صحابہ کرام ؓکے واقعات میں تحریر
ہے کہ ایک روز ہم بہت سے لوگ حضرت ابوبکر صدیق ؓکے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے
کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ پیاس محسوس ہوئی آپ نے پانی طلب فرمایا چنانچہ خادم
نے آپ کی خدمت پانی اور شہد پیش کیا جب آپ نے اسے پینے کے لیے اپنے منہ کے
قریب کیا تونجانے کیا ہوا کہ آپ بے اختیار رونے لگے آپ کو زاروقطارروتا
دیکھ کر اردگرد بیٹھے تمام صحابہ کرام ؓ بھی رونے لگے کچھ دیر بعد جب آپ کے
آنسو تھمے تو آپ نے پھر پینے کا ارداہ فرمایا لیکن پانی اور شہد دیکھ کر
پھر رونے لگے صحابہ کرام ؓ بھی دوبارہ رونے لگے مگر وہ آپ سے رونے کی وجہ
نہ دریافت کرسکے جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دل کو تھوڑی دیر بعد ڈھارس ہوئی
تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین آپ کے رونے کی کیاوجہ تھی
حضر ت ابوبکر ؓ نے فرمایاکہ ایک مرتبہ میں رسول کریم ﷺکے ہمراہ تھا آپ اپنے
جسم سے کسی نظرنہ آنے والی شے کو دور فرمارہے تھے میں نے عرض کیا یارسول
اللہ ﷺآپ کس چیز کو دورفرمارہے تھے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
”ابھی ابھی میرے پاس دنیا آئی تھی میں نے اس سے کہا مجھ سے دورہو چنانچہ وہ
واپس چلی گئی اور یہ کہہ کر گئی ہے کہ آپ ﷺنے تو مجھ سے کنارہ کشی اختیار
فرمائی ہے لیکن بعد میں آنے والے ایسا نہیں کرسکیں گے ۔“
قارئین قرآن پاک ،احادیث مبارکہ ،اولیاءکرام کے واقعات ،حکایات اور دیگر
تمام نصیحت پر مبنی باتیں صر ف باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ زندگی گزارنے کے وہ
طریقے ہیں کہ جس پر آج کی انسانیت اگر عمل کرنا شروع کردے تو رب کعبہ کی
قسم یہ دنیا جنت بن سکتی ہے بدقسمتی سے ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں
استحصال در استحصال گزشتہ 64سالوں کے دوران وہ ظلم وستم ڈھائے گئے ہیں کہ
جس نے معاشرے کی فکری بنیاد کو ہلاکر رکھ دیاہے ہمارا معاشرہ جو آج سے تین
دہائی قبل ادب ،علم ،اخلاق ،رواداری ،مروت ،خلوص ،قربانی اور باہمی احترام
پر مبنی تھا آج علم سے دوری کی وجہ سے یہ معاشرہ تباہی کی طرف گامزن ہے اور
یہ تباہی کیا کیا تبدیلیاں لے کر آئے گی یہ سوچ کر بھی روح کانپ جاتی ہے ۔
قارئین گزشتہ دنوں راقم نے آزادکشمیر ریڈیو ایف ایم 93پر موجودہ پاکستان کی
سب سے بڑی علمی شخصیت سابق وزیر سائنس ٹیکنالوجی وانفارمیشن ٹیکنالوجی و
سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر عطاالرحمن کا انٹرویو کیا ڈاکٹر
عطاالرحمن نے بتایاکہ انہوں نے 1973ءمیں امریکہ میں پی ایچ ڈی ان کیمسٹری
کی ڈگری حاصل کی اورامریکہ ہی کی یونیورسٹیز میں ملازمت اختیار کی امریکہ
میں ملازمت کے دوران انہوں نے 110کتابیں تحریر کیں جو آج یورپ اور امریکہ
میں پڑھائی جاتیں ہیں ڈاکٹر عطاالرحمن نے بتایاکہ ان کو پاکستان واپس آنے
