غزہ کے لیے آخرہم تماشائی کیوں ؟

غزہ کی المناک صورتحال اور ہماری ہماری مجرمانہ خاموشی پر چند سطور

راجہ محمد عتیق افسر
ایگزیکٹو کوآرڈینیٹر ( لائف اینڈ لیونگ) شعبہ اسلامیات،
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد۔
03005930098 [email protected]

کیا آپ فلسطین اور غزہ کی صورتحال پہ فکرمندہیں ؟کیا غزہ کے تباہ حال گھر اور بے گوروکفن خون آلود لاشیں آپ کو دل گرفتہ کر رہی ہیں ؟کیا آپ قبلہ اول مسجد اقصی کے مستقبل کے لیے پریشان ہیں ؟ کیا آپ فلسطینی بھائیوں کے دکھوں پہ تڑپ اٹھے ہیں ؟اگر ایسا ہے تو آپ کے سینے میں موجود ایمان کی چنگاری راکھ سے باہر نکل کر شعلہ جوالا بننے کی کوشش کر رہی ہے ۔۔۔۔لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ اندھیروں کے مجاور آپ کے سینے میں سلگنے والی اس چنگاری کو بھی فرو کر دینے کے در پہ ہیں ۔ ان کے منہ سے نکلنے والی افواہیں اس نور کی آخری کرن کو بھی پھونکوں سے بجھانے کے در پہ ہیں ۔ کہیں آپ ان کے چنگل میں آ کر حق سے دستبردار تو نہیں ہو رہے ۔ کیا آپ شکوک و شبہات کا شکار تو نہیں ہو رہے ؟ کہیں آپ بین الاقوامی میڈیا یا مقامی لبرلز کے پراپیگنڈا کا شکار تو نہیں ہو رہے ؟ ذرا اپنے دریچہ دل میں جھانکیے :
• کہیں آپ کے دل میں یہ خیال تو نہیں ابھر رہا کہ یہ مسئلہ تو عرب اور اسرائیل کا باہمی مسئلہ ہے ہمارا اس سے کیا لینا دینا؟
• کیا آپ اس حق میں تو نہیں ہیں کہ فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر کے اس معاملے کو رفع دفع کر دیا جائے ؟
• کہیں آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ اس ظلم عظیم کے ذمہ دار خود فلسطینی ہی ہیں ؟
• کہیں آپ کی سو چ یہ تو نہیں کہ اسرائیل جیسے طاقتور کے ساتھ ٹکرانا بے وقوفی ہے حماس کو ایسی غلطی نہیں کرنا چاہیے تھی ؟
اگر آپ انہی خیالات کو اپنا چکے ہیں تو آپ یقین کیجئے کہ آپ باطل کی گرفت میں آچکے ہیں اور آپ کے دل میں پنپنے والی ایمان کی چنگاری بھی بھجنے والی ہے ۔ آپ اغوا کر لیے گئے ہیں اور حق سے دور لے جائے جا رہے ہیں ۔ یہ وقت سونے کا نہیں ۔ آنکھیں کھولیں اور بیدار ہو جائیں ۔ غزہ سے اٹھنے والے آگ کے الاؤ حق کا راستہ دکھا رہے ہیں اپنے دل کی قندیلیں روشن کر لیجیے ۔
اول تو یہ علاقائی تنازعہ نہیں ہے یہ خالصتا دینی معاملہ ہے ۔مسجد اقصی ٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔یہی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا جائے پیدائش ہے اور یہی وہ مسجد ہے جسے حضرت اسحٰق علیہ السلام نے اللہ کی کبریائی کے مرکز کے طور آباد کیا اور جو بنی اسرائیل کا مرکز امامت بنا۔ تینوں آسمانی مذاہب کے لیے یہ مقام مقدس اور اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ مسئلہ محض یہود و عرب کا مسئلہ نہیں بلکہ تین براعظموں کے وسط میں اور تین ادیان سماویہ(یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کے مابین ایک عظیم جنگ کا پیش خیمہ ہے ۔
