میکاولی کی تحریروں اور فلسفے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے
کہ ہم اس کے تاریخی اور ثقافتی تناظر کو مدنظر رکھیں۔ اطالوی نشاۃ الثانیہ
کے دور میں جب سیاسی انتشار اور طاقت کی کشمکش عروج پر تھی، میکاولی نے
اپنی مشہور کتاب "دی پرنس" میں حکمرانی اور اقتدار کے اصولوں پر روشنی
ڈالی۔ اس کا بنیادی نقطہ نظر یہ تھا کہ حکمران کو اپنے مقاصد کے حصول کے
لیے ہر وہ اقدام کرنا چاہیے جو ضروری ہو، خواہ وہ اخلاقی اقدار کے منافی ہی
کیوں نہ ہو۔ اس تناظر میں اگر ہم میکاولی کے قول 'اندرونی خوبصورتی کمزوروں
کے لیے ہے' کو دیکھیں، تو یہ بات اس کے عمومی فلسفے سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔
میکاولی کے نزدیک، طاقت اور حقیقی اقتدار ہی وہ واحد ذرائع ہیں جو انسان کو
کامیابی تک پہنچا سکتے ہیں، جبکہ اندرونی خوبصورتی جیسے تصورات—جیسے نیکی،
ایمانداری، یا رحم—کمزوری کی علامت ہیں جو حکمران کو اپنے مقاصد سے دور کر
سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، میکاولی اپنی کتاب میں واضح کرتا ہے کہ ایک حکمران کو
چاہیے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرے نہ کہ محبت۔ اس کا استدلال ہے
کہ محبت عارضی ہو سکتی ہے، لیکن خوف زیادہ پائیدار اور مؤثر ہے۔ یہاں
اندرونی خوبصورتی کے تصور کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے، کیونکہ محبت اور
ہمدردی جیسے جذبات کو میکاولی کمزوری کی علامت سمجھتا ہے۔ تاریخی مثالوں
میں چزارے بورجیا جیسے حکمران شامل ہیں، جنہوں نے اپنے مخالفین کو شکست
دینے، دھوکہ دینے، اور قتل کرنے جیسے طریقوں کو اپنایا، جس کی میکاولی نے
تعریف کی۔ ان اقدامات میں اندرونی خوبصورتی یا اخلاقیات کا کوئی دخل نہیں
تھا، بلکہ یہ خالصتاً طاقت اور عقل پر مبنی تھے۔
میکاولی کے نظریے کی مخالفت کرنے والے فلسفیوں میں سب سے نمایاں نام
افلاطون اور کانٹ کا ہے۔ افلاطون اپنی کتاب "ریپبلک" میں اس بات پر زور
دیتا ہے کہ انصاف اور نیکی صرف فرد کی اندرونی خوبصورتی ہی نہیں، بلکہ
معاشرے کی بنیاد ہیں۔ افلاطون کے نزدیک، ایک مثالی حکمران وہ ہے جو
فلسفیانہ حکمت اور اخلاقیات سے آراستہ ہو۔ وہ میکاولی کی طرح طاقت کو حتمی
مقصد نہیں سمجھتا، بلکہ اس کا خیال ہے کہ حقیقی طاقت اندرونی فضیلت سے ہی
حاصل ہوتی ہے۔ افلاطون کا مشہور استعارہ "غار" بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے،
جہاں وہ بتاتا ہے کہ حقیقی روشنی تک وہی پہنچ سکتا ہے جو اندرونی بصیرت اور
دانش سے لیس ہو۔
اسی طرح، جرمن فلسفی امانوئل کانٹ اپنے اخلاقی فلسفے میں "کیٹیگوریکل
امپریٹو" کا تصور پیش کرتا ہے، جس کے مطابق ہر عمل کو ایک عالمگیر اصول کے
طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ کانٹ کے نزدیک، انسان کو ہمیشہ ایسے کام کرنے
چاہئیں جو اخلاقی قانون کے تابع ہوں، خواہ اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ یہ
نظریہ میکاولی کے عملیت پسندانہ نقطہ نظر کے بالکل برعکس ہے، کیونکہ کانٹ