کا صرف اور صرف ایک مقصد تھا اور وہ مقصد یہ تھا کہ اس پسماندہ قوم کو علم
کی دولت سے مالامال کیا جائے انہوں نے بتایا کہ جب انہیں سائنس اور
ٹیکنالوجی کی وزارت دی گئی تو جنرل مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے پاکستان
میں یونیورسٹیز کاایک جال بچھا دیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو
15سال کے لیے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابھی تک
اس شعبے میں ریکارڈ ترقی ہورہی ہے انہوں نے بتایاکہ پاکستان دنیا کا وہ
بدقسمت ملک ہے کہ جہاں پر تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا صرف 1.8فیصد خرچ کیا
جاتاہے یہی وجہ ہے کہ 132ممالک میں پاکستان تعلیم کے معاملے میں 126ویں
نمبر پر ہے اور افریقہ کے غریب ترین ممالک بھی ہم سے کہیں آگے ہیں ڈاکٹر
عطاالرحمن نے بتایاکہ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ملائشیاءمیں اپنے بجٹ کا 30فیصد
تعلیم کے لیے مختص کرتے ہوئے اعلان کیا تھا بھوکے رہ لو لیکن اپنے بچوں
کوپڑھاﺅ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملائشیا ا س وقت ایشیا کی طاقت ور ترین
معیشت رکھنے والے ممالک میں شامل ہوچکاہے او راپلائیڈ سائنسزجیسے مضامین
ملائشین یونیورسٹیز میں شامل کیے گئے اور اس وجہ سے پوری دنیا کا صنعت کار
اپنے یونٹس لگانے کے لیے ملائشیا کو سب سے زیادہ ترجیح دیتاہے یہاں پر ایک
لطیفے جیسی انتہائی تکلیف دہ بات بھی آپ سے شیئرکرتے چلیں پاکستان صنعتی
ترقی کے لحاظ سے دنیا میں کسی قطار میں نہیں آتا ہمارے ملک کے انتہائی
دگرگوں حالات اور ایک اعلیٰ شخصیت کی طرف سے صنعتی پیدوار پر اپنا حصہ طلب
کرنے کی کوششوں پر پاکستان کی انڈسٹری کا ایک بہت بڑا حصہ ملائشیا ،سری
لنکا ،بنگلادیش اورحتی کہ ہمارے ”ازلی دوست “بھارت میں منتقل ہوچکاہے اور
شنید ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید ہوگا اس پر دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں
کچھ سمجھ نہیں آتا ڈاکٹر عطاالرحمن نے بتایاکہ انہوںنے 2008ءمیں ہائر
ایجوکیشن کی چیئرمین شپ سے اس لیے استعفیٰ دیاتھا کہ انہوں نے 5ہزار
پاکستانی طلبا وطالبات کو پی ایچ ڈی کے سکالرشپ پر بیرون ممالک بھیجاہواتھا
موجودہ حکومت نے آتے ساتھ ہی ان بچوں کے سکالر شپ روک لیے میں نے ان سے
سوال کیا کہ کیا حکومت کے پاس پیسے ختم ہوگئے تھے تو ڈاکٹر عطاالرحمن نے بے
ساختہ قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا نہیں پیسے تھے لیکن Prioritiesبدل گئیں
تھیں اور اسی وجہ سے ہمارے پاکستانی بچے امریکہ ،انگلینڈ ،جرمنی ،ہالینڈ
،ڈنمارک،جاپان اور دیگر ممالک جہاں وہ پی ایچ ڈی کررہے تھے وہ مساجد میں
جاکر بھیک مانگتے رہے ان کی یہ بات سن کر مجھ پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا ۔
