن رات کام کیا لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اردو خصوصاً درسی کتب ،
اخبارات اور رسالوں سمیت انٹرنیٹ پر اردو زبان میں ان کے نام کا ایک مضمون
بھی نہیں۔ میڈیا تقریباً ہر سال بیسیوں فلم اسٹارز و دیگر کی سالگرہ اور
وفات مناتا ہے مگر سائنسدان سلیم الزمان صدیقی جیسے عظیم لوگوں کی یاد میں
کوئی دن نہیں منایا جاتا۔
ہمارے ملک کے کسی بھی عام و خاص شخص سے ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی کے بارے
میں پوچھا جائے تو اس کو ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں گویا ڈاکٹر صدیقی
خاص نام ہوتے ہوئے بھی گم نام ہیں۔ وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرتیں جو اپنے
ہیروز اور قابل لوگوں کو بھول جایا کرتی ہیں۔ ان کے نام کا استعمال ٹکٹس
اور شاہراہوں پر کرنے سے بہتر ہے کہ ہم ان کی تحقیقی سرگرمیوں کو مزید فروغ
دیں تاکہ ڈاکٹر صدیقی کی محنت اور کاوشوں کا مقصد پورا ہو سکے۔ |