سنتھیا سے آمنہ تک ....روشنی کا سفر

وہ امریکا کی ایک حبشی بستی سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کی معذوری اور اپاہج پن نے اسے اسلام کی طرف راغب کیا۔ وہ ایک اخبار میں کام کرتی تھی۔ اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے وہ ہر روز میلکم ایکس اور مسلمان ہونے والے حبشیوں کی اصلاحی تحریک کے بارے میں پڑھتی تھی۔ اپاہج ہونے کی وجہ سے سوائے مطالعہ کے اس کا کوئی شغل نہ تھا۔ جب وہ پڑھتی کہ میلکم ایکس اور اس کے رضا کار ساتھی لوگوں سے منشیات کی عادت چھڑانے میں کامیاب ہو رہے ہیں ،تو اسے بڑی حیرت ہوتی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں، مگر پھر یہ سوچتی کہ ہو سکتا ہے کہ یہ خبر سچ ہو۔

اس کے پاس اپنے ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تھا، لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ اسے اسلام کے بارے میں پڑھنا چاہیے۔ اس نے اسلام کے بارے میں کچھ کتابیں لیں اور پڑھنا شروع کیں۔ اسلام کے بارے میں ان کتابوں نے اسے خاصا متاثر کیا۔ پھر اس نے انگریزی میں قرآن کے ترجمے کا ایک نسخہ بھی حاصل کیا۔ قرآن کے اس نسخے کو پڑھ کر اسے عجیب طرح کا روحانی سکون ملتا تھا،وہ سمجھتی تھی کہ اگر کوئی بھی شخص دلچسپی اور لگن کے ساتھ قرآن پاک کا مطالعہ کرے تو وہ اس مقدس کتاب کی حقانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، قرآن پاک کے مطالعہ نے اسے بہت بے چین کر دیا۔ اس نے اخبار کے ذریعے یہ پتا چلالیا تھاکہ یہاں اس کے شہرمیںمحمدیوسف ایسا شخص ہے جو مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔اس نے محمدیوسف سے ملنے کا وقت مانگا تو اس نے کہا کہ جب چاہو تم مجھ سے مل سکتی ہو۔ ان سے ملاقات کا وقت طے ہو جانے کے بعد اس نے اطمینان کا سانس لیا۔

اگلے دن دوپہر کے وقت وہ محمدیوسف سے ملنے گئی۔ جب انہوں نے وہیل چیئر پر بیٹھی معذور اور اپاہج لڑکی کو دیکھا تو کچھ پریشان سے ہو گئے، مگر....جب اس اپاہج لڑکی کاحوصلہ دیکھاتواس کی پریشانی خوشی میں بدل گئی۔ محمدیوسف بھی اس کی طرح حبشی تھے، پہلے ان کا نام جان بلکیڈن تھا۔ وہ اس شہر کے مسلمانوں کے سربراہ یا امام تھے۔ وہ مسجد میں نماز بھی پڑھاتے اور وہیں قرآن کی تعلیم بھی دیتے تھے۔انہوں نے ہمدردی بھرے لہجے میں اس سے اس کے بارے میں ساری معلومات حاصل کیں۔