قارئین اس انٹرویو میں ڈاکٹر عطاالرحمن کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ن کے
چیئرمین راجہ ظفرالحق ،ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی فرحت محمد خان ،مسلم
لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی جنرل عبدالقادر بلوچ ،پاکستان پیپلزپارٹی کے
رہنماخرم جہانگیر وٹو ایم این اے ،وزیر تعلیم آزادکشمیر میاں
عبدالوحید،پاکستان تحریک انصاف آزادکشمری کے سربراہ راجہ مصدق خان اور مسلم
لیگ ن ڈڈیال کے رہنما راجہ اعجاز دلاور نے بھی شرکت کی ان سب سیاسی
رہنماﺅںنے ڈاکٹر عطاالرحمن اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کا سب سے
بڑا علمی اثاثہ قرار دیا اور وعدہ کیا کہ ان کی مہارت ،تجربے اور علم سے
فائدہ اُٹھانے کے لیے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل کا لائحہ عمل
اختیار کیاجائے گا ۔
قارئین یہاں پر ایک خوشی کی خبر بھی آپ سے شیئرکرتے چلیں ڈاکٹر عطاالرحمن
نے اپنے انٹرویو کے دوران بتایاکہ کراچی میں قائم ”ابراہیم جمال انسٹییٹوٹ
آف کیمسٹری “پاکستان کا وہ واحد ادارہ ہے جہاں جرمنی سے ہر سال پی ایچ ڈی
کرنے کے لیے 120طلباءآتے ہیں ہمارے جیسے ملک کے لیے یہ بہت فخرکی بات ہے
ڈاکٹر عطاالرحمن کو ملائشیاکے بادشاہ نے مدعوکیاہے انہیں ملائشیاکا سب سے
بڑا ایوارڈ دیاجارہاہے اور یونیورسٹی کا پورا شعبہ ان کے نام کیا جارہاہے
ڈاکٹر مہاتیرمحمد کا ملائشیا تو ڈاکٹر عطاالرحمن کی قدر کررہاہے ہمیں سمجھ
نہیں آتاکہ ہمارے حکمران اپنے جوہر قابل کے ساتھ کیسا سلوک کررہے ہیں چاہیے
ڈاکٹر عبدالقدیر جوہری سائنسدان ہوں یا ڈاکٹر عطاالرحمن ہم نے اپنے ہیروں
جیسے اثاثوں کی قدر نہیں کی اقبال ؒ کی زبان میںیہی کہیں گے
گلزار ِہست وبود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
آئے ہے تو جہاں میں مثال ِ شرار دیکھ
دم دے نہ جائے ہستی ءناپائیدار دیکھ
ماناکہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ ،مرا انتظار دیکھ
کھولی ہیں ذوقِ دید نے آنکھیں تری اگر
ہر رہگذر میں نقش ِکفِ پائے یار دیکھ
قارئین یہ سب گزارشات آپ کے سامنے رکھنے کا مقصدزہن یا زبان کے زائقے کے
لیے کوئی چیز پیش کرنا نہیں ہے بلکہ اس بات پر غور کرناہے کہ ہم زلت اور
جہالت کے گڑھوں میں دفن رہنا چاہتے ہیں یا ایک عزت دار مسلمان کی طرح اس
زمین کے تختے پر جیناچاہتے ہیں ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
نکاح سے پہلے مولوی صاحب نے احتیاطاً اعلان کیا کسی صاحب کو اس شادی پر
اعتراض ہوتو بیان کرسکتاہے
ایک آواز ابھری کہ مجھے کچھ کہناہے
مولوی صاحب نے ڈانٹ کرکہا
”چپ رہو تم دلہا ہو ۔۔۔“
قارئین ہمیں بھی لگتاہے کہ ہمارے معاشرے میں زبان بندی کا وہ دستور اور
فکروں پر پہروں کی وہ رسمیں موجودہیں جو ہمیں ”دلہا “کہہ کر مرگ جیسی اس
صور تحال کو پید اکررہی ہیں یادرکھیے قرآن پاک کا پہلا سبق ”اقراء“تھا ۔۔۔ |