کے لیے نیت اور عمل کی اخلاقی بنیاد سب سے اہم ہے، نہ کہ نتیجہ۔ مثال کے
طور پر، اگر کوئی حکمران جھوٹ بول کر عارضی فتح حاصل بھی کر لے، تو کانٹ کے
مطابق یہ عمل اخلاقی طور پر غلط ہے، چاہے اس کا نتیجہ کتنا ہی مفید کیوں نہ
ہو۔
مذہبی تناظر میں بھی اندرونی خوبصورتی کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ اسلام میں
صوفیاء کی تعلیمات ہوں یا عیسائیت میں مقدس تھامس ایکویناس کی نظریات، سب
میں روحانی پاکیزگی اور باطنی طہارت کو اعلیٰ مقام دیا گیا ہے۔ رومی کی
مثنوی میں بھی یہی موضوع بار بار ابھرتا ہے کہ انسان کی حقیقی خوبصورتی اس
کے دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے۔ ان تعلیمات کے مطابق، ظاہری طاقت یا
کامیابی کوئی معنی نہیں رکھتی اگر اس کے پیچھے اندرونی خلوص موجود نہ ہو۔
اگرچہ میکاولی کے خیالات کو اکثر منفی تناظر میں پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس
کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ محض حقیقت پسندی کو فروغ دے رہا تھا۔ اس کا
ماننا تھا کہ سیاست کا میدان جنگ کی طرح ہے، جہاں نرم دل یا اخلاق پرست
افراد کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جدید دور کی مثالوں میں بین الاقوامی
تعلقات کے نظریہ ساز ہینز مورگنتھاو جیسے مفکرین شامل ہیں، جو طاقت کو
سیاست کی بنیادی اکائی مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قومی مفادات کے تحفظ کے
لیے اخلاقیات کو ثانوی حیثیت دی جا سکتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے میکاولی نے
کہا تھا۔
نیٹشے کا تصور 'ول ٹو پاور' بھی میکاولی کے خیالات سے میل کھاتا ہے۔ نیٹشے
کے مطابق، زندگی کا مقصد طاقت کی حصول ہے، اور روایتی اخلاقیات اکثر
کمزوروں کے لیے ایک ذریعہ تحفظ ہیں۔
نیٹشے کا خیال ہے کہ روایتی اخلاقیات درحقیقت کمزوروں کی ایجاد ہے جو
طاقتوروں کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے، میکاولی
کا نقطہ نظر ایک طرح سے انسانی فطرت کی گہری سمجھ پر مبنی ہے، جہاں طاقت ہی
حتمی فیصلہ کن عنصر ہے۔ جدید نفسیات کے مطابق بھی، انسانوں میں dominance
hierarchy کا تصور پایا جاتا ہے، جس کے تحت طاقت ور افراد سماجی ڈھانچے کو
کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ نظریہ میکاولی کے خیالات کی تائید کرتا محسوس ہوتا ہے۔
تاہم، میکاولی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا فلسفہ انسانی تعلقات کو محض
ایک کھیل سمجھتا ہے جہاں جذبات اور اخلاقیات کی کوئی گنجائش نہیں۔ مثال کے
طور پر، ہندوستانی فلسفی مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک میکاولی کے
تصورات کے بالکل برعکس ہے۔ گاندھی کا ماننا تھا کہ حقیقی طاقت اندرونی
پاکیزگی اور اخلاقی استحکام سے جنم لیتی ہے۔ انہوں نے برطانوی استعمار کے
خلاف اپنی جدوجہد میں کبھی بھی طاقت کے استعمال کو ترجیح نہیں دی، بلکہ