پھر اس نے محمد یوسف سے پوچھا کہ وہ مسلمان کیوں ہوئے ؟ انہوں نے بڑے میٹھے لہجے میں جواب دیا کہ میں اس لیے مسلمان ہوا کہ یہ میری طلب اور اللہ تعالیٰ کی رحمت تھی کہ وہ مجھے سیدھا راستہ دکھائے۔محمدیوسف نے بتایا کہ وہ حبشیوں کے ایک بہت ہی غریب خاندان میں پیدا ہوئے، سن بلوغ کو پہنچے تو ایک ہوٹل میں برتن دھونے کا کام کرنے لگے۔ ہوٹل والے اکثر انہیں ایک پیکٹ دیتے تھے کہ وہ اسے ان کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا دیں ، اس کے بدلے میں وہ انہیں ایک ڈالر دیتے۔ ایک دن یوسف نے سوچا کہ پیکٹ کو کھول کر دیکھنا چاہیے کہ اس میں کیا ہے؟ جب انہوں نے ایک روز اسے کھول کر دیکھا تو اس میں انہیں حشیش ملی۔ انہوں نے وہ حشیش مہنگے داموں فروخت کر دی اور ہوٹل واپس نہیں گئے، مگر ہوٹل والوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا او ران کی خوب پٹائی کی ، اس واقعے کے بعد وہ گناہوں کی دلدل میں اترتے چلے گئے.... وہ عورتوں کی دلالی کرتے ،قحبہ خانوں کی نگرانی کا فرض انجام دیتے.... منشیات کا خفیہ دھندہ کرتے ،اس طرح خود بھی منشیات کے عادی ہو گئے ، انہیں عدالت سے کئی بار سزا بھی ہو چکی تھی۔ جب ایک بار وہ جیل میں تھے تو کچھ لوگ ان سے ملنے آئے۔ یہ مسلمان رضا کار تھے جو قیدیوں میں اسلام کی تبلیغ کر رہے تھے ۔ان کی تبلیغ سے وہ بہت متاثر ہوئے ، ان کا بھی دل چاہنے لگا تھاکہ وہ بھی ایک باعزت زندگی بسر کریں ، جب وہ سزا مکمل کرکے جیل سے نکلے تو ان رضا کار مسلمانوں کی کوششوں سے وہ کافی بدل چکے تھے۔ وہ اپنی مجرمانہ زندگی چھوڑ دینا چاہتے تھے، اس سلسلے میں وہ ان رضا کار مسلمانوں سے ملے ، انہوں نے ان کے لیے روز گار کا بندوبست کیا، کچھ نقد رقم بھی دی، تاکہ جب تک انہیں تنخواہ ملے وہ اس رقم سے گزر اوقات کر سکیں، وہ رضا کار حضرات انہیں اپنے ساتھ رکھنے اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھنے لگے ، یوں محمدیوسف، جرائم کی دلدل سے نکل کرہدایت کی روشنی سے منورہوا۔وہ ایک باصلاحیت نوجوان تھا،ایک ہی سال میں اس نے عربی سیکھ کر پورا قرآن مجید پڑھ لیا ،اسلام قبول کرنے کے چار سال بعداسے اس علاقے کے مسلمانوں کا امام مقرر کر دیا گیا۔ امام بننے کے بعد ااس نے چندہ جمع کرکے وہاں ایک چھوٹی سی مسجدبھی تعمیر کرا دی، اس مسجد کی تعمیر میں اس نے بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ بھرپور حصہ لیا۔

وہ محمدیوسف کی اسلام قبول کرنے کی آپ بیتی سن کراوراس کے جذبہ عمل کودیکھ کر بے حد متاثر ہوئی ۔اس نے یوسف سے اپنی اس خواہش کاظہارکیاکہ وہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوناچاہتی ہے۔ اس کایہ عزم سن کر محمدیوسف نے اسے خوشی ومسرت سے دیکھا ....اس نے اسے رومن زبان میں کلمہ او رنماز کی کتاب بھی دی ....وہ وقتا فوقتامحمدیوسف کے پاس آکردین اسلام کے بارے میں مزید معلومات بھی حاصل کرتی رہی اور ایک دن مسجد میں بہت سے نمازیوں کی موجودگی میں، اس نے اسلام قبول کر لیا او رمسلمان ہو گئی،وہ جمعے کامبارک دن تھا۔

وہ سگریٹ پینے کی بھی عادی تھی اورہر کھانے کے ساتھ تھوڑی شراب بھی پیتی تھی،اسلام قبول کرنے کے بعداس نے یہ سب ترک کر دیا،اس نے جلدہی اسلامی لباس بھی پہننا شروع کردیا۔

وہ بتاتی ہے کہ جب پہلی بار جب میں لمبے چغے اور سر کو بھی ڈھانپ کر گھر سے باہر نکلی تو سب سے پہلے میرے ماں باپ نے میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہا :سنتھیا! یہ کیا پہن رکھا ہے تم نے؟
میں نے ان سے کہا:ٰ میرا نام آمنہ ہے، سنتھیا نہیں۔
یہ سن کر میرے والد نے تو نفرت، حقارت اور استہزا کے ساتھ ساتھ لاپروائی کااظہارکیا،جبکہ میری ماں چیخ کر بولی ’:’ تمہاری جگہ جہنم میں ہے …“ مارے غصے کے اس کی زبان سے الفاظ بھی پوری طرح ادانہیں ہورہے تھے....اس سے پہلے کہ وہ کچھ او رکہتی، میں اپنی وہیل چیئرپرگھرسے باہرنکل آئی ۔ اتفاق سے وہ میری تنخواہ کا دن تھا، تنخواہ ملی تو میں نے اس کا ایک چوتھائی حصہ اپنے علاقے کی مسجد کے فنڈ میں جمع کرا دیا۔ میری ماں کو جب فنڈ دینے کا پتا چلاتو وہ مجھے اور مسلمانوں کومزید کوسنے لگی۔

