میں شاکرہ نندنی، میں کوئی بڑے بڑے اظہارِ عقیدت کی قائل
نہیں۔ میری ماں کے لیے میرا خراجِ تحسین کسی شاندار تقریب یا چراغاں میں
نہیں، بلکہ ایک خاموش لمحے میں چھپا ہوتا ہے—ایک گمنام سے ریستوران میں
بیٹھ کر ایک وہسکی کا گھونٹ لینا، اپنے خیالات میں کھو جانا۔ یہ ایک معمولی
سا لمحہ لگ سکتا ہے، مگر میرے لیے یہ لمحہ پوری زندگی کے سفر کی عکاسی ہے۔
یادیں، جدائی، وقت کی بے رحمی، اور زندگی کا وہی پرانا دائرہ جو چلتا ہی
رہتا ہے۔
ابھی کچھ دیر پہلے میں اپنی بیٹی نٹاشا کو اس کے ہاسٹل چھوڑ کر واپس آ رہی
تھی۔ جیسے ہی میں کار میں بیٹھی، ایک انجانی سی اداسی نے مجھے آ گھیرا۔
شاید یہ وہی خاموشی تھی جو ماں بننے کے بعد دل میں اتر آتی ہے، جب بچہ
آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہو جائے تو ایک خالی پن سا محسوس ہونے لگتا ہے۔
گاڑی چلاتے چلاتے میں ماضی میں کھو گئی—اپنی ماں کی یادوں میں۔
وہ ہمیشہ کہتی تھیں، "زندگی کسی کے لیے نہیں رکتی، لیکن ماں کی محبت ہمیشہ
تمہارے ساتھ رہے گی۔" آج جب میں اپنی بیٹی کو پیچھے چھوڑ کر آ رہی تھی، تو
ان کا ہر لفظ میرے دل میں پھر سے گونجنے لگا۔ وہ بھی تو ایک ماں تھیں،
انہوں نے بھی مجھ سے بچھڑنے کا دکھ جھیلا ہوگا، مگر کبھی شکایت نہیں کی۔
میں نے سوچا، کیا میری نٹاشا بھی ایک دن یہی محسوس کرے گی؟
راستے میں ایک ریستوران دیکھ کر میں نے گاڑی روک دی۔ اندر جا کر خاموشی سے
ایک گوشے میں بیٹھ گئی اور وہسکی کا ایک گلاس منگوایا۔ یہ وہی مشروب تھا جو
کبھی خوشی، کبھی غم میں میرا ساتھی رہا۔ میں نے پہلا گھونٹ لیا، آنکھیں بند
کیں، اور یوں محسوس ہوا جیسے ماں میرے سامنے بیٹھی ہوں، مسکرا رہی ہوں، مجھ
سے باتیں کر رہی ہوں۔
"کیسی ہو، بیٹا؟ تھک تو نہیں گئی زندگی سے؟"
نہیں ماں، میں تھکی نہیں، بس کبھی کبھی دل بھاری ہو جاتا ہے۔ جیسے آج۔ جیسے
ابھی۔ نٹاشا کو ہاسٹل میں چھوڑ کر جب لوٹی تو دل میں ایک عجیب سا سناٹا اتر
آیا۔ آپ کو یاد کیا، آپ کی وہ ممتا بھری نظروں کو محسوس کیا جو میرے ہر درد
کو بنا کہے سن لیتی تھیں۔
اس گھونٹ کے ساتھ میں نے اپنی الجھنوں کو اندر اتار لیا، مگر وہ یادیں… وہ
تو وہیں کی وہیں رہ گئیں۔
میں نے کھانے کا مینو دیکھا مگر بھوک محسوس نہ ہوئی۔ ویٹر آیا، میں نے
انکار میں سر ہلا دیا۔ وہ سمجھ گیا، شاید میرے جیسے کئی لوگ یہاں آ کر صرف
اپنے خیالات کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ میں نے گلاس ہاتھ میں پکڑا، ماں کے لیے
ایک خاموش ٹوسٹ کیا۔
"ماں، تم جہاں بھی ہو، میں تمہیں محسوس کرتی ہوں۔"
رات گھر پہنچ کر نیند آ تو گئی مگر خوابوں میں پھر ماں کی پرچھائیاں نظر
آئیں۔ انہوں نے کچھ کہا نہیں، بس اپنی مخصوص مسکراہٹ سے مجھے دیکھتی رہیں،
جیسے کہہ رہی ہوں "میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔"
اگلی صبح جب آنکھ کھلی تو دل کا بوجھ کچھ ہلکا تھا۔ میں جانتی تھی، میری
زندگی رکنے والی نہیں۔ مجھے چلنا تھا، آگے بڑھنا تھا، نٹاشا کے لیے، اپنی
ماں کی یاد کے لیے، اپنے وجود کے اس تسلسل کے لیے جو نسل در نسل چلتا رہتا
ہے۔
آفس پہنچی تو اسٹاف میرا منتظر تھا۔ میں نے ایک گہری سانس لی، مسکرا کر سب
کو دیکھا، اور دل ہی دل میں سوچا:
"زندگی ایک ایسا دائرہ ہے جو چلتا رہتا ہے… اور چلتا ہی رہتا ہے۔"
|