نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی عرب کے ولی عہد
شہزادہ محمد بن سلمان باہمی ریاستی تعلقات کو نئی جہت دینا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ
چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کھل کر ان کے ساتھ چلے، محمد بن سلمان بھی یہی
چاہتے ہیں، حتیٰ کہ بات تیل کی فراہمی اور اربوں ڈالر کی تجارت سے ”پُر امن
ایٹمی پروگرام“ کی طرف چل نکلی ہے۔ یہ سفر کٹھن اور دشوار ہوگا مگر ناممکن
نہیں۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ محمد بن سلمان امریکا میں تاریخ کی بڑی سرمایہ
کاری کریں جب کہ سعودی ولی عہد چاہتے ہیں کہ وہ امریکا کے ساتھ اپنے
اسٹریٹیجک تعلقات کو نہ صرف وسعت دیں بلکہ امریکا ایٹمی پروگرام میں ان کی
مدد کرے۔ محمد بن سلمان نے امریکا کے ساتھ اپنے ملک کی سرمایہ کاری کو 600
ارب ڈالر تک بڑھانے کا وعدہ کیا ہے، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے ایم بی ایس کی یہ
سرمایہ کاری کم ہے، وہ چاہتے ہیں کہ محمد بن سلمان اس سرمایہ کاری کو 1000
ڈالر تک بڑھا دیں، ان کی یہ خواہش ہی نہیں وہ پُر امید ہیں کہ محمد بن
سلمان ایسا کر گزریں گے۔ ٹرمپ سعودی ولی عہد کو ایک شاندار آدمی قرار دیتے
ہیں۔ اپنے پہلے دورِ اقتدار میں انہوں نے سب سے پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا
تھا اور اب بھی یہی ارادہ رکھتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں سعودی عرب نے امریکا میں نمایاں سرمایہ
کاری کی تھی۔ مگر امریکا سعودی عرب کا نیا سفرصرف سرمایہ کاری تک محدود
نہیں رہے گا، دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کر
لی ہیں، جبکہ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد موقع بھی ہے اور دستور بھی۔
ریاض چاہتا ہے کہ واشنگٹن اس کے ساتھ ایک ایسا دفاعی معاہدہ کرے کہ خطے میں
اس پر کوئی آنچ نہ آئے۔ ان خواہشات کا اظہار ریاض نے گزشتہ امریکی انتظامیہ
سے بھی کیا تھا مگر امریکی حکومت نے دفاعی معاہدے کو سعودی عرب اور اسرائیل
کے درمیان تعلقات کی بحالی سے مشروط کیا تھاجبکہ غزہ کی پٹی میں چِھڑنے
والی حماس اسرائیل جنگ نے اس معاملے کو مزید اُلجھا دیا۔ ریاض نے اسرائیل
سے دو ریاستی حل کا مطالبہ کر رکھا ہے جسے اسرائیل مسترد کرتا چلا آرہا
ہے۔سعودی عرب ایک پُرامن ایٹمی پروگرام کا خواہاں ہے مگر اسرائیل کو اس پر
تحفظات ہیں۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس سے مشرقِ وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی
ایک دوڑ شروع ہو جائے گی۔ اب اگر امریکا اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی
معاہدے کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے تو یہ اس وقت تک مشکل ہے جب تک سعودی عرب
اور اسرائیل کے تعلقات بہتر نہیں ہوتے۔ امریکا چاہتا ہے اور اپنے تئیں
متعدد کوششیں کر چکا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات بحال ہوں تاکہ
خلیج تعاون کونسل کے ذریعے سعودی عرب کے کندھے پر بندوق رکھ کر چینی اور
روسی اثرورسوخ کا مقابلہ کیا جائے۔
سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات میں گرمجوشی کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں
دیکھنا ہوگا کہ امریکا کے حریف ممالک روس، چین اور ایران پر اس کے کیا
اثرات مرتب ہوں گے۔امریکا اور سعودی عرب کے دفاعی اور اقتصادی تعلقات دنیا
کے جغرافیائی سیاسی حالات پر گہرا اثر ڈالیں گے جبکہ چین، روس اور ایران پر
نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔
حالیہ برسوں میں سعودی عرب اور چین کے درمیان توانائی، تجارت اورخاص طور پر
Belt and Road initiative کے حوالے سے تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ اگر
سعودی عرب اپنے دفاع اور تجارت میں امریکا کو زیادہ ترجیح دیتا ہے تو یہ
چین کے لئے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔ کیونکہ چین مشرقِ وسطیٰ میں اپنی اقتصادی
اور اسٹریٹیجک موجودگی کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی طرح روس اور سعودی
عرب OPEC کے پلیٹ فارم پر مل کر کام کرتے ہیں۔ اگر سعودی عرب امریکا کے
ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرتا ہے تو تیل کی پیداوار اور قیمتوں کے
معاملات میں روس کے ساتھ اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس طرح روس کے لئے
مشرقِ وسطیٰ میں اپنا اثر برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ امریکا اور
سعودی عرب کے مضبوط تعلقات روس کے اثرورسوخ کو کم کر سکتے ہیں جبکہ امریکا
مشرقِ وسطیٰ میں اپنا اثر برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گا۔ چین اور روس جو
اپنی اسٹریٹیجک شراکت داریوں پر انحصار کرتے ہیں، سعودی عرب اور امریکا کے
قریب ہونے سے کمزور ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد
کرنے والا ملک ہے، اگر اس کے تجارتی روابط امریکا کے ساتھ بڑھ جاتے ہیں تو
یہ چین کے لئے ایک مسئلہ بن سکتا ہے جو سعودی عرب سے تیل خریدنے والا ایک
بڑا ملک ہے۔ روس کو بھی توانائی کی تجارت اور جغرافیائی و سیاسی اثرورسوخ