آج سے ایک صدی قبل یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا ۔ یہاں عیسائی اور مسلم آباد تھے جو نسلا عرب تھے جبکہ یہود کی موجودگی برائے نام تھی ۔ پھر پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد انگریز نے سارا غصہ خلافت عثمانیہ پر نکالا۔ خلافت کو ختم کر دیا گیا اور اس کے زیر اتسلط علاقوں کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ۔ اسرائیل کے قیام کا منصوبہ برطانیہ نے بنایا اور اعلان بالفور کے بعد دنیا میں بکھرے یہود کو لا کر یہاں بسایا گیا ۔ انہیں اسلحہ دے کر مضبوط کیا گیا اور 1948 میں عرب فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیلی ریاست قائم کر دی گئی ۔ اسی اسرائیلی ریاست نے مقامی فلسطینیوں سے زمینیں چھین لیں اور انہیں وطن سے بے دخل کر دیا ۔ یہ جنگ یہود اور عرب کی جنگ نہیں بلکہ قابض اسرائیل اور مقامی آبادی کے مابین ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے ۔ سوال تو یہ ہے کہ دنیا میں ایک بہت بڑا رقبہ ہے جو آباد نہیں تو پھر یہود کو وہاں آباد کرنے کے بجائے فلسطین میں لاکر کیوں آباد کیا گیا ؟ کیا یہ محض ہمدردی کی بنیاد پہ کیا گیا ؟ اور انہیں ہمدردی کیسے ہوئی جو یہود کو دشمن گردانتے ہیں اس وجہ سے کہ یہود سیدنا عیسی ٰ علیہ السلام کے قتل کے در پے ہوئے تھے ؟جواب صرف یہی ہے کہ یہود کی کتبِ مقدس فلسطین کو ارضِ موعود کہتی ہیں یعنی اس سرزمین کا وعدہ ان سے اللہ نے کر رکھا ہے ۔ گویا سرزمین فلسطین پر اسرائیل کے قیام کا محرک ہی خالصتا دینی تھا ۔ دوسری جانب عیسائیت نے بھی اپنے سر کا بوجھ لا کر ہمارے سر دے مارا۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ عیسائیت حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کے دوبارہ ظہور کی منتظر ہے ۔ اور یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب فلسطین میں یہودی ریاست قائم ہوگی ۔ لہذا اسرائیلی ریاست کے قیام کے پیچھے عیسائیت اور یہودیت دونو ں کا نظریہ نزولِ مسیح موعود ہے ۔ اس لیے ہم آنکھیں بند کر کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ محض ایک سیاسی مسئلہ ہے اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہود کو فلسطین سے بے دخل نہ تو مسلمانوں نے کیا تھا نہ ہی مسیحیوں نے کیا تھا ۔ انہیں 70 ء میں رومی بادشاہ ٹائیٹس نے دربدر کیا تھا ۔ عیسائیت نے اپنے عروج یعنی 325 ء سے لے کر بیسویں صدی تک ان دربدر یہود کو خوب مشق ستم بنایا ۔ اس دوران بھی اگر یہود کو کوئی سکھ کی گھڑی نصیب ہوئی تو وہ مسلم ممالک میں ہی ملی ۔ فلسطین میں موجود عیسائی اور مسلمان مقامی عرب ہیں جو صدیوں سے یہاں آباد ہیں ۔ اگر فلسطین سے یہود کو بے دخل کیا گیا تھا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دو ہزار سال بعد انہیں اس مقام پر اس طریقے سے بسایا جائے کہ مقامی آبادی کو بے دخل کر دیا جائے ۔ یہود اگر فلسطین میں اقلیت کے طور پر رہتے تو فلسطینیوں کوکوئی اعتراض نہیں تھا لیکن اعتراض طاقت کے زورپر قابض اسرائیلی ریاست پر ہے ۔ ریاست اسرائیل کا قیام سرا سر ناجائز ، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے ۔لہذا اسرائیل کو ریاست تسلیم کرنا یا اس خطے کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنا مبنی بر ظلم ہے ۔
