بیڑ مسجد دھماکہ :ہندو دہشت گردوں پر یو اے پی اے

مہاراشٹر کےاندر ناگپور فسادات کے بعد ریاستی حکومت نے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے دہشت گردوں کے ساتھ جس نرمی کا معاملہ کیا اس سے ہندو انتہا پسندوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے کہ انہوں نے بیڑ کی ایک مسجد کے اندر جاکر نہ صرف دھماکہ کیا بلکہ اس کی ویڈیو بناکر دھڑلے ّ سے اپنے انسٹا گرام پر پوسٹ بھی کردی۔ بیڈ میں ماہِ رمضان کے اندر مسجد میں دھماکہ کے بعد پولیس نے دہشت گردوں سے ہمدردی جتاتے ہوئے کہا کہ وہ بیچارے نشے میں دھُت تھے ۔ اس کے باوجود وہ لوگ دھماکہ کرنے کے لیے کسی مندر یا سرکاری عمارت میں نہیں گئے اس لیے کہ مسجد میں دھماکہ کرنے پر سرکار نہ صرف تحفظ کی بلکہ انعام و اکرام کی بھی تو قع کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد حالات کا جائزہ لینے کےلئے مختلف ملی و سماجی تنظیموں کے ذمہ داران وہاں کا دورہ کیا ۔ان میں جماعت اسلامی ہند ، مہاراشٹر کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے بھی بیڑ ضلع کے اردھ مسلا گاؤں کا دورہ کرکے واقعے کی تفصیلات معلوم کی اور مقامی افراد کی دلجوئی کرکے ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس دورے کا ایک مقصد مجرمین کو انصاف کے کٹہرے تک پہنچانے کی سعی بھی تھا۔

مندرجہ بالا وفد نے مقامی باشندوں سے ملاقات کی اور انہیں صبر و حوصلے کی تلقین کرتے ہوئے مایوسی یا جذباتی ردِعمل سے گریز کرتے ہوئے آئینی و قانونی راستے اختیار کرنے کی بات کی تاکہ خاطیوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکے۔ اس موقع پر وفد نے ریاستی وزیر اعلیٰ سے اپیل کی کہ وہ ریاست میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے نفرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں اور دھماکے میں ملوث ملک دشمن عناصر پر سخت ترین دفعات، خصوصاً یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کریں۔ وفد نے مسلمانوں اور برادرانِ وطن سے ملاقات کرکے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے بھائی چارہ اور پرامن ماحول قائم رکھنے کی اپیل کی۔مذکورہ وفد نے بیڑ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) سے ملاقات کرکےاب تک کی قانونی پیش رفت سے آگاہی حاصل کی ۔ایس پی نے وفد کو یقین دلایا کہ افسوسناک واقعے میں پولیس پوری مستعدی سے کارروائی کر رہی ہےاوراس میں ملوث عناصر کو کسی صورت میں بخشا نہیں جائے گا ۔
اس دھماکے نے مہاراشٹر کی سیاست میں بھی ہلچل مچادی اور حزب اختلاف کے رہنماوں نے اس کی بھرپور مذمت کرکے حکومت پر تنقید کی ۔ سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے کہا کہ دھماکہ وزیر اعلیٰ اور دیگر وزراء کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کا نتیجہ ہے۔ ان کی اشتعال انگیز باتوں سے عام آدمی کے ذہن میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا ہوئی ہے۔ موصوف نے اس واقعہ کے قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیانیز حکومت کی کاررووائی اور رویے پر شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کیا سرکاری بلڈوزر پنچر ہوگیا ہے؟ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے قومی ترجمان وارث پٹھان نے حکومتِ مہاراشٹر سے بیڈ کی مسجد میں دھماکے کے ذمہ داروں پر یو اے پی اے کے تحت سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ۔ پٹھان نے کہا کہ "ان کی حوصلہ افزائی کون کرتا ہے؟ بی جے پی لیڈروں کی طرف سے دی جانے والی نفرت انگیز تقاریر سے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

