منموہن سنگھ : اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور

ڈاکٹر سلیم خان
طن عزیز کی یہ کمال ستم ظریفی ہے کہ جو شخص تمام عمر سیاست کی غلاظت سے دور رہا اس کی موت بھی سیاست کی نذر ہو گئی۔ بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے ایکس پر لکھا ’’یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کی استھیاں وِسرجن کیے جانے کے وقت کانگریس یا گاندھی فیملی کا ایک بھی رکن موجود نہیں تھا۔‘‘ آگے کیچڑ اچھالتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا کہ ’’میڈیا کی توجہ کھینچنے اور سیاست کرنے کے لیے کانگریس موجود تھی، لیکن جب انھیں احترام دینے کی بات آئی تو وہ ندارد ہو گئے۔ واقعی شرمناک ہے۔‘‘ ڈاکٹر منموہن سنگھ صرف کانگریس کے رہنما نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم تھے۔ اس لیے مالویہ کو بتانا چاہیے تھا کہ وہاں سرکار کی نمائندگی کون کررہا تھا؟ موصوف سنگھ پریوار تو ڈاکٹر منموہن سنگھ کو بدنام کرنے کی مہم یعنی جھوٹ بنااورپھیلانے میں لگا ہوا تھا ۔ افسوس کہ ان کی موت کے دوہفتہ بعد بھی میموریل قائم کی زمین انتخاب نہیں ہوسکا ۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ کا ’استھی وِسرجن یعنی باقیات کو ندی میں بہائے جانے کے وقت کانگریسیوں کی غیر حاضری کاسبب پون کھیڑا نے یہ بتایا کہ ’’فیملی کی پرائیویسی کا احترام کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر رہنما ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کی استھیوں کو چننے اور بہانے کے لیے فیملی کے ساتھ نہیں گئے۔ لیکن آخری رسومات کے بعد سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی نے ان کی رہائش پر پہنچ کراہل خانہ سے ملاقات کی تھی۔ان سے بات چیت کے بعد یہ محسوس کیا گیا چونکہ آخری رسومات کے وقت فیملی کو پرائیویسی نہیں ملی اور کچھ اراکین چِتا والی جگہ پر نہیں پہنچ پائے، اس لیے انھیں پھول چننے اور استھیوں کو بہانے کے لیے پرائیویسی دینا مناسب ہوگا۔ وہ اعزا ء واقارب کے لیے جذباتی طور سے تکلیف دہ اور مشکل وقت ہوتا ہے۔‘‘پون کھیڑا نےیہ الزام بھی لگایا کہ ’’ملک کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کو حکومت نے مناسب احترام نہیں دیا ۔ لیکن بعد میں منموہن سنگھ جی کی بے عزتی کرنے والے لوگ ان کے استھی وِسرجن پر بھی گھناؤنی سیاست کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘

2004 میں جب سونیا گاندھی نے اٹل جی کو شکست فاش سے دوچار کردیا تو ان کی غیر ملکی پیدائش وزارتِ عظمیٰ کی راہوں کا روڈا بن گئی۔ اس وقت راہل گاندھی بہت ہی نو عمر تھے اس لیے ان کو وزیر اعظم بنانا بھی ممکن نہیں تھا ۔ ایسے میں سونیا چاہتی تھیں کہ ایک ایسے شخص کو وزیر اعظم بنایا جائے جس کے اندر سیاسی آرزو مندی نہ ہو اور جو ان کی بلا چوں چرا تابعداری کرتا رہے یعنی بوقتِ ضرورت راہل گاندھی کے لیے اپنی کرسی خالی کردے ۔ ایسے میں ان کے سامنے وزیر اعظم کے لیے پرنب مکرجی اور منموہن سنگھ کے نام تھے ۔ سونیا گاندھی نے منموہن سنگھ کا انتخاب کرکے پرنب مکرجی کو صدر مملکت بنوا دیا ۔ اس طرح وہ خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل گیا۔ ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی بہترین کارکردگی نے انہیں 2009 میں دوسری بار اس عہدے پر فائز کردیا اور انہوں نے اپنی دونوں مدت کار میں کئی اصلاحات کیں جو ان کی معاشی اصلاحات نے پردے میں چھپ گئیں ۔