کچھ لوگ محض ایک مفروضے کی بنیاد پر فلسطینیوں کی حمایت سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی شکوک وشبہات میں مبتلاء کرتے ہیں کہ اہل فلسطین نے اپنی زمینیں خود یہود کو بیچیں تھیں یوں یہود بھی اس علاقے کے مالک بن گئے ۔ اب جو کچھ اسرائیل کی طرف سے ان کی نسلوں کے ساتھ ہو رہا ہے یہ اسی غفلت کا خمیازہ ہے ۔ ۔ان سے اگر سیدھا سادہ سوال کر دیا جائے کہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں مسلم تارکین وطن کی آبادی ان کی مقامی آبادی سے بڑھ گئی ہے تو پھر جمہوریت کے اصولوں کے مطابق وہاں کا اقتدار مسلمانوں کو منتقل کر دیناچاہیے ۔اس سوال پہ یقینا وہ سپٹپا جائیں گے اور ادھر ادھر کی مارنے لگیں گے لیکن فلسطین کے معاملے میں وہ اسرائیل کو تسلیم کریں گے ۔ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ فلسطین پہ اگر دو ہزار سال بعد یہود کا حق مسلّم ہے تو پھر سپین پہ پانچ سو سال بعد مسلمانوں کا حق کیوں نہیں ؟ خودساختہ لبرلز اور مغرب کے حامی یہ سوچ پروان چڑھارہے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے اور فلسطین کو بھی الگ ریاست بنا دیا جائے۔ عالمی طاقتوں سے مرعوب ہو کر یا ان سے مرغوب ہو کر فلسطین کا دو ریاستی حل پیش کرنا ازخود ایک ظلم عظیم اور عہد حاضر کی جاہلیت ہے ۔
عقل کے مارے عقلانیت (ریشنلزم )زدہ اور مغربیت کے مارے علمانیت(سیکولرزم) زدہ افراد یہ ڈھنڈورہ بھی پیٹ رہے ہیں کہ اسرائیل ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے جو مادی طور پر ہر قسم کی سیاسی و عسکری برتری رکھتی ہے ۔ لہذا اس کے ساتھ ٹکرانا اپنا سر دیوار پہ مارنے کے مترادف ہے ۔ حماس کی جانب سے کیا گیا آپریشن طوفانِ اقصی ٰ ایک حماقت ہے اور اس کا نقصان مسلمان ہی اٹھائیں گے ۔ یہ بات وہ لوگ تو کر سکتے ہیں ہیں جو مادی برتری کو ہی کامیابی کا معیار قرار دیتے ہو ں ۔ مسلم معاشرے میں ایسی سوچ پروان چڑھانے والوں سے ایک سیدھا ساسوال یہ ہے کہ کیا اصحاب الاخدود کا عمل بھی حماقت تھا؟حالانکہ رب تعالی نے تو انہیں کامیاب قرار دیا ۔یہ دو جمع دو چار پہ یقین رکھنے والے بتائیں کیا حسین ؒ کا اقدام بھی (نعوذباللہ)حماقت تھا ؟حق پر جم جانا اور اہل حق کا کٹ مرنا یہ ناکامی یا نقصان نہیں بلکہ یہی حقیقی کامیابی ہے ۔حماس کے اس اقدام سے فلسطینیوں کی زندگی تو مشکلات میں پڑی لیکن اسلام کے لیے نئی راہیں کھل گئیں ۔ یورپ اور مغرب کی آبادی اسلام کے قریب آئی ہے ۔ انہوں نے حق کو پرکھا ہے اور مغربی میڈیا کی طرف سے گھڑی سامرییت کی حقیقت بے نقاب ہوئی ہے ۔حماس کی کاروائیوں سے جو فوائد حاصل ہوئے ہیں وہ یہ ہیں :
1. اسرائیل کی جانب سے نئے تجارتی روٹ کا قیام کھٹائی میں پڑگیا۔
2. عرب ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرانے کے منصوبے خاک میں مل گئے ۔
3. اسرائیل ناقابل تسخیر ہے یہ مفروضہ غلط ثابت ہوا ۔
4. اسرائیل کا جاسوسی نظام زیر زمین حرکت کو بھی دیکھ سکتا ہے یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہوا ۔
5. اسرائیل کا میزائل شکن پروگرام بھی ناکارہ ثابت ہوا۔
6. اہل اسلام کا قیدیوں سے برتاؤ اور اسرائیل کا بیہیمانہ ظلم دنیا پر آشکار ہوا۔
اہل غزہ اگر مزاحمت نہ کرتے تو بھی اسرائیل نے غزہ خالی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔اہل غزہ نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ، غیرت کا انتخاب کیا اور مردانہ وار لڑ کر موت کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اہل غزہ کا اقدام قابل ستائش ہے اس مزاحمت پر وہ سلام پیش کیے جانے کے قابل ہیں ۔