ملت میں مختلف جہتوں سے ہونے والی یہ کوششیں رنگ لائیں اور بالآخر پولیس نے اس دھماکے کے سلسلے میں وجے رام گوہانے اور شری رام اشوک سگڑے کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا اورمزید تفتیش جاری ہے ۔عام طور پر ہندو دہشت گردوں پر یہ قانون نہیں لگتا کیونکہ پھرجلد ضمانت ملنا مشکل ہوجاتاہے ۔ ہندووں پر دہشت گردی کے الزام نے ریاستی حکومت کے ہندو مظلومیت(victim) کارڈ بے اثر کردیا ۔ ناگپور فساد کے بعد گودی میڈیا کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا کہ مسلمان اورنگ زیب کی مانند ظالم و سفاک ہیں حالانکہ یہ بات ماضی کی طرح آج بھی غلط ہے ۔ فی الحال فلمی مبالغہ آرائی سے زیادہ خبروں کے ذریعہ گمراہ کیا جاتا ہے۔ چینل والے ہندو گھروں میں پہنچ کر وہاں لگنے والے پتھر کو ایٹم بم کی مانند بڑھا چڑھا کر پیش کرتے اور ہندو دیوتاوں کی تصاویر دِکھا کر توڑ پھوڑکاالزام لگاتے جبکہ تصویر اس کے خلاف گواہی دے رہی ہوتی لیکن کسی کو 100سے زیادہ بے قصور لوگوں کے گھر جاکر یہ جاننے کی توفیق نہیں ہوتی کہ بتائے کس بے دردی سے لاتعلق مظلوموں کو جیل کی سلاخ کے پیچھے پہنچا دیا گیا ۔ یہ بیانیہ سازی جاری تھی کہ اس تشدد میں زخمی ہونے والے عرفان انصاری کے موت کی خبر آگئی ۔ اسے کہتے ہیں جھوٹ کو پاوں نہیں ہوتے ۔ امیر مینائی نے کیا خوب کہا ہے؎
قریب ہے یار روز محشر چھپے گا کشتوں کا قتل کیوں کر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

سرکار اور گودی میڈیا کے مطابق ناگپور میں سارا دنگا فساد تو مسلمان کررہے تھے پھر عرفان انصاری اس قدرزخمی ہوا کہ وفات پا گیا؟ کیا مسلمانوں نے ہی اپنے بھائی کو مار ڈالا؟ عرفان انصاری کی موت نے میڈیا اور سرکار کے ڈھول کا پول کھول دیا۔ 17 مارچ کے تشدد میں شدید طورپرزخمی ہونے والے عرفان کا ناگپور کے میواسپتال میں علاج چل رہا تھا۔ حادثہ کے دن سے ان کی حالت خراب تھی اس لیے آئی سی یو میں رکھنا پڑا مگر ۶؍ دن کے بعد وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ وی ایچ پی کے ذریعہ بھڑکائے جانے والے تشدد کے ایک ہفتہ بعد بھی ناگپور شہر کے 9 تھانہ علاقوں میں کرفیو نافذ ہے۔ تشدد کا یہ واقعہ مہاراشٹرکے وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس کے اپنے شہر میں رونما ہوا اس کے باوجود انہوں نے وہاں جاکر حالات کا جائزہ لینے میں طویل عرصہ لگاکر اپنی بے حسی اور عدم سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ دورے کے بعد فڈنویس نےایک انٹرویو میں کہا کہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات ہوں گی اور کسی بھی مجرم کو بخشا نہیں جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عرفان انصاری کے قاتلوں کو پکڑ کر انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی؟ وزیر اعلیٰ فسادیوں سے نقصان بھرپائی کی بات کررہے ہیں مگر عرفان انصاری کے قتل کی بھرپائی کیسے ہوگی؟ کیا قاتلوں کو پھانسی لگے گی ؟

