ناکامی کا خوف ایک ایسا سائے دار درخت ہے جس کی جڑیں
نوجوانوں کے ذہنوں میں اس قدر گہرائی تک اتر چکی ہیں کہ اُن کی صلاحیتیں،
خواب اور حتیٰ کہ خود اعتمادی بھی اِس کی تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔
یہ خوف محض ایک جذبہ نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی جنگ ہے جو نوجوان نسل کو اندر
سے کھوکھلا کر رہی ہے۔ موجودہ دور میں جہاں کامیابی کی تعریف تنگ دائرے میں
قید ہو چکی ہے، وہیں معاشرے کا دباؤ نوجوانوں پر ایک ایسا پہاڑ بن کر ٹوٹ
پڑا ہے جو اُنہیں سانس لینے تک کا موقع نہیں دیتا۔ ڈپریشن، بے چینی، اور
خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات اِس بات کی واضح عکاسی کرتے ہیں کہ ناکامی کا
خوف اب ایک ذہنی کیفیت نہیں رہا، بلکہ یہ ایک سماجی اور نفسیاتی وبا کی شکل
اختیار کر چکا ہے۔
نفسیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ناکامی کا یہ خوف، جسے "اٹیلوفوبیا" کہا
جاتا ہے، دراصل اضطراب کی ایک پیچیدہ شکل ہے۔ یہ نوجوانوں کو اُن کے مقاصد
تک پہنچنے سے روکتا ہے، کیونکہ وہ ہر قدم پر شکست کے امکان کو اپنے سائے کی
طرح محسوس کرتے ہیں۔ ماہر نفسیات ایرک ایرکسون کے مطابق، نوجوانی وہ دور ہے
جب انسان اپنی شناخت کی تلاش میں الجھا رہتا ہے۔ مگر آج کا معاشرہ اِس تلاش
کو ایک دوڑ بنا دیتا ہے جہاں ہر فرد کو دوسروں سے آگے نکلنا ہوتا ہے۔ مسلو
کی ضروریات کے پہاڑ پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی بنیادی
ضرورتیں پوری ہونے سے پہلے ہی اُن پر کمال کا بوجھ تھوپ دیا جاتا ہے۔ کارل
جنگ کا قول ہے کہ "خوف انسان کو اُس کے خوابوں سے محروم کر دیتا ہے، اور
محرومی اُسے خوف کا غلام بنا دیتی ہے"۔ یہی وہ چکر ہے جو نوجوانوں کو ایک
ایسی لڑائی میں الجھا دیتا ہے جہاں نہ تو اُن کے پاس ہتھیار ہوتے ہیں اور
نہ ہی راستہ۔
سوشل میڈیا کے اس دور نے نوجوانوں کو ایک ایسی مصنوعی دوڑ میں شامل کر دیا
ہے جہاں ہر شخص دوسرے سے بہتر دکھنے کی کوشش میں اپنی اصلیت کو کہیں پیچھے
چھوڑ آتا ہے۔ "ہائیلائٹ ریل" کی چکاچوند میں نوجوان اِس حقیقت کو بھول جاتے
ہیں کہ یہ صرف ایک پردہ ہے، جس کے پیچھے ناکامیاں، الجھنیں اور اداسی چھپی
ہوتی ہے۔ معاشرے نے کامیابی کی تعریف کو اتنا تنگ کر دیا ہے کہ اب یہ صرف
"پرفیکٹ گریڈز" یا "اعلیٰ تنخواہ" تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ژاں پال سارتر
نے کہا تھا کہ "ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جو ہمیں دوسروں سے
مقابلہ کرنا سکھاتا ہے، مگر اپنے آپ سے محبت کرنا نہیں"۔ یہی وہ المیہ ہے
جو نوجوانوں کو اندر سے توڑ رہا ہے۔ اُنہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ اُن کی
کامیابی کا انحصار دوسروں کی ناکامی پر ہے، اور یہی سوچ اُن کے اندر مایوسی
کی بیج بونے کا سبب بنتی ہے۔
فلسفہ کی دنیا میں ناکامی کو زندگی کا ایک ناگزیر حصہ سمجھا جاتا ہے۔
رواقیت کے بانی مارکس آریلیس کا کہنا ہے کہ "تمہارا راستہ تمہاری سوچ پر
منحصر ہے"۔ اگر نوجوان ناکامی کو اپنی ترقی کا ذریعہ سمجھیں، تو یہ اُن کے
لیے ایک سبق بن سکتی ہے۔ بدھ مت کے مطابق، انسان کے تمام دکھوں کی جڑ
خواہشات میں پنہاں ہے۔ جب تک ہم کمال کی تلاش میں اپنی ناکامیوں کو قبول
نہیں کرتے، تب تک مایوسی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ وکٹر فرینکل، جو
وجودیت کے فلسفے کے علمبردار تھے، نے زندگی کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے کہا