اگر اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس بات کا ادراک ہو گا کہ دین اسلام نے بھی قرب قیامت کا نقشہ کھینچا ہے ۔ احادیث نبویہ نے قرب قیامت کی نشانیاں واضح طور پر بیان کر دی ہیں ۔ ان احادیث سے یہ بات تو واضح ہے کہ دجال کا ظہور یہودی ریاست کے بیچ ہوگا اور اسرائیلی ریاست دجال کے ساتھ ہوگی ۔ جو لوگ بھی اسوقت دجال کے حامی ہوں کے وہ اپنا ایمان گنوا بیٹھیں گے ۔ حالات کے پیش نظر یہ بات تو دو ٹوک ہے کہ اس وقت حماس کا مقابلہ یہودی اسرائیلی ریاست سے ہے لہذا حماس حق پر ہے اور اسرائیل ناحق ۔ اس وقت کا تقاضا ہے کہ حماس کا ساتھ دیا جائے اور ان کی قوت میں اضافہ کیا جائے ۔اس وقت تمام عالم اسلام میں غزہ ایک ایسا خطہ ہے جو کسی طاقت کا غلام نہیں اور اپنی اس آزادی کا تحفظ کر رہا ہے، اپنے جگر گوشے قربان کر رہا ہے اور سخت معاشی حالات کا سامنا کر رہا ہے ۔اس وقت حماس کے ساتھ کھڑا ہونا عین ایمان کا تقاضا ہے ۔
سوال یہ نہیں رہا کہ حماس نے اسرائیل پہ حملہ کر کے غلطی کیوں کی ؟ سوال یہ ہے کہ حماس نے جو اقدام اٹھایا تھا باقی امت مسلمہ نے اس کی پیروی کیوں نہ کی ۔ 52 اسلامی ممالک کی حکومتیں اور ان کی افواج کہاں ہیں؟ ایک ارب سے بھی زائد مسلمان کہاں ہیں ؟جو فسلطین کے لیے درد رکھتے بھی ہیں وہ محض دعاؤں تک محدود کیوں ہیں ؟
بیچ کر تلوار خرید لیے مصلے تو نے
بیٹیاں لٹتی رہیں تم دعا کرتے رہے
عالم اسلام کے سیاہ و سفید پہ قابض حکمران طبقہ تو خود اہل باطل کا نمک خوار ہے ۔ اس میں یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ظلم کا حساب لے سکے ۔ ہمارے پاس موجود میزائل اور جدید ہتھیار شاید زنگ آلود ہیں یا پھر وہ اپنے ہی عوام کا خون ناحق بہانے کے لیے ہیں ۔ہم اس جبر نا روا پر کب تک تماشائی بنے رہیں گے ۔ کب تک حکمرانوں کا قبلہ درست ہونے کا انتظار کریں گے ؟ ہمیں خود کچھ کرنا ہوگا ۔ مالی تعاون کیجئے ہان اہل غزہ کے ساتھ مالی تعاون کیجئے ،، ان کے زخموں پر مرحم رکھیے ۔ اہل غزہ کے لیے اپنی زبان اور قلم کو حرکت دیجئے ، کلمہ حق بیان کریں ۔ اور خیبر کو یاد کیجیے جب خیبر کا قلعہ کافی دن فتھ نہ ہوا تو اللہ کے رسول نے علاقے میں موجود کھجور کے درخت کاٹنے کا حکم دیا ۔ اگر یہود بچ بی جاتے تو اس علاقے میں ان کے قیام کا مقصد ہی نہ رہتا ۔ ہم کیوں نہ ان کی تجارت کو نقصان پہنچائیں ۔یہودی مصنوعات کا مقاطعہ کریں ۔ یہود کی کمک توڑ دیں ان کی کمر توڑ دیں ۔ نہ صرف مصنوعات کا مقاطعہ کریں بلکہ ان مصنوعات کو فروخت کرنے والوں کا بھی مقاطعہ کریں ۔اپنی حد تک جو ممکن ہے وہ کریں کل کو ہمیں میدان حشر میں جواب دینا ہے ۔ ہمارے اور ساقی کوثر کے بیچ فلسطین کے شہداء کھڑے ہوں گے ۔ اگر آج ہم حق کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو کل یہ شہداء ہماری بھی مغفرت کا باعث بنیں گے ۔یاد رکھیں یہ سلسلہ تمام نہیں ہوگا آج اگر غزہ ہے تو کل ہماری باری ہے ۔ ہماری بربادی کے بعد مؤرخ لکھے گا کہ یہ وہ قوم تھی جو بہترین فوج اور ہتھار رکھنے کے باوجود اپنے ہی بھائیوں کے قتل عام پر تماشائی بنی رہی اور پھر اہل باطل ان پر بھی بھوکے گِدھوں کی طرح ٹوٹ پڑے اور ان کا نام و نشان تک مٹا دیا ۔
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 93 Articles with 115734 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More