۵ نومبر( ۲۰۲۴) کو امریکی انتخابات کا دن صرف امریکی
تاریخ میں ہی نہیں بلکہ انسانی تاریخ میں بھی اپنی اعلی جمہوری اقدار کی
وجہ سے ایک یاد گار دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ایک ایسا دن جب جمہوریت
فتح سے ہمکنار ہو ئی اور اسٹیبلشمنٹ کو عوامی رائے کے سامنے گھٹنے ٹیکنے
پڑے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈولنڈ ٹرمپ ایک متلون مزاج انسان ہیں اور
اپنی گفتگو میں احتیاط کا مظاہرہ کم ہی کرتے ہیں لیکن حالیہ واقعات نے
انھیں ایک ایسے قائد کی صورت میں پیش کیا ہے جو امن و سلامتی اور رواداری
کا داعی ہے ۔اسرائیل نے حالیہ دنوں میں مسلمانوں اور عربوں کا جس بے رحمی
سے قتلِ عام کیا ہے اس نے مسلمانوں کو امریکی صدر جو بائیڈن،نایب صدر کملا
ہیرس اور اسرائیلی وزیر ِاعظم نیتن یاہو سے بہت متنفرکر دیا تھا۔مسلمان
اپنے معصوم بچوں ،عورتوں ،بیماروں اور بوڑھوں کے قتل کی ذمہ داری اسرائیل
کے ساتھ ساتھ جو بائیڈ ن انتظامیہ کے کندھوں پر بھی رکھتے ہیں کیونکہ نیتن
یاہو انہی کی ہلا شیری اور پشت پناہی سے قصاب بنا ہوا ہے۔ایرانی صدر اور
فلسطینی قیادت کا کھلے عام قتل انتہائی غیرمعمو لی واقعات ہیں جس نے عالمِ
اسلام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔کون ہے جو اپنے نو نہالوں اور بیٹیوں کی موت
کو برداشت کر سکتا ہے ؟ جو بائیڈن اور کملا ہیرس کے اقتدار کے سائے میں
امریکی اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پر کھڑی تھی وہ اگرچاہتی تونتائج کچھ بھی ہو
سکتے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔کسی نے کوئی مداخلت نہیں کی ایک صاف،
شفاف اور غیر جانبدار عمل نے جمہوریت کی روح کو تازگی عطا کر دی ۔عوامی
طاقت کا ایسا شاندار مظاہرہ ہوا جس میں جو بائیڈن ، کملا ہیرس اور
اسٹیبلشمنٹ کی اندھی قوت عوامی طاقت کے سامنے خش و خاشاک کی طرح بہہ گئی ۔
جمہور یت جیت گئی اور ہارنے والے بس دیکھتے رہ گئے کہ ووٹ کی طاقت کا اصلی
رنگ ایسا ہی ہوتا ہے۔،۔
دنیا آزادیوں اور جمہوریت کی طرف محوِ سفر ہے جبکہ ہم غداری کے سرٹیفکیٹ
تقسیم کر کے مخا لفین کو جیلوں میں بند کرنے میں مشغول ہیںِ۔ایسے ایسے
مضحکہ خیز مقدمات تیار کئے جاتے ہیں کہ سوائے شرمندگی کے کچھ بھی ہاتھ نہیں
آتا۔پاکستان میں سب سے آسان کام مقدمہ دائر کرنا اور غداری کے سرٹیفکیٹ
تقسیم کرنا ہے۔کسی زمانے میں کافری سرٹیفکیٹ کا بڑا رواج تھا جو اب غداری
میں بدل گیا ہے۔قائدِ اعظم،علامہ اقبال ، ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے
نظیر بھٹو کا روانِ کافری کا حصہ تھے ۔محترمہ فاطمہ جناح غداروں کی صف میں
شامل کر لی گئی تھیں۔پاکستان بنانے والے ہی غدارِ وطن ٹھہریں تو ہم کس سے
فریاد کنا ں ہو ں گے؟طاقت کے نشہ میں مدہوش اسٹیبلشمنٹ ہر بار عوامی شعور
سے شکست کھاتی ہے لیکن پھر بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتی۔عوامی رائے کے سامنے
خود کو سر نگوں کر نا اس کے بس میں نہیں ہے۔وہ اپنی طاقت پر اتنی زیادہ
نازاں ہے کہ وہ عوامی رائے کو اپنے بوٹوں تلے روندھ دیتی ہے۔نہتی عوام کے
پاس خاموشی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا لہذا وہ سب کچھ سہتی چلی
جاتی ہے۔اسے اس دن کا انتظار ہو تا ہے جب وہ اپنے ووٹ کی قوت سے زورا وروں
کاسارا غرور خاک میں ملائے لیکن بدقسمتی کی انتہا تو دیکھیئے کہ ۸ فروری کو
ووٹ کا تقدس بھی پامال کر دیا گیا اور ایک ا یسے قائد کو پسِ زندان پھینک
دیاگیا جس نے انتخابات کو سویپ کیا تھا ۔ جسے اقتدار کی مسند پر ہونا تھا
وہ پچھلے کئی ماہ سے جیل میں بند ہے اور نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت
رہاہے۔آزادی کے سورج کو روکنا شائد اب کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہے۔آزادی کا