سچائی اور عدم تشدد کو ہتھیار بنایا۔ گاندھی کی کامیابی اس بات کی واضح
مثال ہے کہ اندرونی خوبصورتی اور اخلاقیات بھی طاقت کا ایک موثر ذریعہ ہو
سکتے ہیں۔
بیسویں صدی کے سیاسی مفکرین جیسے ہینز مورگنتھاو اور جان مرشیامر نے بین
الاقوامی تعلقات کے میدان میں میکاولی کے خیالات کو جدید شکل دی۔ ان کا
کہنا تھا کہ ریاستیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر وہ اقدام کر سکتی ہیں
جو ضروری ہو، چاہے وہ اخلاقی لحاظ سے قابل اعتراض ہی کیوں نہ ہو۔ مثال کے
طور پر، امریکہ کا ویت نام جنگ میں ایجنٹ اورنج جیسے کیمیائی ہتھیاروں کا
استعمال، یا عراق جنگ میں جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا لینا، یہ سب میکاولی کے
اصولوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان واقعات میں، طاقت کے حصول کے لیے اخلاقیات کو
یکسر نظرانداز کر دیا گیا۔
کاروباری دنیا میں بھی میکاولی کے نظریات کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ مثال
کے طور پر، اسٹیو جابز کو اکثر ایک جابر لیڈر سمجھا جاتا تھا جو اپنے مقاصد
کے حصول کے لیے دوسروں کے جذبات کو نظرانداز کر دیتا تھا۔ اسی طرح، ایمیزون
کے بانی جیف بیزوس کی جانب سے ملازمین کے ساتھ سخت رویہ بھی میکاولی کے
فلسفے کی عملی تصویر ہے۔ ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت اور حقیقت
پسندی کو ترجیح دینے والے نظریات آج بھی مؤثر ہیں۔
ماہرین نفسیات جیسے کارل جنگ اور ابراہم ماسلو نے انسانی شخصیت کی تشکیل
میں اندرونی اقدار کے کردار پر زور دیا ہے۔ ماسلو کی "ہیرارکی آف نیڈز" کے
مطابق، انسان کی اعلیٰ ترین ضرورت self-actualization ہے، جو کہ داخلی
اقدار کے بغیر ممکن نہیں۔ کارل جنگ کے مطابق، فرد کی شخصیت کا توازن اس وقت
تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے اندرونی تضادات کو حل نہ کر لے۔ ان
نظریات سے ثابت ہوتا ہے کہ اندرونی خوبصورتی محض ایک رومانی تصور نہیں،
بلکہ انسانی صحت مندی کے لیے ضروری ہے۔
سماجی سطح پر، ایمل دورکہیم جیسے ماہرین سماجیات نے بتایا ہے کہ معاشرے کی
بقا کے لیے اجتماعی اخلاقیات کا ہونا ضروری ہے۔ دورکہیم کے مطابق، جب
معاشرے میں اقدار کا فقدان ہو جاتا ہے، تو وہ انومی (anomie) کی طرف مائل
ہو جاتا ہے، جہاں انتشار اور بے راہ روی پیدا ہوتی ہے۔ اس تناظر میں،
میکاولی کا فلسفہ معاشرتی عدم استحکام کو جنم دے سکتا ہے، کیونکہ یہ
اجتماعی اخلاقیات کو کمزور کرتا ہے۔
اسلامی فلسفے میں امام غزالی کی کتاب "احیاء علوم الدین" اندرونی طہارت اور
روحانی تزکیے پر زور دیتی ہے۔ غزالی کے مطابق، ظاہری عبادات تب تک مکمل
نہیں ہو سکتیں جب تک ان کے پیچھے خلوص نیت نہ ہو۔ اسی طرح، قرآن پاک میں
ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہر اور باطن دونوں کو جانتا ہے۔ یہ آیات
اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اندرونی خوبصورتی کو مذہبی تعلیمات میں
مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