اس نے بلاخوف لومة لائمین اپنی زندگی کو پوری طرح اسلام کے قوانین وضوابط کے مطابق ڈھالناشروع کردیا،اس کی استقامت کاہی اثرتھاکہ جو لوگ اس پر انگلیاں اٹھاتے تھے بالآخر وہ بھی تھک کر چپ ہو گئے۔

وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ ہی رہ رہی تھی .... ایک کرسمس کے موقعے پر،جبکہ بہت سے مہمان اس کے گھرمیں اکٹھے تھے اور شراب پانی کی طرح پی جارہی تھی،انہوں نے اول تواس کوبھی اس محفل ناؤنوش میں شریک ہونے کی دعوت دی،لیکن جب اس نے صاف انکارکردیاتوانہوں نے زبردستی اسے شراب پلانا چاہی....اس جرات پروہ برافروختہ ہوگئی اوراس نے بھری محفل میں کہہ دیا:”میں لعنت بھیجتی ہوں سب پر “ یہ سنناتھاکہ اس کے والدنے اسے بری طرح مارناپیٹناشروع کردیاکہ تم نے اتنے لوگوں کے سامنے ہماری بے عزتی کرائی ہے،وہ یہ تمام ظلم برداشت کرتی رہی ،مگرشراب جیسی ام الخبائث کوہاتھ تک نہ لگایا۔ اس رات پورا وقت وہ روتی رہی....اس کے دل میں بارہایہ بات آئی کہ گھرچھوڑکرکہیں چلی جائے ،لیکن اس نے گھرچھوڑنے کی بجائے والدین کے ساتھ رہ کران کے حقوق اداکرنے اوراپنے حسن اخلاق سے ان کی کافرانہ زندگی بدلنے کافیصلہ کیا۔

کچھ روز بعد اس نے ایک اہم فیصلہ کیا اور اخبار کی نوکری چھوڑ کر مسلمان رضا کار بن گئی۔ جس کام کے لیے اسے چنا گیا تھا اس میں بہت سے خطرات تھے، مگر اسلام کی خدمت کے جذبے نے اسے حوصلہ بخشا،جس کی وجہ سے وہ ہر خطرے سے لاتعلق وبے نیاز اسلام کا پیغام لے کر جیلوں میں جانے لگی،اس کاکام یہ تھاکہ وہ قیدیوں کو اسلام کی عظمت کے بارے میں بتاتی او رانہیں مجرمانہ زندگی کو چھوڑ کر بہتر زندگی بسر کرنے کے مشورے دیا کرتی تھی۔ جواب میں اکثراس کوحوصلہ شکن ودل دوزردعمل دیکھنے کوملتاتھا،مگراس کے باوجوداس نے ہمت نہیں ہاری۔ جیل میں ایک قیدی نے اسے بتایا کہ شہر میں منشیات کا سب سے بڑا کاروبار برنارڈونامی شخص کا ہے ، ہم سبھی اس کے لیے کام کرتے ہیں ، اس نے برنارڈوکاپتا معلوم کیا ،جس قیدی سے بھی اس نے برنارڈوکے حوالے سے بات کی ،اس نے یہی خیرخواہانہ مشورہ دیاکہ وہ بہت خطرناک آدمی ہے لہٰذا اس سے ملنے کی غلطی نہ کرے، لیکن اس نے دل میں اس سے ملنے کا مصمم فیصلہ کر لیا ....اورایک صبح وہ برنارڈو کے عالی شان گھر پہنچ گئی۔

ملازم اسے اندر جانے سے روکنے لگا، دونوں میں تکرار ہونے لگی ، تکرار کی آواز سن کر ادھیڑ عمر کا ایک مضبوط جسم والا آدمی گھر سے باہر نکلا اور غصے سے بولا: یہ کیا ہو رہا ہے۔ شور کیوں مچا رکھا ہے ؟