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی سب سے اہم اصلاحات میں سے ایک قومی دیہی روزگار گارنٹی کا قانون تھا۔ اسے 2005 میں متعارف کرایا گیا اور اس کے تحت ہر دیہی گھرانے کو کم از کم 100 دن کی اجرت کے روزگار کی ضمانت دی گئی۔ یہ عوام کو مفت میں اناج تقسیم کرکے ان پر احسان جتانے کی حکمت عملی سے مختلف طریقۂ کار تھا۔ اس کے تحت کروڈوں لوگوں کو عزت نفس کے ساتھ روزی روٹی کمانے کا موقع ملتا تھا اور دیہی انفراسٹرکچر میں بہتری بھی آتی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس کو گڑھے کھودنے اور بھرنے کی اسکیم کہہ کر مذاق اڑاتے تھے مگر اقتدار سنبھالنے کے بعد اسے بند کرنے کی جرأت نہیں کرسکے کیونکہ وہ بہت بنیادی ضرورت تھی۔ معیشت کی دنیا سے نکل کر 2005میں ہی منموہن سرکار نے آر ٹی آئی قانون کے ذریعہ ملک کے عام باشندوں کو سرکاری حکام سے معلومات حاصل کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اس طرح حکمرانی میں شفافیت اور جوابدہی کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔ یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا مگر یہ بہت افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ حکومت نے اس قانون کو مختلف تکنیکی بہانوں سے تقریباً معطل کردیا ہے۔

منموہن سنگھ نے عوام کو شناختی کارڈ مہیا کرنے کی خاطر آدھار پروجیکٹ کا آغاز کیا ۔ اس کے تحت تمام باشندوں کو منفرد شناخت فراہم مہیا کرکے مختلف سرکاری خدمات تک رسائی کی سہولت فراہم کی گئی ۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت نے ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر سسٹم کو لاگو کیا، جس کے ذریعہ سرکاری فلاحی اسکیموں کی ترسیل کو براہِ راست مستحقین تک پہنچانے کا بندوبست کیا گیا۔ اس سے بچولیوں اور دلالوں کے استحصال سے عوام کو نجات ملی اور بدعنوانی پر روک لگی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے زمانے میں تعلیم اور غذا کے حق کا قانون وضع کیا گیا اور اس بات کی ذمہ داری سرکار پر ڈالی گئی کہ ملک کا کوئی شہری بھوکا نہ سوئے اور نہ کوئی بچہ بنیادی تعلیم سے محروم رہے۔ یہ ان کی غریب پروری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے سچرّ کمیٹی کی رپورٹ تیار کروا کر ان تمام فرقہ پرستوں کو آئینہ دکھا دیا کہ جو اپنے مخالفین پر مسلمانوں کی خوشامد کا الزام لگاکر اپنی سیاست چمکاتے تھے۔ اس رپورٹ نے مسلمانوں کو خواب خرگوش سے بیدار کردیا۔ اس کے بعد ملت کے اندر تعلیم و معیشت کے حوالے سے بیداری کی ایک لہر آئی ۔