وزیر اعلیٰ نے اس بات پر زور دیا تھاکہ ماحول خراب کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور انہیں کسی بھی صورت بخشا نہیں جائے گا۔ بلڈوزر کی دھمکی دینے والے وزیر اعلیٰ کو بتانا چاہیےکہ کیاوی ایچ پی کے اہلکاروں کے گھروں پر بلڈوزر کب چلے گا؟ انہوں نے یہ تو کہا کہ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ارکان کے خلاف بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں لیکن اس بات کو چھپا گئے کہ ان فسادیوں کو فوراً دو ہزار کے مچلکہ پر ضمانت مل گئی جبکہ مسلم نوجوانوں پر ملک سے بغاوت کا مقدمہ لگا کر ضمانت مشکل کر دی گئی۔ امن و امان کی صورتحال خراب کرنے والوں کو سبق سکھانے والے والے وزیر اعلیٰ کو وضاحت کرنی چاہیے کہ فساد کی ابتداء کرنےوالے بجرنگیوں سے نرمی کیوں؟ وزیر اعلیٰ نے سوشیل میڈیا پر اپنی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ موجودہ دور میں تشدد سڑکوں پر کم اور سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ پھیل رہا ہے لیکن اسی مقصد کی خاطر تو بی جے پی نے آئی ٹی سیل قائم کررکھا ہے جودن رات نفرت انگیزی کرتا ہے ۔

وزیر اعلیٰ کی قبل ناگپورمیں آمدسے شہر کے مسلم سیاسی و سماجی نمائندگان نے ناگپور فسادکی مذمت کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا ۔ انہوں نے الزام لگایا تھاکہ پولیس کی فوری کارروائی بدامنی کو روک سکتی تھی۔ مسلم رہنماوں نے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس سے امن بحال کرنے کی خاطر دونوں فرقوں کے نمائندوں سے ملاقات کرنے کی اپیل کی تھی مگر وزیر اعلیٰ نے خود کو پولیس اور میڈیا تک محدود رکھا۔ پریس کانفرنس میں ڈاکٹر محمد اویس حسن رضا نے کہاتھا کہ ’’پچھلے دو تین سال میں مختلف طریقوں سے مسلم سماج کو مشتعل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، ریاست کا ایک وزیر اورنگ زیب کا مسئلہ بار بار اٹھارہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزیدکہا تھاکہ ’’قرآنی آیات لکھی چادر جلانے کے مبینہ واقعے کے بعد مسلم سماج نے پولیس سے رجوع کیا، اور بھیڑ نے کارروائی پر زور دیا۔ تاہم، جب پولیس نے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو کچھ لوگ مشتعل ہو گئے۔ ‘‘ یعنی یہ ایک فطری ردعمل تھا کیونکہ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور انتظامیہ کی بے حسی نے پیمانۂ صبر لبریز کیا۔

سابق وزیر اور کانگریس رہنما انیس احمد نے میڈیا کو بتایا تھا کہ’’ مبینہ طور پر احتجاج کے دوران وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل نے جہاں اورنگ زیب کی علامتی قبر بنائی وہیں اس پر حضرت بابا تاج الدین کی مزار کی چادر ڈال کر اس کی بے حرمتی کی‘‘۔ ان کے مطابق اس جرم عظیم کے باوجود وی ایچ پی کے لوگوں کی معمولی دفعات کے تحت گرفتاری اور کچھ دیر میں رہائی فرقہ وارانہ طرفداری ہے۔ موصوف نے تراویح کی نماز سے لوٹنے والے بے قصور پڑھے لکھے نوجوانوں کی گرفتاری پر گرفت کی۔ انیس احمد نے نابالغ ملزمین پر بھی ۵۷ ؍دفعات لگانے پر احتجاج کرتے ہوئے پیشکش کی کہ یہاں موجود تمام لوگوں کو گرفتارکرکےان بے قصور لوگوں کو چھوڑ دیجئے۔ انیس احمد نے پولیس محکمہ سے امن کمیٹی تشکیل دینے پر مسلم سماج کا تعاون پیش کیا ۔ وزیر اعلیٰ کو چاہیے تھا کہ وہ امن و سلامتی کی خاطر مسلم نمائندوں سے ملاقات کرتے لیکن بھگوا سنسکار اور ہندو رائے دہندگان کی ناراضی کا خوف ان کے پیروں کی بیڑی بن گیا اور انہیں اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے سے روک دیا۔


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2141 Articles with 1622100 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.