کہ "زندگی کا مقصد خوشی نہیں، بلکہ معنی ہے"۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں نوجوانوں
کو سمجھنا ہوگا کہ کامیابی کا مطلب صرف بیرونی تعریف نہیں، بلکہ اپنے وجود
کی گہرائیوں تک سفر کرنا ہے۔
سائنس کی رو سے دیکھا جائے تو ڈپریشن کا تعلق دماغ میں سیروٹونن اور
ڈوپامائن جیسے کیمیکلز کی کمی سے ہے۔ جب ناکامی کا خوف مسلسل ذہن پر حاوی
رہے، تو یہ کیمیکلز کی پیداوار مزید کم ہو جاتی ہے، جس سے نوجوان ایک
شیطانی چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ نفسیات میں اِسے "سیلف فلفلنگ پروفیسی" کہتے
ہیں، یعنی خوف خود ہی ناکامی کو دعوت دیتا ہے۔ بدھ کا قول ہے کہ "جو ہم
سوچتے ہیں، وہی بن جاتے ہیں"۔ اگر نوجوانوں کے ذہنوں میں ناکامی کا خوف
بیٹھ جائے، تو وہ ناخودآکانہ طور پر اُس کے لیے راہ ہموار کرنے لگتے ہیں۔
یہ چکر اُنہیں اِس قدر گہرائی میں لے جاتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھی
شک کرنے لگتے ہیں۔
اِس جنگ میں سب سے طاقتور ہتھیار Cognitive Behavioral Therapy (CBT) ہے،
جو منفی سوچ کے پیٹرن کو توڑنے میں مدد دیتی ہے۔ مینڈفلنیس اور مراقبہ جیسی
مشقیں نوجوانوں کو موجودہ لمحے میں جینے کی تربیت دیتی ہیں، تاکہ وہ ماضی
کے پچھتاوے یا مستقبل کے خوف سے آزاد ہو سکیں۔ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ
وہ کونسلنگ سروسز اور ورکشاپس کے ذریعے نوجوانوں کو ذہنی طور پر مضبوط
بنائیں۔ برین براؤن کا کہنا ہے کہ "تبدیلی ناممکن نہیں، بس اُس کے لیے ہمت
چاہیے"۔ ہمت دراصل وہ کلید ہے جو نوجوانوں کو اِس تاریکی سے باہر نکال سکتی
ہے۔ حکومتوں اور معاشرے کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ ذہنی
صحت کے لیے پالیسیاں بنانا، اسکولوں میں اسٹریس مینجمنٹ پروگرامز کا
انعقاد، اور کیرئیر گائیڈنس جیسے اقدامات نسل نو کو مضبوط بنانے میں اہم
کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سماج کو بھی چاہیے کہ وہ کامیابی کی تعریف کو وسیع
کرے۔ ہر انسان کی صلاحیتیں الگ ہیں، اور اِس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ
ایک ہی پیمانے پر سب کو نہیں پرکھا جا سکتا۔
مثبت نفسیات کے علمبردار مارٹن سیلگ مین کا "PERMA ماڈل" بتاتا ہے کہ خوشی
کے پانچ ستون ہیں: مثبت جذبات، مشغولیت، تعلقات، معنی، اور کامیابی۔ روزانہ
"گریٹٹیوڈ جرنل" لکھنے کی عادت نوجوانوں کو اُن چھوٹی خوشیوں سے جوڑتی ہے
جو اُن کی نظر سے اوجھل ہو چکی ہیں۔ اِس کے علاوہ، خاندانوں کو چاہیے کہ وہ
نوجوانوں پر اعتماد کا اظہار کریں۔ اکثر والدین کی بے جا توقعات نوجوانوں
کے لیے خوف کا باعث بنتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ نوجوانوں کی کامیابی کا انحصار
اُن کے جذباتی تحفظ پر ہے۔
ناکامی کوئی موت نہیں، بلکہ زندگی کا ایک نیا باب ہے۔ ہمیں نوجوانوں کو یہ
باور کرانا ہوگا کہ اُن کی قدر اُن کے "امیج" یا "سکورز" سے نہیں، بلکہ اُن
کے وجود سے ہے۔ اے پی جے عبدالکلام کا کہنا ہے کہ "اندھیرا تب تک غالب نہیں
ہو سکتا جب تک روشنی کے لیے لڑنے والے موجود ہوں"۔ معاشرے، خاندان، اور
حکومتوں کو مل کر ایک ایسی فضا بنانی ہوگی جہاں نوجوان اپنے خوف کو طاقت
میں بدل سکیں۔ رومی کے الفاظ میں: "تم صرف اُتنا ہی نہیں ہو جو تم دکھتے
ہو۔ تم وہ بھی ہو جو تم چھپاتے ہو، اور وہ بھی جو تم بن سکتے ہو"۔ یہی وہ
پیغام ہے جو نوجوان نسل کو اِس تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے جا سکتا
ہے۔
|