منموہن سنگھ کو اتفاقی ، کمزور اور کٹھ پتلی وزیر اعظم کہا جاتا تھا ۔ ان کی خاموش طبعی کے سبب انہیں مونی بابا بھی کہا جاتا تھا مگر 2008 میں انہوں نے امریکہ کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کرکےیہ ثا بت کردیا کہ وہ اپنے ارادوں پر کس ثابت قدم تھے ۔ اس وقت یو پی اے سرکار دائیں بازو کی جماعتوں پر ٹکی ہوئی تھی اور وہ سب امریکہ کے ساتھ جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے معاہدے کی مخالفت کررہی تھیں ۔ اتفاق سے ہاوڑی مودی اور نمستے ٹرمپ کا نعرہ لگانے والی بی جے پی بھی اس کےخلاف تھی ۔ ان میں دائیں بازو کی مخالفت نظریاتی تو بائیں بازو کی خالص سیاسی مفادات کے تحت تھی ۔ 2012 میں ان کی کانگریس حکومت اپنے سب سے بڑے اتحادی کے الگ ہوجانے کی وجہ سے اقلیت میں آ گئی مگر گری نہیں۔ اس وقت یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ اشتراکیوں کے حمایت واپس لے لینے کے سبب یوپی اے سرکار گرجائے گی اس لیے سونیا گاندھی بھی حمایت کرنے سے ڈر رہی تھیں لیکن منموہن سنگھ نے 38؍ ماہ تک اس کے لیے محنت کرتے رہے اور کامیاب ہوئے ۔
سماجوادی پارٹی کے رہنما امر سنگھ کی مدد سے ملائم سنگھ یادو کو اپنے ساتھ لے کر منموہن سنگھ نے نہ صرف امریکہ سے معاہدہ کیا بلکہ سرکار کو گرنے سے بھی بچالیا ۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ خاموش طبع رہنما کوئی نرم چارہ نہیں بلکہ لوہے کا چنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اندرونِ ملک اس تاثر کے باوجود کہ سونیا گاندھی حکومت میں اصل طاقت ہیں عالمی سطح پر رہنماؤں نےانہیں وسیع پیمانے پر عزت و احترام سے نوازہ ۔ اس حقیقت کا مظاہرہ ان کی موت کے بعد دنیا بھر سے آنے والے تعزیتی پیغامات سے بھی ہوا۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ایک صاف و شفاف وزیر اعظم کے خلاف بدعنوانی تحریک چلائی گئی۔ مودی جی نے انہیں رین کوٹ پہن کر( بدعنوانی کے پانی سے) نہانے والا وزیر اعظم کہا اور ان کے خلاف بے شمار بہتان طرازی کی گئی۔ بالآخر رام دیو بابا اور کیجریوال کی تحریکات کے سبب 2014میں کانگریس پارٹی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑااور نریندر مودی اقتدار کی کرسی پر فائز ہوگئے۔

بی جے پی نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے منموہن سنگھ کو نشانے پر لیا۔ اس لیے کہ اسے ان کی تنقید سے ڈر لگتا تھا۔ نوٹ بندی سے متعلق ان کی پیشنگوئی صد فیصد درست نکلی کہ جی ڈی پی دو فیصد گھٹ جائے گی اور اگر کبھی غیر جانبدارانہ تفتیش ہو تو سازش والا الزام بھی ثابت ہوجائے گا۔ منموہن سنگھ کے گھر پر چھاپہ مارنے والی ای ڈی کی ٹیم کو بے نیل و مرام لوٹنا پڑا کیونکہ ان کے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا ۔ بی جے پی نے بدعنوانی کا شور مچا کر انتخاب تو جیت لیا مگر عدالت میں شواہد پیش کرنے کی بات آئی تو وہ چاروں خانے چت ہوگئی اور منموہن سمیت ان کے کسی وزیر پر کوئی بدعنوانی کا الزام ثابت نہیں ہوسکا ۔ ایسے میں ان تمام لوگوں کو آنجہانی وزیر اعظم سے معافی مانگنی چاہیے تھی مگر موجودہ سیاست میں اس کا رواج نہیں ہے۔

عدالتی فیصلوں سے قطع نظر منموہن کی سادہ طرزِ زندگی اور ایمان داری کے سبب انہیں کو ذاتی طور پر بدعنوان کہنے کی ہمت کوئی نہیں کرسکا تو ان پر اپنے حکومتی اراکین کے خلاف سخت کارروائی کرنے میں ناکامی کے سبب تنقید ہوتی رہی حالانکہ اس زمانے میں کم ازکم جن پر الزام لگا تھا ان کا استعفیٰ تو لیا گیا اب تو وہ بھی نہیں ہوتا ۔ آج کل نہ تو اجئے کمار ٹینی اور نہ برج بھوشن سرن سنگھ کسی پر کارروائی نہیں ہوتی بلکہ ان کو بچانے کی پوری کوشش ہوتی ہے۔ برج بھوشن کو دوبارہ ٹکٹ دینا مشکل ہوجاتا ہے تو اس کے بیٹے کو نواز کر ایک مجرم کی ناز برداری کی جاتی ہے۔ ایک پارلیمانی نشست کو بچانے کی خاطر نامور خواتین کھلاڑیوں پر ظلم کرنے والے کی خوشامد ہوتی ہے اور ایسا کرنے والے منموہن سنگھ کی موت پر گندی سیاست کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ امیت مالویہ کے ذریعہ منموہن پر سیاست کرنے والوں پر آنس معین کے یہ ا شعار صادق آتےہیں ؎
اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور،اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور
شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ،بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2130 Articles with 1499695 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.