باعث افتخار
(Iftikhar chaudhry, Rawalpindi)
پنجاب پولیس کا کردار |
|
گولی کیوں چلائی؟ باعث افتخار انجنیئر افتخار چودھری
پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں جب بھی عوامی مظاہروں یا احتجاجی تحریکوں کا ذکر آتا ہے تو اکثر ایک سوال ابھرتا ہے: "گولی کیوں چلائی گئی؟" یہ سوال نہ صرف مظلوم عوام کے دلوں میں ایک کسک بن کر رہ جاتا ہے بلکہ تاریخ کے اوراق میں بھی ایک تلخ حقیقت کے طور پر درج ہو جاتا ہے۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پیش آنے والے حالیہ واقعات، خاص طور پر نو مئی کے سانحے کے بعد، ایک بار پھر اس سوال کو زندہ کر گئے ہیں۔ پرسوں میرے گاؤں نلہ (ہری پور) میں میرے بھانجے کے ولیمے کی تقریب میں، میرے ساتھ ایک مہمان بیٹھے ہوئے بڑے جہان دیدہ شخص تھے ۔ ان کے ساتھ ہونے والی گفتگو نے کئی تلخ حقائق کو آشکار کیا۔ انہوں نے خیبر پختونخوا پولیس اور پنجاب پولیس کا موازنہ کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ کے پی کے پولیس اپنے اصولوں اور پیشہ ورانہ دیانتداری کے حوالے سے زیادہ بہتر تصور کی جاتی ہے۔ ان کے الفاظ تھے، "پنجاب پولیس بڑی ظالم پولیس ہے۔" ایک محکمہ جنگلات کے آفیسر کی یہ بات ۔میرے دل کو لگی ۔
یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ایک ہی ملک میں دو مختلف پولیس فورسز میں ایسا فرق کیوں ہے؟ کیا یہ نظام کی خرابی ہے، یا پھر حکومتی ترجیحات میں فرق؟ یہ سوالات ہمیں اس بات کی طرف لے جاتے ہیں کہ پنجاب میں ہونے والی حالیہ زیادتیوں کا جواز کیا تھا؟
حماد اظہر، جو پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے صدر ہیں، بھی یہی سوال کرتے ہیں۔ ان کی قیادت میں کارکنوں نے بے مثال قربانیاں دیں اور ہر مشکل کا سامنا کیا۔ ان کا کہنا ہے، "پنجاب پولیس بڑی ظالم پولیس ہے، لیکن ہم نے ہار نہیں مانی۔" ان کی قیادت میں پنجاب کے تمام ایم این ایز، ایم پی ایز اور ٹکٹ ہولڈرز نے ڈٹ کر مزاحمت کی۔ خاص طور پر راولپنڈی اور این اے 57 کے لوگوں نے جس طرح اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر قربانیاں دیں، وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنا نہ صرف ہمارا فرض ہے بلکہ ایک قومی ذمہ داری بھی ہے۔
این اے 57 کے عوام کی جدوجہد نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنی آزادی، حقِ رائے دہی اور قانون کی بالادستی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ان کی ہمت اور قربانیوں نے دکھا دیا کہ پنجاب کے عوام کسی بھی طور کمزور نہیں۔ وہ ہر ظلم کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں اور اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ جو کوئی بھی اس گولی چلانے کے عمل میں ملوث ہے، چاہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہو، رینجرز، پولیس یا کوئی اور ادارہ، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ظلم عظیم پاکستان مسلم لیگ نون، ان کے اتحادیوں، اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ذریعے کیا گیا ہے۔ ان جماعتوں نے اقتدار کی ہوس میں عوام کے حقوق کو پامال کیا اور ملک کو ایک خطرناک صورتحال سے دوچار کر دیا۔
کوٹلی ستیاں کا 19 سالہ نوجوان، جو ہاتھ میں عمران خان کی تصویر تھامے کھڑا تھا، ایک سنائپر کی گولی کا نشانہ بن کر شہید ہو گیا۔ اس کے جنازے نے کئی لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، لیکن سوال وہی رہا: "گولی کیوں چلائی؟"
پنجاب میں جو واقعات پیش آئے، ان کا جواز دینے کے لیے حکومتی مشینری نے ہر ممکن کوشش کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی جانوں کا نقصان کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں۔ عارف حمید بھٹی نے بالکل درست کہا، "شہباز شریف کے منہ کو خون لگا ہوا ہے۔" ماڈل ٹاؤن اور سبزہ زار کے واقعات ان کے ماضی کا حصہ ہیں، جہاں گولی چلانے کا فیصلہ کئی معصوم جانوں کا قاتل بن گیا۔
یہ تمام حالات پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرناک ہیں۔ پختونخوا اور بلوچستان میں عوام پہلے ہی ناراض ہیں۔ ایسے میں اگر پنجاب میں بھی عوام کو مظالم کا سامنا کرنا پڑے گا تو کیا یہ ملک کے لیے مثبت ہوگا؟
نو مئی کا دن پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ حکومت نے مظاہرین پر الزام لگایا کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف سازش کر رہے تھے، لیکن یہ سوال ہمیشہ باقی رہے گا کہ ان پر گولی چلانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا مظاہرین کو امن کے ساتھ منتشر نہیں کیا جا سکتا تھا؟ کیا مذاکرات کا راستہ بند ہو چکا تھا؟
یہ تمام سوالات ایک نئے دور کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، جہاں عوام اپنی قربانیوں کے ذریعے تبدیلی کے راستے بنا رہے ہیں۔ پنجاب کے عوام، خاص طور پر این اے 57 اور راولپنڈی کے لوگوں نے جو قربانیاں دیں، وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ کسی بھی ظلم کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور قوم اپنی سمت درست کریں اور یہ سمجھیں کہ گولی کسی مسئلے کا حل نہیں۔ انسانی جانوں کا تحفظ اور آئین و قانون کی بالادستی ہی ہمارا اصل مقصد ہونا چاہیے۔ یہ ملک ہم سب کا ہے، اور اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ |