صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے
پاکستان کا سب سے بڑا اور ترقی کے لحاظ سے سب سے پسماندہ اور مظلوم صوبہ ہے
۔تاریخی اہمیت کا حا مل یہ صوبہ تقسیم ہند سے قبل صوبہ پختونخواہ اور دیگر
شمالی علاقاجات کی طرح برطانوی حکومت کے محض زیر نگراں رہا،اُس وقت یہ صوبہ
قلات ،خاران ،مکران اور لسبیلہ کے ریاستوں پر مشتمل تھا ،جس پر نگرانی کے
لئے برطانوی ایجنٹ مقرر تھا، پاکستان بننے کے بعد 1948ء میںخان قلات
میراحمد خان کے دور میں یہ ریاستیں بادلنخواستہ طور پر پاکستان میں شامل
ہوگئی، پاکستان کا حصہ بننے کے بعد 1956ءکے آئین کے تحت اس صوبے کو مغربی
پاکستان کے یونٹ میں ضم کیا گیا ،اُس وقت یہ صوبہ قلات سٹیٹ اور کوئٹہ چیف
کمشنر صوبے کے نام سے پہچانا جاتا تھا ،1970ءمیں اسے الگ صوبے کی حیثیت
حاصل ہوئی ، اور1973ءتک یہ صوبہ براہ راست گورنر جنرل کے زیر کنٹرول رہا ،جب
ون یونٹ کا خاتمہ ہواتو اس صوبے میں مزید گیارہ اضلاع کو شامل کرکے اسے
بلوچستان کانام دیا گیا، بلوچستان کا کل رقبہ 347190 مربع کلومیٹر ہے جو
پاکستان کے کل رقبے کا 43.65فی صد حصہ بنتا ہے ،صوبے کی کل آبادی 1999ءکے
مردم شماری کے مطابق 6565885نفوس پر مشتمل تھی ،30 اضلاع پر مشتمل اس صوبے
کی آبادی بلوچ ،براہوئی ،پختون اور دیگر آباد کاروں پر مشتمل ہے ، بلوچ ،براہوئی
قبائل کی آبادی رند ،بگٹی ،مری،لاشاری ،عمرانی،مگسی ،لانگو،لہڑی ،جتک ،شہوانی
،بنگل زئی اورمینگل نامی قبائل پر مشتمل ہے جبکہ پختوں قبائل کی آبادی کاکڑ
،اچکزئی ،ترین ،سید ،خلجی اور ناصر نامی بڑے قبائل پر مشتمل ہے جبکہ آباد
کاروں میں ہزارہ، کشمیری اورپنجابی قومیںشامل ہیں۔یہ صوبہ بے انتہا قیمتی
معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کی وجہ سے خطے میں اہم مقام کا حامل ہے ،یہاںسے
حاصل ہونے والے قدرتی گیس ،کوئلے ،سونے اور دیگر قدرتی معدنیات کے وسیع
ذخائر پاکستان کے معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،لیکن صد افسوس
کہ روز اول سے آج تک کے حکمران اس اہم صوبے کو نہایت بے رحمی کے ساتھ نظر
اندازکرتے چلے آئے ہیں ،ان حکمران نے ہر دور میں صوبے کے وسائل کو بے دریغ
استعمال کیالیکن صوبے کوبنیادی اور جائز حقوق دینے میں کبھی بھی مخلص نہ
رہے ،صوبے کو ترقی دینے سمیت یہاں کے عوام کو بنیادی سہولیات زندگی فراہم
کرنے میں ان حکمرانوں نے ہمیشہ دشمنی کا مظاہرہ کیا ۔روز اول سے جاری ان
ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف جب بھی صوبے سے کوئی آواز بلند ہوئی تو ان
صداؤں کوکبھی سازشوں اور کبھی بزور شمشیرسسکیوں میں تبدیل کیا گیا ،صوبے کے
مسائل کو حل کرنے بجائے ظلم و بربریت کے ذریعے یہاں کے قبائل کو پہاڑوں اور
غاروں میں رہنے پر مجبور کیا گیا ،یہا ں کے سرداروں کو میزائل برساکر صفہ
ہستی سے مٹا دیا گیا، یہاں کے مقامی رہنماؤں کی مسخ شدہ لاشیں اور لاپتہ
افراد کی لمبی فہرستیں اُس ظلم و بربریت کی ایک کھڑی ہے جو بلوچستان کے
عوام کے ساتھ روز اول سے جاری و ساری ہے ،ان نا انصافیوں کی وجہ سے
بلوچستان کے عوام میں محرومیاں اور حکومت مخالف جذبات کا پایا جا نا ایک
لازمی امر ہے ،لیکن ہما رے حکمران صوبے کی ان محرومیوں کاازالہ اور مسائل
کا حل سنجیدگی سے کرنے کے بجائے ہمیشہ کی طرح منفی انداز اپنائے ہوئے ہیں ،صوبے
کے مسائل کو حل کرنے اور ان کے حقوق کو تسلیم کرنے کے بجائے عوام کو طاقت
کے استعمال اور جھوٹے دلاسوں ،تسلیوں اور فریبانہ پیکجوں کے ذریعے لُبا نا
ان حکمرانوں کی وہ فاش غلطیاں ہیں جن کو تاریخ کے اوراق میں نا پسندیدہ
الفاظ سے لکھا جائے گا ،بلوچستان کے ساتھ وقت کے حکمرانوں کی یہ دشمنی اور
کھلے عام ناانصافی کیوں ؟وہ کیا وجوہات ہیں جس کی وجہ سے وقت کے حکمران
یہاں کے وسائل اور آمدنی سے تو پیار کرتے ہیں لیکن یہاں کے عوام سے نفرت ؟وہ
کیا محرکات ہیں جس کے سبب ہر وقت کے بادشاہان اس صوبے کے وسائل تو ہڑپ کر
تے ہیں لیکن یہاں کے عوام کو پتھروں کے دور میں رہنے ہی پرمجبور کرتے ہیں ؟بلوچستان
کا قصور صرف اتنا ہے کہ یہ خطہ بھی صوبہ پختونخواہ کی طرح ڈئیور نڈ لاین
نامی تاریخی معاہدے کے اُن علاقوں میں شامل ہے ،جن کے بچھڑ جانے کے خدشات
ہر دور میں پائے جاتے رہے ہیں ،مشرقی پاکستان کے بچھڑ جانے کے بعد باقی
ماندہ پاکستان کے ساتھ مستقبل میں رونما ہونے والے ایسے کسی سانحے کے خوف
اور اپنی بقا کے خاطرمغربی پاکستان کے تھینک ٹینک لابیوں نے صوبہ پنجاب کو
چُن کر اسے مضبوط اور بے انتہا ترقی یا فتہ سٹیٹ بنانے کا خاموش پلان بنایا
،اس پلان کے تحت پاکستان کے دار لخلافے کو سندھ سے پنجاب منتقل کیا گیا ،پنجاب
میں نئے جدید شہر آباد کئے گئے ،دفاعی اورعسکری اداروں کا مرکز پنجاب کو
بنایاگیا ،پنجاب کو بے انتہا ترقی دے کر اسے صنعتی حب میں تبدیل کیاگیا ،الغرض
پاکستان کی ترقی کو پنجاب کی ترقی سے لازم وملزوم قرار دیاگیا ،صوبہ پنجاب
کو گریٹ پنجاب بنانے کے اس عمل میں دیگر صوبوں کو بری طرح انداز کرکے اُن
کا استحصال کیا گیا ،اُنکے وسائل کوپنجاب کی ترقی کے لئے استعمال کرکے اُن
سے سوتیلے بھائیوں جیسا سلوک کیا گیا ،وہاں کے عوام کو صحت ،تعلیم روزگار
سمیت بجلی ،پانی ،گیس جیسے بنیادی سہولیات زندگی سے محروم رکھ کر انہیں
احساس محرومی اور احساس کمتری کا شکار بنایا گیا ،اور جب بلوچستان سے ان کے
خلاف صدائیں بلندہوئی تو انہیں غدار قرار دیتے ہوئے ان پر طاقت کا استعمال
کیا گیا ۔میں وقت کے حکمرانوں سے التجا کرتا ہوں بیشک پنجاب کو گریٹ سے
گریٹر پنجاب بنا دوکسی کو کوئی اعتراض نہیں ،لیکن کسی کے گھر کو جلا کر
اپنے آنگن میں اُجالاکرنا کہاں کا انصاف ہے ،کیا بلوچستان کے عوام انسان
نہیں ہیں ،کیا اُن کے سینوں میں دل نہیں ہوتے ،کیا اُن کی تمام زندگی یوں
ہی بیا باں دشتوں اور خیموں میں گزرے گی ؟ کیا گیس ،پانی ،بجلی سڑکیں ،کارخانے
،صحت ،تعلیم ،روزگار اُن کے بنیادی حقوق نہیںہیں ،اگربحیثیت پاکستانی یہ
اُن کے بنیادی اور جائزحقوق ہیں تویہ حقوق دینے کے بجائے اُنہیں عسکریت
پسندی پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے ،اُن کے حقوق کو غصب کرکے اُن کے پیاروں
کو قتل کرکے اُن کے دلوں میں پنجاب دشمنی کا بیج کیوںبُویا جارہا ہے ،خار
اور نفرتوں کے بیج بُو کرگلستان کی امید کرنا کہاں کی عقل مندی ہے،اب بھی
وقت ہے حکمران بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے لیے نام نہاد پیکیجوں کے
اعلانات کے بجائے عملی اور ٹھوس اقدامات کرے ،اس ضمن میں صوبے کے تمام
قبائل اور مکتبہ فکر کے سربراہوں سے مخلصانہ مشاورت کے بعد مخلصانہ اقدامات
کے لئے لائحمہ عمل طے کیا جائے ،جس کے ذریعے صوبے کی محرومیوں کا ازالہ
یہاں کے عوام کی امنگوں اور عین مرضی کے مطابق کیا جائے ،بصورت دیگران
محرومیوں سے ملک دشمن قوتیں فائدہ اُٹھا کر انہیں ملک کے خلاف استعمال
کرسکتے ہیں،مستقبل میں ڈئیورنڈ معاہدے سے پاکستان کو نقصان کے اندیشے وقوع
پذیرہو ں یا نہ ہو ،لیکن ان ظلموں زیادتیوں اورنا انصافیوں کے سبب بلوچستان
کے عوام میں پاکستان مخالف جذبات کا پروان چھڑنا کسی بھی لمحے کسی بڑے
سانحے کا موجب بن سکتا ہے - |