کے معاملات میں نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر سعودی عرب اور امریکا کے دفاعی
تعلقات مضبوط ہوتے ہیں تو یہ چین اور روس کو مجبور کرے گا کہ وہ اپنی حکمت
عملیوں کو مزید جارحانہ بنائیں۔ یہ اقدام دنیا میں ایک نئی سرد جنگ جیسی
صورت حال کو جنم دے سکتا ہے۔
امریکا اور سعودی عرب کے مضبوط دفاعی اور اقتصادی تعلقات کا ایران پر بھی
گہرا اثر پڑے گا، کیونکہ ایران مشرقِ وسطیٰ کی سیاست اور سلامتی میں ایک
اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ریاض اور واشنگٹن کے مضبوط تعلقات تہران کے لئے
خطرے کی گھنٹی ہوں گے، کیونکہ یہ تعلقات ایران کے علاقائی اثرورسوخ کو
محدود کرنے کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں۔ امریکا سعودی عرب کو جدید دفاعی
ہتھیار فراہم کرے گا جو خلیج فارس میں ایران کے لئے ایک بڑا چیلنج بن سکتے
ہیں اور ایران کو مشرقِ وسطیٰ میں مزید تنہا کیا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب پہلے
ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا تھا، امریکا کے قریب ہونے
کی صورت میں دوبارہ ایران سے دور ہو سکتا ہے۔ ایران پہلے ہی امریکی
پابندیوں کی وجہ سے اقتصادی مشکلات کا شکار ہے، اس ممکنہ اتحاد کی وجہ سے
مزید دباؤ میں آجائے گا۔ توانائی، تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں خطے
میں ایران کے لئے مواقع مزید محدود ہو جائیں گے۔ اس کے لئے سیکورٹی کے
خدشات بڑھ جائیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی تک سعودی عرب کی رسائی ایران کے لئے
فوجی طاقت کے توازن کو مزید پیچیدہ بنا دے گی۔
ایران ممکنہ طور پر روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مضبوط کرے گاتا
کہ وہ امریکا سعودی اتحاد کا مقابلہ کر سکے۔ روس اور چین ایران کو دفاعی
اور اقتصادی طور پر معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔ لیکن اس سے ان دو ممالک پر
ایران کا انحصار بڑھ جائے گا جو اس کی خود مختاری کے لئے چیلنج ہو سکتا ہے۔
امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات اگر ایران کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی پر
عمل کریں تو خطے میں شیعہ سنی تنازعات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ یمن، عراق اور
شام جیسے ملکوں میں پراکسی جنگوں کے خطرات میں اضافہ ہو جائے گا۔ خطے میں
اپنی سفارتی حیثیت مضبوط کرنے کے لئے مزید چیلنجز کاسامنا کرنا پڑے گا۔
امریکا اور سعودی عرب کے مضبوط دفاعی اور اقتصادی تعلقات کا پاکستان پر بھی
نمایاں اثر پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، خلیجی ممالک
کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات اور چین کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کے تناظر
میں ایک اہم کھلاڑی ہے۔ دفاع، توانائی اور مالی امداد کے شعبوں میں سعودی
عرب پاکستان کا اہم اتحادی ہے۔ اگر سعودی عرب امریکا کے قریب ہوتا ہے تو
پاکستان کو سعودی عرب سے مالی اور اقتصادی حمایت کے تسلسل میں مشکلات پیش
آسکتی ہیں، کیونکہ سعودی عرب اپنی توجہ امریکی مفادات پر مرکوز کرے گا۔
سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں ممکنہ تبدیلی پاکستان کے خلیجی ممالک کے
ساتھ تعلقات پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔
پاکستان چین کے ساتھ گہرے اقتصادی تعلقات رکھتا ہے۔ اگر سعودی عرب اور
امریکہ کے تعلقات چین کے خلاف بڑھتے ہیں تو پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی
میں توازن برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان کے
لئے چین اور سعودی عرب دونوں اہم ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کے لئے اہم سرمایہ
کاراور تیل کا بڑا فراہم کنندہ ہے،سعودی عرب سے پاکستان کو تیل کی فراہمی
اور اقتصادی امداد کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ پاکستان اور سعودی
عرب کے درمیان مضبوط دفاعی تعلقات ہیں لیکن امریکا سعودی معاہدے سے سعودی
عرب میں پاکستان کے دفاعی کردار میں کمی آئے گی کیونکہ دفاعی ضروریات کے
لئے سعودی عرب پاکستان کے بجائے امریکا پر انحصار کرے گا۔ اسی طرح پاکستان
کو ایران اور سعودی عرب کے درمیان توازن قائم رکھنے میں مشکلات ہوں گی۔
امریکا اور سعودی عرب کے نئے ممکنہ مضبوط تعلقات کے بعد اگر امریکا خطے میں
بھارت پر اپنا انحصار بڑھا دیتا ہے تواس سے پاکستان کی اسٹریٹیجک اہمیت کم
ہوگی۔ بھارت کے ساتھ سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے تعلقات پاکستان کے لئے ایک
اسٹریٹیجک چیلنج بن سکتے ہیں۔ امریکا اور سعودی عرب کے قریب آنے سے امریکا
کا جھکاؤ بھارت کی طرف مزید بڑھ جائے گا، اس طرح سعودی عرب کی کشمیر کے
حوالے سے پاکستان کی حمایت میں کمی آسکتی ہے۔ پاکستان کے لئے ضروری ہوگا کہ
وہ اپنی سفارتی حکمت عملی کو مضبوط کرے، چین اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات
کو متوازن رکھے اور داخلی سطح پر معیشت کو مستحکم کرے تاکہ ممکنہ چیلنجز کا
مقابلہ کیا جاسکے۔
|