ایشیا عالمی ترقی کا ایک مضبوط انجن

اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دہائی میں ایشیا کا عالمی ترقی میں انتہائی اہم کردار رہا ہے ، بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ گزشتہ دس سالوں میں، ایشیا عالمی ترقی کا ایک مضبوط انجن بن کر ابھرا ہے۔ بڑھتے ہوئے تحفظ پسندانہ رجحانات اور جغرافیائی سیاسی تنازعات کے باوجود، خطے کا بیشتر حصہ نمایاں طور پر مستحکم اور خوشحال رہا ہے۔ اس استحکام کی ایک بڑی وجہ چین اور خطے کی معیشتوں، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے ساتھ گہری ہوتی شراکت داری اور باہمی فائدے پر مبنی تعاون ہے۔ یہ تعاون زیروسم کی پالیسیوں کے برعکس ایک مثالی نمونہ ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں میں، چین اور آسیان نے مساوات اور باہمی احترام کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے تعلقات کو مکالمے سے ایک جامع اسٹریٹجک شراکت داری تک پہنچایا ہے۔ حالیہ سالوں میں ہونے والی ترقی میں چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو" کی آسیان ممالک کی ترقیاتی حکمت عملیوں کے ساتھ ہم آہنگی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ نقل و حمل، توانائی اور ڈیجیٹل نیٹ ورکس پر محیط سرحد پار انفراسٹرکچر منصوبوں نے خطے میں رابطے کو مضبوط کیا ہے، سبز ترقی کو فروغ دیا ہے، اور ایک مربوط اور پائیدار معیشت کی بنیاد رکھی ہے۔

چین کا یہ انیشیٹو آسیان کی ترقیاتی منصوبہ بندی کے ساتھ مل کر ایک تحریک کا باعث بنا ہے۔ ملائیشیا میں زیر تعمیر ایسٹ کوسٹ ریل لنک سے لے کر کمبوڈیا کی سیہانوک وِل اسپیشل اکنامک زون تک، رابطہ منصوبوں نے لاجسٹک اخراجات کو کم کیا ہے اور آسیان کے اندر تجارت کو فروغ دیا ہے۔

اسی دوران، تاریخی " علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری ( آرسی ای پی) " جس کا عالمی جی ڈی پی میں شیئر تقریباً 30 فیصد ہے، نے اپنے قیام کے بعد گزشتہ تین سالوں میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک تحقیق کے مطابق، 2030 تک آرسی ای پی رکن ممالک کی آمدنی میں 0.6 فیصد اضافہ کرے گا، جس سے خطے کی سالانہ آمدنی میں 245 ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا اور 2.8 ملین نوکریاں پیدا ہوں گی۔

علاقائی جامع اقتصادی شراکت داری کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے ناطے، چین نے ہمیشہ دیگر اراکین کے ساتھ مل کر اس جامع تجارتی معاہدے کو کامیاب بنانے میں سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ بیجنگ کی تجارتی آزادی اور کھلی منڈیوں کے لیے پرعزم پالیسی نے باہمی فائدے پر مبنی شراکت داری کی مضبوط بنیاد رکھی ہے۔ 2024 میں چین۔آسیان فری ٹریڈ ایریا کے ورژن 3.0 پر ہونے والے ٹھوس مذاکرات کے بعد، چین۔آسیان تعاون کا یہ نمونہ آزاد تجارت، کثیرالجہتی اور منصفانہ معاشی عالمگیریت کو مزید فروغ دے گا۔

مشترکہ خوشحالی کی راہ اور عالمی منظر نامے کو تبدیل کرنے والی وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کے درمیان، ایشیا اب ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ تحفظ پسندی بڑھ رہی ہے اور یکطرفہ پالیسیاں زور پکڑ رہی ہیں۔ تاہم، امن، ترقی، تعاون اور باہمی فائدہ ایشیا کے عوام کی مشترکہ خواہشات ہیں۔ اگرچہ خطے سے باہر کی بعض مخالف آوازیں اتفاق اور ترقی کی رفتار کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں، لیکن ایشیا، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا، نے ایسی چالوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تعاون کو ترجیح دی ہے۔

چین کی جانب سے ہمسایہ ممالک سے متعلق ایک حالیہ مرکزی کانفرنس میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ چین ایشیائی اقدار یعنیٰ امن، تعاون، کھلے پن اور جامعیت کو برقرار رکھے گا، بیلٹ اینڈ روڈ تعاون کو اعلیٰ معیار پر فروغ دے گا، اور ایشیائی سلامتی کے ماڈل کو اپنائے گا جو مشترکہ مفادات، اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ بنیادوں پر کام کرنے، اور بات چیت کو ترجیح دینے پر مبنی ہے۔

چین کا ہمیشہ سے یہ یقین رہا ہے کہ ایشیائی ممالک جغرافیائی سیاسی کھیل میں "مہرے" نہیں ہیں، بلکہ وہ اہم "کھلاڑی" ہیں جو خطے اور اس سے باہر ترقی اور خوشحالی کو آگے بڑھانے میں مدد کریں گے۔ بڑھتی ہوئی غیر مستحکم اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار دنیا میں، ایشیا کا مشترکہ خوشحالی کے لیے اتحاد اس بات کی واضح مثال ہے کہ باہمی مفادات اور مستقبل کے واضح تصور پر مبنی باہمی سودمند تعاون سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1467 Articles with 760811 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More