وہ سمجھ گئی کہ یہ برنارڈو ہے....اس نے اس سے کہا ” میں آپ سے علیحدگی میں کچھ بات کرنا چاہتی تھی“
برنارڈو نے کچھ تعجب سے اس کی طرف دیکھا اور ملازم کو وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کیا۔ ملازم کے جانے کے بعد برنارڈو نے بڑی نخوت سے کہا ” میں اس طرح کسی سے ملاقات نہیں کرتا، تم معذور ہو، اس لیے تمہاری بات سن رہاہوں، کہو میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں ؟“ اس نے اشاروں کنایوں میں کہا ” مسٹر برنارڈو ، اللہ نے آپ کو سب کچھ دیا ہے ، اب آپ کو ہدایت کی ضرورت ہے “ ۔
یہ سن کر برنارڈو کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور کہا ”نکل جاؤ یہاں سے، تمہیں کس نے بتایا کہ میں یہ کام کرتا ہوں ،اگر مجھے تمہارے اپاہج پن کا خیال نہ ہوتا تو …“ وہ فرط غصہ میں اپنی بات بھی مکمل نہ کرسکا۔
” اگر واقعی تم مجھے اپاہج سمجھتے ہو او رمیرے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو تو اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ دن تک صرف پانچ منٹ ملاقات کا وقت دے دیا کرو “۔اس نے بڑی لجاجت سے کہاتھا،اس کی بات برنارڈوکے دل کوپسیجنے میں کامیاب ہوگئی، بڑنارڈو جیسا شقی القلب شخص قہقہہ لگا کر ہنسا اورپھر بولا :تم ضد کی بہت پکی معلوم ہوتی ہو ، کل اسی وقت آجانا۔

یہ پہلاموقع تھاکہ اس نے کسی کو ملاقات کا وقت دیا اور خلوص سے ملا تھا۔ اس سے روز ملاقاتیں ہونے لگیں، پانچ منٹ کی گفتگو کا دائرہ پھیل کر گھنٹوں تک پہنچ گیا، وہ اس کے سامنے منشیات کی تباہ کاریوں، اس کی وجہ سے لوگوں کی بدحالی او رپھر اسلام کی حقانیت کا ذکر کرتی تھی اور وہ اس کی ساری باتوں کو بغور سنتا تھا۔
ایک دن اس نے سے کہا ”آمنہ ! واقعی انسان کو دنیا میں اچھے کام کرنے چاہییں“
” یہ اللہ کا شکر ہے کہ تمہاری سمجھ میں یہ بات آگئی“ ۔آمنہ نے بڑی مسرت سے جواب دیا۔
یہ اس اپاہج لڑکی کی محنت کااثرتھاکہ چندہی روز بعد برنارڈو نے اپنا کاروبار چھوڑ دیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے مافیا کے تمام سربستہ رازوںسے بھی پردہ اٹھا دیا۔ برنارڈو کے مذکورہ انکشاف سے امریکا میں تہلکہ مچ گیا تھا۔ بڑنارڈو نے اخبار نویسوں سے کہا تھا کہ ” ایک اپاہج اور چلنے پھرنے سے معذور لڑکی نے مجھے وہ طاقت بخشی ہے کہ میں نے برائی کی زنجیروں کو توڑ دیا ہے او ر اپنے اندرکھلی فضا میں اڑنے کی ہمت محسوس کر رہا ہوں۔“

برنارڈوکے دل میں اسلام کی حقانیت پوری طرح گھرکرچکی تھی اورکچھ بعیدنہ تھاکہ وہ جلدیابدیراسلام کی نعمت سے مالامال ہوجاتامگربھلاڈرگ مافیاکے برزجمہروں کویہ کہاں برداشت ہوسکتاتھا،انہوں نے ایک منظم سازش کے تحت جیل میں ہی برنارڈوکوگولی ماردی۔

آمنہ کی محنت سے متعدد افراددائرہ اسلام میں داخل ہوچکے ہیں اوردرجنوں افرادمنشیات کی لت کو چھوڑ کر حقیقی سکون کی راہوں پرگامزن ہوچکے ہیں ۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307916 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More