عزم ایک ایسا خواب ہے جسے حقیقت بن کر رہنا ہے ۔جبرو کراہ،ظلم و ستم اور
سفاکیت اسے روک نہیں سکتی کیونکہ عوامی سوچ کو شکست دینا ناممکنات میں سے
ہو تا ہے۔لوگ جاگ جائیں تو آمریت کو بھاگ جانا ہو تا ہے۔شام کی تازہ بترین
مثال ہمارے سامنے ہے کہ اسد خاندان کا ۵۴ سالہ اقتدار کیسے ہوا میں اڑ
گیا۔(بڑے ہی تیر تفنگ چلے تھے دل پر گہرے وار ہوئے تھے ۔،۔کیسے سونے والے
لوگ نیند سے خود بیدار ہوئے تھے)۔،۔ (نکل پڑے تھے راہِ وفا پر لہو میں
بھیگے پرچم لے کر ۔،۔ا ن کے نعروں کی ضربوں سے درو دیوار ہلے ہوئے تھے ) ۔
،۔
باعث ِ حیرت ہے کہ امریکی انتخابات میں لا پتہ افراد کا معاملہ نہیں
ہوا،کسی کا اغوا نہیں ہوا،کسی کا انتخابی نشان نہیں چھنا ،کسی کے کاغذاتِ
نامزدگی مسترد نہیں ہوئے ، کسی کو نا اہل نہیں کیا گیا، کسی کو بزورِ قوت
جماعت بدلنے پر مجبور نہیں کیا گیا،کہیں ضمیر کی آوازیں سنائی نہیں دیں
اورنہ ہی کہیں پر بھی ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر کسی کی بیوی اور بچوں کو
یر غمال بنایا گیا۔جس جماعت کو ووٹ کاسٹ کیا گیاوہ ا سی جماعت کا مقدر بنا
۔ فارم ۴۷ کا المیہ پاکستان جیسے ملک میں ہی رونما ہو سکتا ہے۔جہاں پر
ہارنے والے پارلیمان کا حصہ بن جاتے ہیں جو کہ پارلیمان کی سب سے بڑی توہین
ہے ۔لوگ محوِ حیرت ہیں کہ دنیا کی غیر مسلم ریاستیں آئین و قانون اور عدل و
انصاف کا علم تھامے دنیا کو اپنی اعلی روایات سے اپنا گرویدہ بنائے ہو ئے
ہیں جبکہ مسلمان اپنے ایمان کا سودا کرنے، ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے اور
نا انصافی کا بیڑہ اٹھانے میں مگن ہیں ۔ اسلام کی تو بنیاد ہی عدل و انصاف
اور حق و صداقت پر رکھی گئی ہے لیکن مسلم حکمران اسی کو ملیا میٹ کرنے میں
مگن ہیں۔انھیں اپنے اقتدار سے زیادہ کسی چیز میں دلچسپی نہیں۔ امریکہ کی
ریاستی پالیسی سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کے ہاں ووٹ کو عزت دو کا
بیانیہ سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ عوام الناس کی رائے اور اس کا احترام ہی
امریکہ کی ترقی ،اتحاد اور مضبوطی کا ضامن ہے۔سیاست ہار جیت کا نام ہے
۔کوئی جما عت سدا اقتدار میں رہ نہیں سکتی لہذا اس کیلئے ضروری ہو تا ہے کہ
ایسے قواین وضع کئے جائیں جس سے آزادانہ رائے کا اظہار ممکن ہو سکے۔دنیا کا
طاقتو رترین انسان ایک نحیف، کمزور،محروم،مفلس،مہقور، بے بس،لاچار اور
مفلوک الحال انسان کی پرچی سے ہار جائے تو میں تو اسے موجودہ دنیا کا معجزہ
ہی کہوں گا جو غیر مسلم ممالک میں رونما ہو تا ہے ۔ چودھری،لارڈ، ملک ،
جاگیردار ، سردار ،وڈیرہ اور سر مایہ دار اقتدار کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے
ہیں اسی لئے ووٹ کے تقدس کو پامال کرتے ہیں اور ہار کر بھی جیت جاتے
ہیں۔کوئی ان کا بازو مروڑ نہیں سکتا کیونکہ بازو مروڑنے والے خود ان کی سر
پرستی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔جبر وکراہ اور ظلم و ستم کی اندھیر ی رات
میں ووٹ ایک شمع کی مانند ہوتا ہے لیکن اس شمع کو بھی حریت پسندوں کے
ہاتھوں سے چھین کر انھیں منجمند اندھیروں کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔بقولِ
غالبؔ۔(ظلمت کدہ میں میرے شبِ غم کا جوش ہے ۔،۔ اک شمع ہے دلیلِ سحر سوخا
موش ہے )۔امیدِ واثق ہے کہ اس کرہِ ارض پر جہاں ابھی تک ریاستی جبر اور نا
انصافی کا دور دورہ ہے اس کا خاتمہ ہو گا اور ایک نئی سحر ہمارا مقدر ہو
گی۔(آؤ جمہور کی طاقت کا جگ میں سب کو رنگ دکھائیں۔،۔پیارو محبت والا گیت
مل کر آج سارے گائیں)۔،۔(ایسی بستی کریں آبادجس پر ہو انصاف کا
پہرہ۔،۔تمیزِ بندہ و آقا کو اس دھرتی سے سدا مٹائیں)۔،۔
|