بدھ مت میں بھی 'نروان' کا تصور داخلی اطمینان اور خواہشات کے خاتمے سے
وابستہ ہے۔ گوتم بدھ کی تعلیمات کے مطابق، انسان کا مقصد دنیاوی طاقت کے
بجائے داخلی سکون کی تلاش ہونا چاہیے۔ یہ نقطہ نظر میکاولی کے فلسفے کے
بالکل متضاد ہے، جو خارجی طاقت کو حتمی مقصد سمجھتا ہے۔
تاریخ میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جہاں میکاولی کے اصولوں پر عمل کرنے
والے حکمران عارضی کامیابی تو حاصل کر لیتے تھے، لیکن آخرکار انہیں تباہی
کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر، نپولین بوناپارٹ نے یورپ پر قبضہ کرنے
کے لیے جنگیں لڑیں، لیکن آخرکار واٹرلو کی جنگ میں اس کی شکست ہوئی۔ اسی
طرح، ہٹلر نے میکاولی کے اصولوں کو انتہائی شکل دی، جس کے نتیجے میں دوسری
جنگ عظیم کی تباہیاں رونما ہوئیں۔ کاروباری دنیا میں بھی، اینرون جیسے
اداروں نے دھوکہ دہی اور طاقت کے بے جا استعمال سے عارضی کامیابی حاصل کی،
لیکن آخرکار انہیں دیوالیہ ہونا پڑا۔ یہ مثالیں بتاتی ہیں کہ میکاولی کا
فلسفہ طویل مدتی استحکام فراہم نہیں کر سکتا۔
یونانی فلسفی ارسطو نے "نقلیات" میں virtue ethics کا تصور پیش کیا، جس کے
مطابق انسان کو اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ ارسطو کا خیال ہے کہ ہر
عمل میں افراط و تفریط سے بچنا چاہیے۔ اس تناظر میں، میکاولی کا فلسفہ
تفریط کی مثال ہے، جہاں طاقت کو مطلق حیثیت دے دی گئی ہے۔ ارسطو کے نزدیک،
ایک کامیاب حکمران وہ ہے جو طاقت اور اخلاقیات کے درمیان توازن قائم کرے۔
جدید فلسفی جان راولز نے "تھیوری آف جسٹس" میں انصاف کے اصولوں پر زور دیا
ہے۔ راولز کا کہنا ہے کہ ایک منصفانہ معاشرہ وہی ہے جہاں کمزوروں کے حقوق
کا تحفظ کیا جائے۔ یہ نظریہ میکاولی کے تصورات کے بالکل برعکس ہے، جو
کمزوروں کو نظرانداز کرتا ہے۔
میکاولی کا یہ کہنا کہ "اندرونی خوبصورتی کمزوروں کے لیے ہے"، درحقیقت اس
کے عمومی فلسفے کی عکاسی کرتا ہے، جہاں طاقت اور حقیقت پسندی کو فوقیت دی
جاتی ہے۔ تاہم، تاریخ اور فلسفے کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محض
طاقت پر انحصار کرنا انسانی معاشروں کو عدم استحکام کی طرف لے جاتا ہے۔
افلاطون، کانٹ، گاندھی، اور جدید مفکرین کے نظریات اس بات کی تصدیق کرتے
ہیں کہ اندرونی خوبصورتی اور اخلاقیات معاشرتی تسلسل اور فرد کی داخلی
مطابقت کے لیے ناگزیر ہیں۔ میکاولی کے خیالات کو یکسر مسترد کرنا بھی درست
نہیں، کیونکہ عملی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں طاقت کا کردار اہم
رہا ہے۔ تاہم، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اخلاقیات کو بالکل نظرانداز کر
دیا جائے۔ ارسطو کے اعتدال کے تصور کی طرح، طاقت اور اخلاقیات کے درمیان
توازن ہی کامیاب معاشرے کی کلید ہے۔ آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ اندرونی
خوبصورتی کمزوری نہیں، بلکہ وہ قوت ہے جو انسان کو حقیقی معنوں میں آزاد
اور مکمل بناتی ہے۔
|